از✏️: مولانا محمد راشد گورکھپوری استاد مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور
الحمد لله العلي الاكرم، الذي علم الإنسان ما لم يعلم،وصلي اللہ على النبي الاعظم سيد العرب والعجم وعلي اله واصحابه وبارك وسلم،اما بعد:قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم –
مدرسہ مظاہر علوم ایک عالمی اور مرکزی ادارہ ہے،اسکا فیض چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے،ناموس رسالت کی حفاظت کی خاطر جہاں شمع رسالت کے پروانوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں وہیں مدرسہ مظاہر علوم اور اس کے علماء و فضلاء اور اکابر ومشائخ نے بھی قادیانیت کے تعاقب میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔
ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ ایک بنیادی ،حساس اور مرکزی عقیدہ ہے، اس عقیدہ کی اہمیت اور حساسیت ہی کا نتیجہ تھا کہ علماء مظاہر علوم شروع ہی سے باطل کے خلاف گرجتے اور برستے رہے اور ختم نبوت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
آپ مظاہر علوم کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے،علماء مظاہرعلوم کے حالات پڑھ لیجئے ،اکابر مظاہرعلوم کی سوانح عمری کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو پتہ چل جائےگا کہ قادیانیت کے خلاف ہمارے اکابر کی جد وجہد ہر دور میں جاری رہی ھے بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ اکابر مظاہر علوم نے فتنۂ قادیانیت کے ظہور سے پہلے ہی اسکی خطرناکی کو بھانپ لیا تھا۔قادیانیت ابھی ابتدائی دور میں چل رہی تھی اسکا اصلی چہرہ ابھی پردہ میں تھا اسی زمانہ میں مظاہر علوم کے ایک فرزند نے مرزا غلام کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی،اس فرزند جلیل کا نام ہے ’’حضرت مولانا عبدالمنان وزیرآبادی قدس اللّٰہ سرہ‘‘۔آپ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ کے شاگرد تھے،رد قادیانیت کے میدان میں آپکا شمار صف اول کے علماء میں ہوتا ہے، جب مرزا نے خادم اسلام کے روپ میں سب سے پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھی تو اس مرد قلندر نے اپنی فراست ایمانی سے اسی وقت مولانا ثناءاللہ امرتسری کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: مجھے شبہ ہوتا ہے کہ کسی دن یہ شخص نبوت کا دعویٰ کریگا:
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
خوب پہچانتے ہیں چور کو تھانے والے
بہت جلد ہو جائے گا آشکارا
کہ جگنوں کو سمجھے ہو تم اک شرارہ
پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے چشم وچراغ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی شخصیت مرجع خلائق کی حیثیت رکھتی تھی آپ 1878ءمیں مظاہر علوم سے فارغ ہو ئے اور 1890ءمیں مستقل قیام کے ارادے سے جب حرمین شریفین تشریف لے گئے توآپ کے پیر و مرشد، سرخیل علماء دیوبند حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے آپ کو خلافت دیتے ہوئے فرمایا۔
” پنجاب میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا اس کی روک تھام کیلئے آپ کا وہاں رہنا ضروری ہے آپ ہندوستان تشریف لے جائیں”
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت حاجی صاحب قدس اللّٰہ سرہ کی پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور مرزا نے اس کے اگلے ہی سال 1891ءمیں عیسیٰ مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیا اور پیر گولڑوی علیہ الرحمہ نے اس کی سر کوبی میں ایسا شاندار کردار ادا کیا کہ ان کے ذکر کے بغیر رد قادیانیت کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔
وہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی ہی تھے کہ جب مرزا نے عربی زبان میں تفسیر نویسی کا چیلنج کیا تو آپ نے قبول کر تے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے ہزاروں علماء کرام کو لیکر 25اگست 1900ءکے دن لاہور کی شاہی مسجد میں مرزا کو للکارا لیکن اسے سامنے آنے کی ہمت نہیں ہوئی، رد قادیانیت کی تاریخ میں یہ وہ یادگار دن ہے جو مرزائیت کی رسوائی کے لئے خاص ہوکر رہ گیا ہے ۔
وہ پیر صاحب ہی تھے جب مسیلمہ پنجاب نے عیسی ابن مریم ہونے کا دعویٰ کر کے تائید کے لئے پیر صاحب کو خط لکھا تو پیر صاحب شعلہ جوالہ بن گئے اور فورا تردیدی خط لکھ کر عیسیٰ کے رفع آسمانی کو ثابت کرتے ہوئے ’’شمس الہدایہ ‘‘ نامی کتاب تصنیف فرمائی اور مرزا کے دعوے کو خاک میں ملا دیا۔
آج ببانگِ دہل یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مرزایئوں کے لئےجہاں یہ کتاب سوہان روح ثابت ہوئی وہیں سعادت مندوں کے لئے ذریعہ ہدایت بھی بنی۔اس کتاب کو پڑھ کر اپنی قسمت سنوارنے والوں میں ایک بڑا نام مولانا حبیب اللہ کلرک کا بھی ہے جنہوں نے مرزایت پر لعنت بھیج کر اس کی تردید میں ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔
وہ پیر صاحب ہی تھے کہ جب مرزا نے ڈینگیں مارتے ہوئے۔’’اعجاز المسیح‘‘ لکھ کر اپنے ادیب ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا تو پیر صاحب نے”سیف چشتیائی” لکھ کر اس کی غلطیوں اور خامیوں کی نشاندھی کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ کتاب سرقہ سے اور چوری کرکے لکھی گئی ہے۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے پیر بھائی اور حضرت حاجی صاحب کے خلیفہ اجل اور مظاہر علوم کے سرپرست تھے، مرزا کی کتاب ’’انوار اسلام‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت گنگوہی 1894ءسے پہلے ہی فتوئ کفر دے چکے تھے۔ انکا فتویٰ کوئی عام فتویٰ نہیں تھا انکی طرف سے تکفیر کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ یہ آسمانی بجلی تھی جس نے مرزا کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اس کے دور رس اثرات سے وہ واقف تھا ۔اسی لئے وہ فتویٰ کی تاب نہ لا کر مولانا کو گالیاں دینے لگا ۔کبھی شیطان کہا۔ کبھی اندھا کہا۔کبھی شقی کہا۔ کبھی گمراہ دیو کہا اور کبھی ملعون کہہ کر پکارا۔ جب مرزا کی اسلام دشمنی ظاہر ہونے لگی اور اس پر ہر طرف سے لعنتوں کی بارش ہونے لگی تو اس نے مناظرہ کا ڈھونگ رچایا۔مباحثہ کا ڈھنڈورا پیٹا۔ مباہلہ کی دعوت دی ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مرزا کی یہ ساری باتیں محض ڈھونگ ثابت ہوئیں، کیونکہ مولانا گنگوہی کا سامنا کرنے کی اس میں ہرگز ہمت نہیں تھی ۔ چنانچہ حضرت گنگوہی مفاوضہ نمبر 17 میں لکھتے ہیں کہ:
’’شہر سہارنپور میں مرزا سے مناظرہ کرنا میں نے قبول کر لیا لیکن مرزا نہیں آیا‘‘
مرزا غلام کو ابھی دعوئ مسیحیت کئے ہوئے صرف چار سال ہوئے تھے 1895ءکی بات ہے کہ مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کے ہاتھوں مرزایت کو رسوا ہو نا پڑا انہوں نے دہرہ دون شہر میں قادیانیت کے چرب زبان وکیل احسن امروہوی سے مناظرہ کر کے مرزایت کی ضلالت وگمراہی سامعین پر واضح کر دی۔اور بتا دیا کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کی تفصیل اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو”النصر المبین” اور” نصرۃ الحق” میں پڑھ سکتے ہیں۔
قادیانیت کے خلاف ہمارے اکابر کی جد وجہد بے وجہ نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ وہ ختم نبوت کی دشمن اور اسلام کی باغی جماعت ہے۔شیخ العرب والعجم حضرت مولانا محمد زکریا کی نظر میں تحفظ ختم نبوت کس قدر اہم اور عظیم الشان فریضہ ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ سفیر ختم نبوت۔مناظر اسلام حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی جب مدینہ منورہ میں حضرت شیخ الحدیث سے بیعت ہونے کے لئے تشریف لائے اور حضرت سے روزوشب کا وظیفہ معلوم کیا تو حضرت نے انہیں اللّٰہ اللہ کی ضربیں نہیں بتائیں، استغفار کی تسبیحات نہیں بتائیں، سبحان اللہ، الحمدللہ کا وظیفہ نہیں بتایا، بلکہ جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ختم نبوت کی حفاظت یہی آپ کا وظیفہ ہے۔‘‘
بشیر احمد مصری قادیانی جماعت میں بڑا اونچا نام ہے۔یہ بیک وقت عربی،انگلش،اردو اور فارسی کا ماہر تھا،قادیانیت کے پرچار میں بڑا رول ادا کیا ہے،قادیانیوں کو اپنے اس فرزند پر بڑا ناز تھا،لیکن مرزائیوں کا سارا غرور اس وقت خاک میں مل گیا جب سنہ 1940ء میں مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری کی رہنمائی اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی موجودگی میں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوکر قادیانیت کے خلاف مورچہ سنبھال لیا۔
قادیانیت کی تاریخ میں مقدمہ مرزائیہ بہاولپور کو جو برتری اور اہمیت حاصل ہے وہ تحفظ ختم نبوت کی تاریخ کا حسین باب ہے اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ عائشہ نامی لڑکی کا نکاح بچپن میں ایک لڑکے سے کر دیا گیا تھا،کچھ سالوں کے بعد جب رخصتی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ لڑکا قادیانی ہوگیا ہے اس لڑکی کے باغیرت والد نے بھیجنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تیرے کافر اور مرتد ہونے کی وجہ سے نکاح فسخ ہو چکا ہے،لڑکے نے دعوی کیا کہ قادیانیت اسلام ہی کی ایک جماعت ہے اس کا ماننے والا اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس لیے میرا نکاح باقی ہے،اس تکرار کے بعد معاملہ بہاولپور کی عدالت میں چلا گیا اور یہ مقدمہ سنہ1926ء میں دائر کیا گیا،نو سال تک تفصیلی بحثیں ہوئیں،تحفظ ناموس رسالت کی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان کے چوٹی کے علماء اس بحث میں شریک ہوئے۔اللہ اکبر ایسی زور دار بحثیں ہوئیں کہ چشم فلک نے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا ہوگا،اس تاریخی مقدمے میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوریؒ، جیسے اکابر علماء نے جہاں دلائل و براہین کے انبار لگا دیے،وہیں جامعہ مظاہرعلوم کے ناظم حضرت مولانا عبداللطیف صاحب اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری نے قرآن و حدیث کے دلائل مہیا کرکے قادیانی مکاریوں کے پرخچے اڑا دیے، بالآخر 9/سال کے بعد سنہ 1935ء میں جناب محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ قادیانی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔نو سال کی بحث کے بعد ایک بار پھر دنیا نے دیکھا کہ اسلام جیت گیا اور قادیانیت ہار گئی۔
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
حضرت مولانا نور محمد نانڈوی سنہ 1925ء میں مظاہر علوم سے فارغ ہوئے،آپ صرف مبلغ و مقرر ہی نہیں، بلکہ امام المناظرین بھی تھے،کئی مناظروں میں قادیانیوں کو شکست دے کر ناموس رسالت کی پاسبانی کی ہے،قادیانیت کے تعاقب میں دور دراز ملکوں کا سفر کر کے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا ہے،دہلی سے بمبئی تک،کراچی سے پشاور تک،پشاور سے خیبر تک اور ہندوستان سے فرانس اور افریقہ تک قادیانیت کا تعاقب کیا ہے پنجاب میں جب یہ فتنہ زوروں پر تھا اور جس وقت مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری اور مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اپنی شعلہ بیانی سے قادیانیت کی دھجیاں بکھیر رہے تھے تو اس وقت مولانا نورمحمد ٹانڈوی بھی اپنی گرماگرم تقریروں سے قادیانیت کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔
یہ وہی مولانا ٹانڈوی ہیں کہ جب مرزا نے رنڈیوں اور بازاری عورتوں سے بڑھ کر گالیاں دیتے ہوئے تہذیب و شرافت کا جنازہ نکالا تو انہوں نے ’’مغلظات مرزا‘‘ لکھ کر بتا دیا کہ فحش گالیوں کی رٹ لگانے والا یہ بدزبان انسان مہدی ومسیح تو کجا ایک شریف انسان بھی نہیں ہو سکتا۔
یہ وہی ٹانڈوی ہیں کہ جب مرزا نے کافرانہ و ملحدانہ نظریات پیش کرکے انہیں اسلام باور کرانے کی کوشش کی تو انہوں نے ’’دفع الالحاد‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس کی دجالی تاویلات کو بھسم کر دیا۔
یہ وہی ٹانڈوی ہیں کہ جب مالیخولیا،مراق اور مرگی جیسی مہلک بیماریوں نے مرزا کو جکڑ لیا تو انہوں نے ’’امراض مرزا‘‘لکھ کر اسے خدائی عذاب کا مورد اور نشان عبرت بتایا۔
یہ وہی ٹانڈوی ہیں کہ جب مرزا مغل برلاس سے ترقی کرکے اسرائیلی بنا اور عیسی مسیح ہونے کا دعوی کر کے کرشن اوتار ہونے کا راگ الاپا تو انہوں نے ’’کرشن قادیانی آریہ تھے یا عیسائ‘‘ نامی کتاب لکھ کر اسکا دجال و کذاب ہونا ثابت کیا۔
یہ وہی ٹانڈوی ہیں کہ جب مرزا نے مسیح و مہدی ہونے کا دعوی کیا،جے سنگھ بہادر اور رُدْرگوپال ہونے کا دعویٰ کیا ،آدم و نوح ہونے کا دعوی کیا،بی بی مریم اور ابن مریم ہونے کا دعویٰ کیا ،خدا کا بیٹا اور خدا کا باپ ہونے کا دعوی کیا،حائضہ اور حاملہ ہونے کا دعوی کیا،سلمان فارسی اور چینی ہونے کا دعوی کیا تو انہوں نے ’’اختلافات مرزا‘‘ لکھ کر اسی کی تحریر سے اس کا مراقی اور پاگل ہونا ثابت کیا۔
یہ وہی امام المناظرین ہیں کہ جب مرزا نے قرآن و حدیث میں تحریف کرتے ہوئے ظلی بروزی نبوت کا ڈھونگ رچایا اور طرح طرح کے کفریات کا پرچار کیا تو انہوں نے ’’کفریات مرزا‘‘ لکھ کر اس کا کافر ہونا ثابت کیا:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی
متنبیٔ پنجاب مرزا غلام قادیانی ابھی زندہ تھا، مکہ و مدینہ کے علماء نے محدث جلیل حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کو 26سوالات بھیجے جن میں آخری سوال کا تعلق مرزا قادیانی کے کفر سے تھا،محدث شہیر نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے اکابر بہت پہلے سے اسے کافر قرار دے چکے ہیں اور مولانا گنگوہیؒ کا فتویٔ کفر آسمانی بجلی بن کر خرمنِ مرزایت میں آگ لگا رہا ہے،المہند علی المفند میں آپ آج بھی اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔
انہی کے فیض یافتہ شیخ یعقوب پٹیالوی نے دو جلدوں میں ایسی زبردست کتاب لکھی کہ حضرت سہارنپوری نے اسے ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کے ہم پلہ قرار دیا ایک کا نام ’’عشرہ کاملہ‘‘ اور دوسری کا ’’تحقیق لا ثانی‘‘ ہے، طباعت کے تقریباً پچاس سال بعد 1974ء میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب امین عام مدرسہ مظاہر علوم کے ہاتھوں دوبارہ شایع کرا کر اسے نایاب ہونے سے بچا لیا۔
میرے بزرگو اور بھائیو!عطاءاللہ شاہ بخاری کی گھن گرج اور شعلہ بیانیوں سے کون ناواقف ہے،مرزائیت ان کے نام سے کانپ اٹھتی تھی،لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قادیانیت کے خلاف ان کو شعلہ جوالا بنانے میں مظاہر علوم کے ایک فرزند کا ہاتھ ہے جس کو دنیا مولانا نور احمد امرتسری کے نام سے جانتی ہے، مولاناسنہ 1880ء میں مظاہر علوم سے فارغ ہوئے،انہوں نے امرتسر میں ’’حفظ المسلمین‘‘ کے نام سے انجمن قائم کرکے جہاں ایک طرف قادیانیت کے خلاف بیداری پیدا کی اور بڑے پیمانے پر لٹریچر کی اشاعت کی، وہیں قادیانیت کی سرکوبی کے لیے اپنے شاگردوں کی ایک کھیپ بھی تیار کر دی جس میں ایک بڑا نام عطاءاللہ شاہ بخاری کا ہے، ’’استنکاف المسلمین‘‘ آپ ہی کی تصنیف ہے جسے مقدمۂ بہاولپور میں پیش کرکے قادیانیت کو زیر کیا گیا۔
حق کی تائید و نصرت میں ید طولیٰ رکھنے والے اور قصر باطل میں زلزلہ پیدا کردینے والے حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب کی ایمان افروز داستان بھی پڑھئے! آپ سنہ 1930ء میں کریم پور ضلع جالندھر میں قادیانیوں سے ہونے والے ایک مناظرے میں شریک ہوئے،اس مناظرہ میں رئیس الاساتذہ حضرت مولانا عبدالرحمن کاملپوری اور حضرت مولانا عبدالرحمن ٹانڈوی بھی شریک تھے۔وہ مناظرہ کیا ہوا کہ مرزائیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،اسی وقت تیرہ مرزائی قادیانیت سے تائب ہو کر مشرف باسلام ہو گئے۔
مدرسہ مظاہر علوم کی تاریخ لوہے کے پہاڑ پر لوہے کے قلم سے لکھی ہوئی ہے جو مٹانے سے مٹ نہیں سکتی،اس کی سنہری تاریخ معلوم کرنی ہو تو تاریخ کے صفحات سے پوچھو! وہ تمہیں بتائیں گے کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے 15جون 1909ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن، مناظر اسلام مولانا مرتضی حسن چاندپوری،حکیم الامت حضرت تھانوی کے ساتھ شرکت فرماکر ریاست رامپور کے مناظرہ میں محمد احسن امروہوی،سرور شاہ قادیانی اور خواجہ کمال الدین کو زیر کیا ۔ حضرت مولانا نے قصبہ لنڈھورا ہریدوار میں قادیانیوں سے مناظرہ کرکے انھیں شکست دی۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے دسیوں کتابیں تصنیف کر کے حفاظت ایمان کا سامان فراہم کیا۔حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی نے ’’نزول عیسی‘‘ اور ’’الجواب الفصیح‘‘ جیسی شاندار کتابیں لکھ کر امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت فرمائی۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن کیرانوی نے "اظہار البطلان” لکھ کر قادیانیوں کی لاہوری جماعت کو بے نقاب کیا. حضرت مولانا عبدالمنان وزیرآبادی نے مولانا ثناءاللہ امرتسری کی تربیت کرکے مرزائیت کی سرکوبی کے لیے انہیں کھڑا کیا۔حضرت مولانا محمد علی مونگیری مظاہری نے سو سے زیادہ کتابیں لکھ کر قادیانیت کی تردید فرمائی ۔
مدرسہ مظاہر علوم کی یہ تاریخ بھی سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ سنہ 1921ء میں جب شدھی تحریک نے جنم لیا اور اس کے محرک اعلی سوامی شردھانند نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ناپاک مہم چلائی تو مدرسہ مظاہرعلوم نے اس اسکیم کو ناکام بنانے کے لیے دعوتی طریقہ کار اپنایا اور متاثر علاقوں میں وفد بھیج کر مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت فرمائی۔ ارتداد کا یہ فتنہ جب زور پکڑنے لگا اور اس کی خطرناکی و زہر ناکی کا اثر دور دراز تک محسوس ہونے لگا تو مدرسہ مظاہرعلوم کے ناظم حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب نے ’’فتنہ ارتداد اور مسلمانوں کا فرض‘‘ لکھ کر آریہ سماجی فتنہ سے آگاہ کیا اور مدرسہ نے متاثرہ علاقوں میں علما کا وفد بھیج کر مسلمانوں کو ایمان واسلام سمجھایا، پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مبلغین و مناظرین کی ایک جماعت تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور انجمن ہدایت الرشید کے تحت ایسے سپوت تیار کیے جو بیک وقت عالم بھی تھے، مقرر بھی تھے، مدرس بھی تھے، مصنف بھی تھے، اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ مذاہب غیر کا مطالعہ بھی رکھتے تھے۔
اسی سلسلے کی ایک خوبصورت کڑی شعبہ تحفظ ختم نبوت کا قیام بھی ہے۔ جب ارباب مدرسہ نے محسوس کیا کہ قادیانیت کے خلاف تربیت سازی اور افراد سازی کی ضرورت ہے تو انہوں نے سنہ 1994ء میں تحفظ ختم نبوت کا شعبہ قائم کیا آج الحمدللہ اس شعبے کی خدمات دور و نزدیک جاری و ساری ہیں۔مباحثے اور مناظرے کی ضرورت پڑتی ہے تو مناظرے کئے جاتے ہیں لٹریچر تقسیم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو لٹریچر تقسیم کئے جاتے ہیں، تصنیف و تالیف کی ضرورت پڑتی ہے تو کتابیں لکھی جاتی ہیں، اب تک دسیوں پمفلٹ اور رسالے شائع ہو چکے ہیں۔ سنہ 2005ء کے بعد جب کذاب زمانہ مدعی مہدویت شکیل بن حنیف نے ’’مہدی کی آمد کی پیشگوئیاں‘‘ نامی کتاب لکھی تو ’’اسلام مخالف نظریات‘‘ لکھ کر اس کی باطل تاویلات کا جواب دیا گیا، 2014ء میں جب تحفظ ختم نبوت کے کام پر اعتراض کیا گیا تو ’’ایک غلط فہمی کا ازالہ ‘‘لکھ کر اس کام کی اہمیت سمجھائی گئی، مظاہر علوم کی یہ خدمات ہمیں بتارہی ہیں کہ:
چرچے رہے ہیں میرے باطل کی سرحدوں میں
گونجے ہیں میرے نغمے، شہروں میں وادیوں میں
الحمدللہ شعبہ تحفظ ختم نبوت اپنے روز قیام ہی سے خدمات دینیہ اور ناموس رسالت کی پاسبانی میں مصروف ہے، اس وقت تین اساتذہ مولانا محمد اکرم صاحب بستوی، مفتی محمد جاوید صاحب سہارنپوری اور راقم الحروف بندہ محمد راشد گورکھپوری تدریسی خدمات میں مشغول ہیں، شائقین کے لئے تدریسی خدمات سے استفادہ کے دو طریقے مقرر کئے گئے ہیں (1)سالانہ کورس میں داخلہ (2) سہ ماہی کورس میں داخلہ-
سالانہ کورس میں صرف وہی طلبہ داخلہ کے مستحق قرار پاتے ہیں جو دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کرچکے ہوں؛خواہ وہ کسی بھی مستند مدرسہ کے فاضل ہوں، ان داخل طلبہ کو قیام وطعام کی تمام سہولتوں کے ساتھ 500/روپئے نقد ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے- اور قلیل الفرصت طالبین کے لئے سہ ماہی کورس کا نظام رکھا گیا ہے، اس نظام کے تحت مساجد کے ائمہ، مدراس ومکاتب کے مدرسین اور عصری درسگاہوں کے اساتذہ وطلبہ سہ ماہی کورس میں داخلہ لے کر تربیت حاصل کرسکتے ہیں، سہ ماہی کورس کرنے والے حضرات کو قیام وطعام کی سہولتوں کے ساتھ ماہانہ 1000/روپئے کا نقد وظیفہ دیا جاتاہے-اب تک ڈیڑھ سو کے قریب افراد یہاں سے تخصص کرکے دین متین کے تحفظ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں-
اللّٰہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنائے-آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم-
اللہم ارناالحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ-