مفتی محمد قاسم اوجھاری
ہندوستان میں ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمان بے بسی کے عالم میں سلامتی کی راہیں تلاش کررہے تھے، ان کے جاہ و جلال اور عظمت واقتدار کا پرچم ماند پڑ رہا تھا، مئی 1857ء میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ ایوان اقتدار اتنا دھماکے کے ساتھ گرا کہ پورے ملک میں زلزلہ آگیا تھا، ہر گھر کی در ودیوار ہل گئی تھی، مذہب اسلام پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے تھے، باطل مذاہب سینہ تان کر کھڑے ہو رہے تھے، کسی طرف نیچریت کا غلبہ تھا، تو کسی جانب اعتزال ودہریت کا، کہیں رفض وتشیع کا دور تھا، تو کہیں خروج کا، ایک طرف عدم تقلید پھیل رہی تھی، تو دوسری طرف قرآنیت ومرزائیت کا بیج پڑ رہا تھا، کہیں قبر پرستی وتعزیہ پرستی عروج پر تھی، تو کہیں اولیاء اللہ کی توہین اور بد زبانی ہو رہی تھی؛ غرض معاشرہ افراط وتفریط کا شکار ہوگیا تھا۔ نتیجتا مسلمان بدعات وخرافات اور مشرکانہ رسم و رواج میں مبتلا ہوگئے تھے۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر ایک شخصیت وجود میں آئی، جو اپنے مضبوط کردار اور حیرت انگیز کارناموں کی وجہ سے تاریخ کا عنوان بن گئی؛ جس نے مسلمانوں کو ذلت وپستی کے غار سے نکال کر اوج ثریا پر لانے کی جد وجہد کی، مسلمانوں کو بدعات وخرافات اور مشرکانہ رسموں سے بچا کر صحیح راہ پر لانے کی کوشش کی، دودھ اور پانی کے امتیاز کو سمجھایا اور پوری زندگی ایسے کارنامے انجام دیے جن کو بھلایا نہیں جاسکتا۔
مؤرخ کا قلم مجبور ہے کہ جب اسلامی ہند کے عروج و زوال کی تاریخ مرتب کرے، تو اس شخصیت کو ہندوستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ، تحریک اصلاح کے میر کارواں اور ملت اسلامیہ کے مسیحا کی حیثیت سے پیش کرے؛ اور اس کے عظیم الشان کارناموں کو سنہرے حرفوں میں لکھے۔ یہ وہ ذات ہے جس نے ضلع سہارنپور کے قصبہ گنگوہ میں جلوہ افزائی فرمائی۔ یعنی قطب عالم، مرشد برحق، امام ربانی، حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت گنگوہی قدس سرہٗ نے 6 ذی قعدہ 1244ھ دوشنبہ چاشت کے وقت اس گہوارۂ عالم فانی میں قدم رکھا۔ آپ کا مولد و منشا قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور ہے۔ آپ ماں اور باپ دونوں سلسلوں سے شریف النسب یعنی نجیب الطرفین شیخ زادہ انصاری اور ایوبی النسل تھے۔ آپ بچپن سے ہی مہذب اور باادب تھے، بے تہذیب اور غیر تربیت یافتہ بچوں کی عادتوں سے طبعاً نفرت تھی۔ اجمالی طور پر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو ابتدا ہی سے عادات حمیدہ اور خصائل پسندیدہ سے نوازا تھا۔ نوعمری ہی کے زمانے میں آپ کو تعلیم کا شوق پیدا ہوا، فارسی کی کتابیں کرنال میں اپنے ماموں مولانا محمد تقی صاحب سے پڑھیں، اس کے بعد عربی کا شوق پیدا ہوا اور عربی کی ابتدائی کتابیں مولوی محمد بخش صاحب رامپوری سے پڑھیں، پھر علوم عربی کا تکملہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے ایک عالم باعمل بن کر تیار ہوئے، جسے وقت کے علماء نے اپنا مقتدی تسلیم کیا۔ آپ کے علم وفضل کی شہرت عہد شباب ہی میں ہوگئی تھی، مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، اہل علم کو اگر کسی مسئلے میں آپ کی تائید حاصل ہوجاتی تو اس کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔
آپ کا دور وہ دور ہے جب مسلم معاشرے میں بدعات وخرافات اور مشرکانہ رسم و رواج کے عروج کی راہیں ہموار ہورہی تھیں، مسلمان ہندو معاشرے سے متأثر ہوکر بہت سی ایسی رسموں میں مبتلا ہورہے تھے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہندوؤں میں جو رسمیں مروج تھیں، مثلا: مندروں پر سالانہ میلے، درشن کے نام پر چڑھاوے، گانے باجے اور رقص وسرود کی محفلیں؛ مسلمان ناخواندہ اور اسلامی تعلیمات سے ایک حد تک ناواقف ہونے کی وجہ سے ان مناظر کو دیکھ کر ان سے متأثر ہوتے تھے۔ جاہل صوفیا اور مصنوعی پیروں نے ان کی دل چسپی دیکھ کر بزرگوں کے مزاروں اور قبروں کی طرف ان کی رہنمائی کردی۔ چوں کہ یہ عوامی مزاج کے مطابق کام تھے اس لیے ان پڑھ اور ناخواندہ لوگ کار ثواب سمجھ کر مزارات اور قبروں پر عرس کے نام پر سالانہ میلے لگانے لگے اور وہی سب کام کرنے لگے جو انہوں نے برادران وطن کے میلوں میں دیکھا تھا۔
علمائے وقت نے ان حالات کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور اصلاحی مہم شروع کی، عوام کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کیا اور دین و شریعت کی صحیح تعلیم سے باخبر کیا۔ حضرت گنگوہی کے دور میں یہ صورت حال مزید ابتر ہو رہی تھی، آپ نے ایسے پرفتن دور میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ دین کی خدمت انجام دی، اسلام کو ہر طرح کے باطل نظریوں سے محفوظ رکھا۔ ایک طرف آپ مسند ارشاد وسلوک پر متمکن ہوکر تزکیۂ باطن اور تعلق مع اللہ کے پاکیزہ مشغلے میں لگے، دوسری طرف ابتدا ہی سے آپ نے دینی تعلیم کا سلسلہ گنگوہ میں جاری کیا، ساتھ ہی بدعات وخرافات کی بڑی سختی سے قولا و تحریرا تردید فرماتے رہے۔ غرض اس دور میں آپ کی ذات کو مرکز ہدایت کی حیثیت حاصل تھی۔
اس دور کی کچھ بدعات وخرافات ملاحظہ کیجیے! کہ مسلمان کس طرح واضح دینی اصولوں کو چھوڑ کر نئی نئی ایجاد کردہ بدعتوں اور خود ساختہ عبادتوں میں مبتلا ہورہے تھے اور حضرت گنگوہی نے کس جرأت ایمانی کے ساتھ مسلم معاشرے کو غیر اسلامی طریقوں سے نجات دلانے کے لیے ذمہ داری نبھائی۔
مجلس میلاد: پہلے اس کو مجلس میلاد اور اب جشن عید میلاد النبی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں یہ بدعت گھر گھر میں عام تھی۔ حضرت گنگوہی نے اس بدعت کی تردید کی اور واضح لفظوں میں بتایا کہ: مروجہ محفل میلاد چھٹی صدی ہجری کے بعد ایک بادشاہ کی ایجاد کردہ ہے، اس سے قبل پوری اسلامی تاریخ میں اس کا سراغ نہیں ملتا، لہذا یہ بدعت ضالہ ہے۔ (فتاوی رشیدیہ 254)
عرس: ایک بڑی بدعت عرسوں کی تھی، بڑی دھوم دھام کے ساتھ ملک کے گوشے گوشے میں یہ رسم منائی جاتی تھی۔ حضرت گنگوہی نے اس بدعت کی سخت تردید کرتے ہوئے فتوی جاری کیا کہ: کسی بھی عرس میں شریک ہونا درست نہیں ہے، تعین تاریخ سے قبروں پر اجتماع کرنا گناہ ہے، خواہ اور لغویات ہوں یا نہ ہوں۔ (فتاوی رشیدیہ 274)
اہل قبور سے استعانت: سب سے بڑی مشرکانہ گمراہی یہ تھی کہ جاہل عوام بزرگوں کے بارے میں مختار کل اور متصرف فی الامور کے عقیدے کے ساتھ ان کی قبروں پر حاجت روائی کے لیے جاتے تھے، جو کہ صراحتاً شرک ہے۔ حضرت گنگوہی نے اس گمراہی سے لوگوں کو بچاتے ہوئے فتویٰ جاری کیا کہ: اہل قبور سے استعانت اور مدد طلب کرنا جس طرح بھی ہو جائز نہیں ہے۔ (فتاوی رشیدیہ 201)
اس کے علاوہ بہت سی بدعتیں تھیں۔ مثلا: مروجہ فاتحہ، تیجہ، چہلم، گیارہویں، برسی، قبر بوسی، تعزیہ پرستی، سجدۂ قبور، طواف قبر، رجبی کونڈے اور محرمی کھچڑا وغیرہ۔ حضرت گنگوہی نے ان تمام بدعات وخرافات کی سختی سے تردید فرمائی اور ان خرافات کو مسلمانوں کے درمیان سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آپ کی ہمہ وقت یہی کوشش رہتی تھی کہ کسی طرح مسلمان حق اور باطل کو سمجھ جائیں اور اس میں امتیاز کا سلیقہ سیکھ جائیں۔ آپ کا احقاق حق اور ابطال باطل کا سلسلہ زندگی بھر جاری رہا اور سرگرمیاں بھی بدستور جاری رہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل بدعت اپنے خول میں سمٹنے لگے، دوسری طرف علمائے دیوبند کی جماعت حضرت گنگوہی کی سرپرستی میں بدعات وخرافات کی تردید میں صف بندی کرکے سامنے آئی، اور حضرت گنگوہی کی ہدایات کی روشنی میں رد بدعات وخرافات پوری جماعت کا مشن بن گیا۔ مباحثوں اور مناظروں کی معرکہ آرائیاں ہوئیں اور قلمی جنگ برپا رہیں۔ ان لوگوں نے مسلمانوں میں اصلاحی انقلاب برپا کیا، جہاں جہاں اہل بدعت نے قلعہ بندی کرنے کی کوشش کی انہوں نے تصنیف و تالیف کے ذریعے ان کے دروازے اکھاڑ دیے، اہل بدعت کے باطل عقائد کو منکشف کرکے دنیا کے سامنے بے نقاب کیا، شرک و بدعت پر جو پردہ ڈال رکھا تھا اس کی اصلی اور سچی تصویر سے پردہ اٹھا کر دنیا کو دکھایا، علماء سوء اور مصنوعی صوفیا کی حقیقت کھولی اور اہل بدعت کو حق پرستوں کی جماعت سے الگ کیا۔ اس تحریک اصلاح میں جو روح دوڑ رہی تھی وہ حضرت گنگوہی کے اظہار حق اور جوش و کردار کی روح تھی، پوری جماعت حضرت گنگوہی سے رجوع کرتی تھی، ان کی زبان وقلم سے جو بات نکلتی تھی "پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی تھی”۔ یہ سب ذہنی و فکری اور عملی انقلاب حضرت گنگوہی کے خلوص اور دینی بصیرت کا صدقہ تھا۔ آپ کو فقیہ النفس کا معنیٰ خیز خطاب دیا گیا۔
آج ہندوستان میں شاہراہ اسلام سے جو بدعات و خرافات، خلاف شرع رسم و رواج اور مشرکانہ عقائد کے خس وخاشاک کو صاف کیا گیا ہے، اس میں حضرت گنگوہی کی حیثیت قائد ملت کی ہے۔ آپ کی ذات سرچشمۂ نور تھی، جہاں سے رشد وہدایت کی کرنیں پھوٹتی تھیں اور اس کی روشنی ہر چہار سمت پھیل جاتی تھی۔ آپ نے باطل کو شکست دے کر ثابت کیا کہ فرمان نبوی میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے کہ "میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی رہے گی، جس کو خدا کی مدد حاصل رہے گی اور وہ ہر محاذ پر کامیاب ہوں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے” یہ پیشین گوئی برحق ہے اور دیوبند کے علماء کا کردار اس کی صداقت کی شہادت ہے۔
ابتدا ہی سے دنیا کا یہ دستور رہا ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آیا وہ جانے کے لیے ہی آیا، جس کو قرآن کریم میں ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ كل نفس ذائقة الموت۔ (سورہ آل عمران 185) بالآخر 9 جمادی الثانی 1323ھ مطابق 11 اگست 1905ء جمعہ کا دن تھا، ساڑھے بارہ بچ چکے تھے، اذان جمعہ ہوچکی تھی، کہ فرشتۂ اجل آگیا اور آپ 78 سال 7 مہینے 3 دن کی عمر میں سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور آپ کے صدقے میں ہم سب کی بھی مغفرت فرمائے۔ من قال آمين غفر الله له۔