عالمی یومِ اطفال اور فلسطینی بچوں کی گرفتاری کے اعداد وشمار

خورشید عالم داؤد قاسمی٭

دنیا بھر میں، "عالمی یومِ اطفال” نومبر کی بیسویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار دار کے ذریعے 20 نومبر کو، "عالمی یومِ اطفال” کے طور پر منظوری دیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی پرورش، ترقی اور فلاح وبہبود کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر بات کی جائے اور سماج و معاشرے کے ہر فرد کو بچوں کے حقوق، ان کی ضروریاتِ زندگی وغیرہ سے واقف کرایا جائے۔ اس سال، عالمی یومِ اطفال سے ایک دن پہلے، یعنی بروز: سنیچر، 19/نومبر 2022 کو ،فلسطینی اسیران کے لیے قائم ادارہ: پی پی ایس  (Palestinian Prisoners Society)  نے، فلسطینی بچوں کے حوالے سے  یہ اعداد وشمار پیش کیا کہ سال رواں (نومبر 2022) میں، اب تک اسرائیلی دہشت گرد قابض فوج نے 750 فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ رپورٹ مکمل سَن 2022 کا احاطہ نہیں کرتی ہے؛ کیوں ابھی اس سال کے مکمل ہونے میں، ایک مہینے سے زیادہ کی مدت باقی ہے۔ پی پی ایس کی رپورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان گرفتار شدہ بچوں میں سے کئی ایک زخمی حالت میں اور کئی ایک بچے بیمار تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ غاصب اسرائیل کے جیلوں میں قید کیے گئے بچوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی و جسمانی تشدد برداشت کرکرکے، نفسیاتی عوارض کا شکار ہوچکی ہے۔ اس صورت میں بھی جیل کے ظالم حکام ان بچوں کو علاج کے لیے مناسب سہولت فراہم نہیں کرتے۔ یہ رپورٹ عالمی یومِ اطفال کے موقعے سے، اسرائیلی قابض فوج کی فلسطینی بچوں پر مظالم کے حوالے سے ایک اہم پہلو کو اجاگر کرتی  ہے۔

ایک دوسری رپورٹ کے مطابق، سال رواں (2022) میں، اب تک اسرائیلی قابض افواج کی درندگی کا نشانہ بن کر، 40 فلسطینی بچے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔  فلسطینیوں کی دھرتی پر، ان کی آنکھوں کے سامنے، قابض صہیونی ریاست اسرائیل کی فوج کے ہاتھوں شہید اور زخمی ہونے والے بچوں کی یہ بڑی تعداد کسی بھی مہذب قوم، محب انسانیت اور عقل وشعور رکھنے والے انسان کے لیے تشویشناک ہے۔ یہ سال رواں کی رپورٹ ہے؛ جب کہ اس سال کے مکمل ہونے میں، ابھی بھی  ایک مہینہ ، دس دن باقی ہیں۔ اگر ہم اس حوالے سے  گذشتہ سال کی رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں؛ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سن 2021 میں صہیونی ریاست کی مسلح فوج کے ہاتھوں 78 بچے شہید کیے گئے جن کا تعلق غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے تھا۔  ایک فلسطینی تنظیم "فلسطینین چائلڈ آرگنائزیشن” کے اعدادو شمار کے مطابق، ان شہید ہونے والے میں سے 17 بچوں کو اسرائیلی افواج نے براہ راست اسلحے کا نشانہ بنایا۔

صہیونی ریاست اسرائیل کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے معصوم فلسطینی بچوں کے تقریبا گیارہ مہینے کے اعداد وشمار کے بعد، قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان ظالم صہیونی افواج مجموعی طور پر فلسطینیوں کو کتنی بڑی  تعداد میں گرفتار کرتی ہوگی؟ اس حوالے سے صرف گذشتہ ایک ماہ یعنی اکتوبر میں کتنے فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، فلسطین سینٹر فار پریزنرز اسٹڈیز (Palestine Center For Prisoners Studies)  کی ایک رپورٹ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔ اس رپورٹ سے آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ صہیونی قابض افواج  صرف ایک مہینے میں، کتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو گرفتار کرتی ہے۔

ابھی اوائل نومبر 2022 میں، فلسطین سینٹر فار پریزنرز اسٹڈیز  نے گذشتہ ماہ یعنی صرف اکتوبر 2022 میں، اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں 595 فلسطینیوں کی گرفتاری کا اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے۔گرفتار ہونے والوں میں 76 کم سن بچے اور 22 خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محقق ریاض الاشقر نے بتایا کہ بیت المقدس میں 290 سے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، جن میں 41 بچے، 18 خواتین اور لڑکیاں شامل ہیں، 110 گرفتاریاں مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف اور قریبی گلیوں سے کی گئیں۔ پھر شعفاط، العیسویہ اور سلوان کے قصبے سے بھی فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔

یہ فلسطینی معصوم بچے اور بڑے بوڑھوں اور خواتین کی گرفتاری اور قتل کے حوالے سے صہیونی ریاست اسرائیل کےفوج کی ظالمانہ داستان ہے۔ صہیونی فوج کی حیوانیت و درندگی ، صرف فلسطینیوں کی گرفتاری اور قتل تک ہی محدود نہیں ہے؛ بل کہ وہ فلسطینیوں کی املاک کو تباہ وبرباد کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ جب بھی موقع ہاتھ لگتا ہے؛ تو صہیونی فوج اور صہیونی آباد کارفلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے، ان کے کھیتوں میں لگی فصلوں کو جلانے اور ان کے باغات کو اکھاڑ پھیکنے سے نہیں چوکتے۔   ماہ رواں، یعنی آٹھ نومبر کی رپورٹ ہے کہ قابض اسرائیلی افواج اور دہشت گرد یہودی آباد کاروں نے مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں اور ان کی املاک پر حملے کیے۔ اسرائیلی قابض افواج کی موجودگی میں، مقبوضہ بیت المقدس کے شمال مشرق میں، شعفاط کیمپ میں، احمد عیسی کی بیکری کو مسمار کردیا۔  یہ بیکری ایک سو دس مربع میٹر کے رقبہ پر واقع ہے۔ احمد عیسی نے یہ بیکری ایک لاکھ شیکل (تقریبا چوبیس لاکھ روپے) کی رقم خرچ کرکے تعمیر کی تھی۔ ایک دوسری رپورٹ میں ہے کہ رام اللہ شہر کے مغرب میں واقع "قبایا” گاؤں میں، اسرائیلی قابض فوج ایک بڑی تعداد بلڈوزر کے ساتھ پہنچی اور ایک فلسطینی شہری کا دو منزلہ مکان مسمار کردیا۔ مکان کے مالک نے تمام تر دستاویزات اور قانونی تقاضے پورے کیے، مگر ان دستاویزات  پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور گھر مسمار کردیا گيا۔

ماہ رواں (نومبر 2022) کی ہی ایک خبر ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے "سلفیت” جو غرب اردن کا شمالی شہر ہے، اس میں فلسطینیوں کی قیمتی زرعی اراضی میں کھدائی کی۔ اس جگہ پر فلسطینیوں کا ہرا بھرا زیتون کا ایک باغ تھا جسے فوج نے اکھاڑ پھینکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس باغ میں زیتون کے دو ہزار پھلدار پودے تھے، جنھیں قابض فوج نے تلف کردیا گیا۔ آج کل گلوبل وارمنگ کی وجہ سے، دنیا میں شجر کاری کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ درخت لگانے والوں کو حکومتی سطح پر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسرائیلی قابض صہیونی فوج ایک وقت میں، دو ہزار زیتون کے درخت کو اکھاڑ پھینکتی ہے۔ اگر اس کی وجہ پر غور کریں؛ تو اس کے علاوہ کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ ان درختوں کا مالک ایک فلسطینی مسلمان ہے۔ ہم اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس پاک ذات نے ہمیں ایک ایسے دین کا پیروکار بنایا، جس میں شجرکاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

کچھ اداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پولیس فلسطینی بچوں کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے جو کچھ کر رہی ہے، وہ مبینہ طور پر بچوں کو قانون میں حاصل حقوق اور تحفظ کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ صہیونی اسرائیلی پولیس کبھی بچوں کو رات کے وقت ان کے گھر سے اٹھا لیتی، کبھی کوئی بچہ کچھ سامان خریدنے کے لیے گھر سے باہر جاتا ہے اور وہ بچہ گھر واپس نہیں آتا۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس بچے کو اسرائیلی پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔   پولیس گرفتاری کے بعد، ان بچوں کو زدو کوب کرتی ہے۔ پھر وہ ان گرفتار شدہ بچے کو تفتیشی مرکز لے جاتی ہے۔ ان سے کسی بھی واقعہ کے متعلق پوچھ گچھ کیا جاتا ہے۔ دوران تفتیش ان بچوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس مبینہ  طور پر تشدد سے پیش آتی ہے، ان بچوں کے خلاف وحشیانہ اور انتقامی طریقہ اپناتی ہے۔ اسرائیلی پولیس پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ تفتیش کے دوران بچوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر باندھ دیتی ہے۔پولیس ان بچوں سے اپنی نام نہاد تفتیش کے بعد، جیل بھیج دیتی ہے۔

جو فلسطینی بچے اور بچیاں اسرائیل کی جیل میں قید اور نظر بند ہیں، ان کے حوالے سے اسرائیلی فوج کا ہمیشہ یہ دعوی رہا ہے کہ وہ ان کی قومی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہیں۔ بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر، اسرائیل ان بچوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ خلاف ورزیوں پر عمل پیرا ہے۔ ان بچوں کو گرفتاری کے بعد، ایک غیر مناسب انسانی ماحول میں، حراست میں رکھا جاتا ہے۔ ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح صہیونی افواج فلسطینی شہریوں، بچوں اور خواتین کے خلاف مہلک ہتھیاروں اور طاقت کا بھرپور استعمال کرتی ہے، وہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ وہ اسرائیلی جیل جن میں فلسطینیوں کو قید کرکے رکھا جاتا ہے، وہ ایک طرح کے عقوبت خانے ہیں۔ وہاں فلسطینی قیدیوں کے دلوں میں دہشت اور خوف پھیلانے اور ایک پورے سماج کو ظلم اور بربریت کے ذریعے قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے؛ تاکہ وہ رہائی کے بعد، فلسطین کے حق میں آواز نہ اٹھائے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صہیونی حکومت کی سرپرستی میں، قابض افواج کے ذریعے فلسطینیوں کابہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ اپنی خود مختاری اور مسجد اقصی کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والے ہر فلسطینی کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ  اور دوسرے عالمی ادارے فلسطینی بچوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف ہو رہے ظلم کی تحقیقات کرواتیں۔ صہیونی اسرائیلی حکومت کو بچوں کے حقوق کو پامال کرنے والی حکومتوں کی فہرست میں شامل کرواتیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان ممالک کوئی ایسی قرارداد پاس کرواتے  جس کی رو سے غاصب اسرائیلی حکومت کو ان نقصانات کی تلافی کےلیے  مجبور کیا جاتا۔مگر فی الحال ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی؛ کیوں کہ غیر منصفانہ طور پر غاصب اسرائیلی حکومت کو امریکہ اور کچھ مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فلسطین سے کسی ملک کا کوئی مادّی مفاد وابستہ نہیں ہے۔بہرحال، ہمیں یہ امید ہے کہ دہشت گرد اسرائیلی حکومت، اس کی اجڈ افواج اور ظالم صہیونی پولیس فلسطینیوں کے خلاف جن جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے؛ اس کی قیمت ایک نہ ایک دن ان کو چکانی پڑے گی اور فلسطینی سرخرو ہوں گے، ان شاء اللہ۔

●●●●

٭مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے