مستشرقین کے طرز تحریر سے دھوکا نہ کھائیں

ڈاکٹر مفتی عبید اللہ قاسمی

اگر کسی کتاب، تحریر یا تقریر میں کسی شخص یا طبقے کے بارے میں مدح وستائش سے آغاز ہوتا ہے تو اس کا مطلب عموماً یہ ہے کہ اس کے اندر خامیاں نکالنے کے لئے میدان ہموار کیا جارہا ہے اور قارئین وسامعین کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ مصنف یا مقرر بہت انصاف پسند اور غیر جانبدار ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے صرف خامیاں ہی نہیں بلکہ خوبیاں بھی بیان کردی ہے. کسی پر تنقید کرنے کا یہ جدید طریقہ دریافت ہوا ہے. ایسے طریقے میں قارئین کو چند سرسری تعریفیں گوش گزار کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد “آمدم بر سرِ مطلب” کی کاروائی انجام دی جاتی ہے. جدید مستشرقین کا یہی رویہ ہے. وہ اسلامی تعلیمات پر تنقید ایسے انداز میں نہیں کرتے ہیں کہ قاری فوراً بدک جائے اور اسے تنقید کا احساس ہوجائے بلکہ بہت دھیمے انداز میں اور اسلام کی خوبیوں کے اعتراف کی آمیزش کے ساتھ کرتے ہیں. یہ Sugar coated poison (شکر آمیز زہر) ان کے سابقہ واضح اسلوب سے زیادہ نقصان دہ ہے. انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں اسلامک سینٹر میں ایسے موضوعات پر تین ہفتوں تک intensive lecture series میں نے attend کیئے تھے. عطاء اللہ صدیقی مرحوم صاحب اور دیگر متعدد اصحابِ علم نے مستشرقین کی علمی چالبازیوں پر بھر پور روشنی ڈالی تھی. ان کے لیکچرز سے مستشرقین اور اسلام پر حملہ آور مصنفین کو سمجھنے کا اچھا موقعہ ملا. اللہ تعالی ان حضرات کو جزائے خیر دے! ان لیکچرز کے مطابق پہلے مستشرقین اسلامی تعلیمات پر بہت واضح طور پر حملہ آور ہوتے تھے جو فوراً قاری کو محسوس ہوجاتا تھا اور وہ شکار نہیں بنتا تھا مگر اب بہت غور سے ہی سمجھ میں آئے گا کہ انہوں نے کیا گُل کھِلادیا. وہ تنقیص بھی کرینگے اور ساتھ ساتھ تعریف بھی. تعریف کی ایسی آمیزش تنقیص کو قاری کے ذہن میں اتارنے کے لئے معاون ہوتی ہے اور جگہ جگہ مصنف کے ذریعے تعریف سے قاری اسے بہت نیک اور غیر جانبدار محقق وتجزیہ نگار سمجھ بیٹھتا ہے اور بالآخر اس کا مرید بن جاتا ہے.

مستشرقین کے ذریعے اسلام پر تنقید کے موضوعات آج بھی تقریباً وہی ہیں جو پہلے کے مستشرقین کے تھے یعنی غلامی، عورت, مساوات وغیرہ. یہ مستشرقین عورت اور غلامی کے بارے میں عیسائیت اور یہودیت کی تعلیمات کو سامنے لاکر اسلام سے کبھی تقابل پیش نہیں کرینگے بلکہ اسلام کا مقابلہ آج کے نظریات سے کرینگے اور وہ بھی تلبیس کرکے. وہ مساوات کا مطلب ظاہری مساوات سمجھتے ہیں. ان کے میزان پر دیکھا جائے تو ہاتھ پاؤں کی انگلیاں عدمِ مساوات کی شکار نظر آئینگی اور عورت اور مرد کی طاقت بھی عدمِ مساوات کی مظہر ہوگی، عورت ومرد کے حصہِ میراث میں بھی انہیں عدمِ مساوات نظر آئے گا جبکہ حقیقی مساوات وہ ہے جو مقصد کے اعتبار سے ہو، نہ کہ محض ظاہری طور پر. حقیت یہ ہے کہ ہاتھ پاؤں کی مختلف سائز کی انگلیوں میں کامل مساوات کار فرما ہے کیونکہ ان کے ذریعے جن کاموں کو انجام دینا ہے اس کے لئے یہی وضع مناسب ہے. اسی طرح مرد کی طاقت اگر جسمانی اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے تو عورت کی طاقت جذبات کے اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے جس سے بچے کی پرورش وپرداخت میں آسانی ہوتی ہے. میراث کا حال یہ ہے کہ اسلام میں عورت کے ذمہ خرچ کرنا نہیں بلکہ مرد سے خرچ کروانا ہے خواہ وہ بیٹی، بہن، بیوی یا کچھ بھی ہو جبکہ مرد کے ذمے خرچ کرنا ہے یعنی مرد مال خرچ کرنے والی مخلوق ہے جبکہ عورت اپنے اوپر خرچ کروانے والی مخلوق ہے لہذا عورت سے دوگنا مرد کا حصہِ میراث عین تقاضہِ مساوات ہے. ظاہر بیں نگاہ اسے جَھٹ عدمِ مساوات کہدیگی مگر حقیقت بیں نگاہ اس مساوات پر سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہوگی.

خلاصہ یہ کہ مستشرقین کی کتابوں اور تحریرات کو ہمیں سرسری طور پر پڑھنے کی بجائے بہت گہرائی کے ساتھ اور چوکنا ہوکر پڑھنے کی ضرورت ہے اور ان کے بین السطور تک پہنچنے کی ضرورت ہے.

وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَا تَسْمَعُواْ لِهَٰذَا ٱلْقُرْءَانِ وَٱلْغَوْاْ فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ.

کفارِ مکہ قرآنِ کریم کی مقناطیسیت اور تاثیر سے اس قدر حواس باختہ تھے کہ انہوں نے لوگوں کو قبولِ اسلام سے روکنے کے لئے یہ تجویز منظور کی کہ قرآنِ کریم جہاں لوگوں کو سنایا جائے وہاں خوب شور کیا جائے اور ہنگامہ مچایا جائے تاکہ قرآن کی آواز دب جائے اور کانوں تک نہ پہنچ سکے اور کفار غالب ہوجائیں بلکہ ابو جہل نے اپنے متبعین کو یہاں تک کہہ ڈالا کہ جب (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنائیں تو ان کے چہرے پر چیخو، چلاؤ. یہ زمانہ جاہلیت کا تھا. نبی علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی جہدِ پیہم اور مسلسل تبلیغ کا یہ نتیجہ نکلا کہ جاہلیت نے دم توڑا، ظلمت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا آفتاب جزیرۃ العرب میں چمکنے لگا اور پھر یہ روشنی دنیا کے دوسرے خطوں تک جا پہنچی.

آج دنیا ایک بار پھر لوٹ کر اسی جاہلیت میں مبتلا ہوچکی ہے. اور آج بھی جب اسلام کی آواز لگائی جاتی ہے تو ابوجہل میڈیا اسلام کی آواز پر چیختا ہے، اور حواس باختہ ہوکر بھونکتا ہے تاکہ کہیں دنیا اسلام کی آواز کو غور سے سن نہ لے اور متأثر نہ ہوجائے. موڈرن جہالت والا یہ میڈیا اسلام پر طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے جبکہ اسلام ان چیزوں سے بالکل بری ہے. آج موڈرن جہالت کے علمبرداران آزادی کے نام پر بالکل ننگے ہوچکے ہیں، عورتوں کو Use and throw کا سامان بنا رکھا ہے، عمر ڈھلنے پر تنہا مرنے کے لئے old age home کا راستہ دِکھادیتے ہیں, سودخوری عروج پر ہے اور لواطت کی تحریکیں دنیا بھر میں چلارہے ہیں. ابھی قطر نے اپنے ملک میں شراب اور تحریکِ لواطت کی ممانعت جب کی تو موڈرن جہالت والے میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا. مگر موڈرن جہالت کے میڈیا کے ذریعے والغوا فيه لعلكم تغلبون کے نعرے سے متأثر ہوکر تبلیغِ اسلام چھوڑنے کی بجائے اہلِ اسلام کو اپنی کوششیں اور تیز کردینی چاہئے. یہی اسوہِ رسولِ اکرم کا تقاضہ ہے.

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے