فنِ خطاطی کی تعریف وتاریخ

شمیم احمد
ریسرچ اسکالر،شعبۂ اُردو دہلی یونیورسٹی ۔دہلی

نور کا ظہور کائنات کا ظہور و شعور ہے ۔ اسی ظہور و شعور نے انواع و اقسام کے موجودات و معلومات فلکیات و سلفیات، حجریات و شجریات، تصورات و مشاہدات، تجلیات و تبرکات تخلیق کئے جو دنیا و کائنات کا باعث بھی بنے اور مشاہرہ و مظاہرہ کا سبب افتخار بھی۔ خلاق کائنات، علام علوم ظاہری و باطنی نے سب سے پہلے اپنے نور سے لوح و قلم پیدا کئے جو تکوین و تدوین کا آلہ کار ہیں، چاہے لوحِ پر فتوح ہوکہ قرطاس ابیض، صفحۂ آسمان ہوکہ شجر و حجر، انوار جبیں ہوںکہ اوراقِ کاغذیں، سجلیات و حجریات ہوں کہ مصحف روئے مبیں، مصحف عروسِ منور ہوکہ روئے محبوبان مصور، پیراہن کاغذیں ہوں کہ الواح زریں، خطوط خطاطان نگین ہوں کہ ارژنگ چین، نگارخانۂ مانی و بہزاد ہوں کہ نقشہائے رعناو شہزاد، نقوش ترکان کج کلاہ ہوں کہ خدو خال و چشم دابروئے مہوشاں سب میں خطاطان کے خدو خال و رخ گیسو اور دور و دامن اور شان و صفا نوک پلک کے انوار و آثار کی نیرنگیاں چھائی ہوئی ہیں۔ فرق عروسِ نو بہار کی افشاں ہوں کہ ورق آسمان پر مزین پروین کہکشاں، انوار و تجلیات کے نور افزا تبسم کے موتی ہوں کہ خورشید عالمتاب کو ضوقشاں کرنیں، نور و نزہت کی گلبوٹیاں ہوں کہ فلک چیزی پر آراستہ و پیراستہ ہفت قلم ابرو برق و باراں کے نیرنگ خانہۃ ازل، شبِ عروس فطرت کے تخلیق شدہ خطاطی کے شاہکار جواہر پارے نظر کو نور اور دل کو سرور اور شعور کو ظہور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

روز صبح صبیح اوراق آسمانِ ہفت اورنگ پر کلک خورشید عالمتاب سے کشیدہ نقشہائے رنگا رنگ اور ارژنگ سے سجے دھجے خطاطی کے جواہر پارے اور ماہ پارے بناتا بگاڑتا اور سنوارتا رہتا ہے جو کبھی ابن مقلہ کی نگارشات میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ تو کہیں ابن بواب کی سحر کاریوں میں رونما، کہیں میر عماد اور عبد الرشید دیلمی کی جادو سامانیوں میں ظہور پذیر ہوتے ہیں تو کہیں یاقوت مستعصمی اور میر علی تبریزی کی حیرت سامانیوں میں، کہیں سلطان علی مشہدی اور میر علی ہروی کی تجلیات میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو کہیں مولانا اظہر اور مولانا جعفر کی نگارشات میں پدید۔ جہاں آسمان ہفت جہات میں سورج کی کرنیں انواع و اقسام کی حسین و جمیل شکلیں اور خطاطی کے نت نئے نیرنگ خانے بناتی ہیں وہاں زمین دوز سمندر میں متلاطم امواج و انہار خطوط و اشکال ہزار رنگ، ارژنگ وارتنگ (مانی و بہزاد کا نگار خانہ) کو شرماتے ہیں۔ اسی طرح یہی فلک ناموس کرنیں زمین کی فخرونہ و مکنونہ مجریات پر بو قلموں شکلیں بناتی ہیں جو خود بخود خطاطی کے نمونے بن جاتے ہیں۔ یہ خطاطی کے نمونے ہزاروں ہزار قرون میں ایک مستقل عملی تدبیر اور طریقۂ کار کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ایسے خطاطی کے نمونے سمندر سے برآمد سنگہائے حدید و عقیق اور فیروزمند فیروز ے اور عقیق البحر بالخصوص عقیق سلیمانی اور زمین دوز فخرونہ دفینوں اور خشتہائے رنگا رنگ میں ملتے ہیں جوقدیم عجائب خانوں مصور النوادر اور خزائن مخطوطات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ میوزموں میں ایسی چند سلیمانی تختیاں موجود ہیں جن پر خط حیری معقلی اور خط کوفی میں کلمہ شریف اور اسمِ ذاتِ والا صفات اور اسمِ اعظم، معظم و مکرم حضورپرنور کا نام مبارک نوشتہ ہے۔ سورج کی کرنیںہزاروں سال سے پڑپڑکر ان حجرات کو چھوتی رہی ہیں۔ حتی کہ قرنوں میں خطاطی کے نمونے زمین میں پوشیدہ رقیق مادوں اور سمندر کے پانی میں محلول شدہ مادیات سے متبدل ہوکر ظہور پذیر ہوتے ہیں، یہی عقل مستقیم فن خطاطی کا مظہر بنا۔

فن خطاطی فنون لطیفہ میں سب سے حسین بوقلمون، دلفریب اور عجیب و غریب فن ہے جس کے آگے مصور اپنا موئے قلم، شہنشاہ اپنا تاج خسروی، مانی و بہزاد اپنا ارتنگ وارژنگ، سپاہی اپنی تلوار، شہریار اپنا عمامہ، ملکہ علیا اپنا اثاثہ اور فنکار اپنا خوننابہ اور امیر و کبیر اپنا خزانہ نکال کر رکھ دیتا ہے۔ یہ فن، فن مصوری کو شرماتا ہے۔ فن مصوری اس کے آگے سرنگوں ہے اس لئے کہ قلم سب سے پہلے اپنا سر قلم کرکے اور سرنگوں ہوکر بادشاہ جلالت پناہ میں سجدہ ریز ہواتھا، اسی سبب قلم کاری میں فنکاری اور فنکاری میں ندرت کاری ہے۔ شان شہنشاہی بھی تخلیق کاری بھی، ہمہ گیری بھی اور شاہ زوری بھی، جہانبانی بھی اور سلطانی بھی وہی شاہ ہے شاہ گر بھی، شاہ زور و شاہ صفت بھی، شاہجہاں بھی شاہ گیر و کشور گر بھی شاہ اورنگ زیب بھی اور سلطان جہاں پناہ بھی، شاہ فلک بارگاہ بھی اور سلطان عالم پناہ بھی۔

قلم گوید کہ من شاہِ جہانم
قلم کش را بدولت میرسانم

اسلامیات و سلفیات و عتیقیات، تعلیمات و تبرکات، فنون لطیفہ، عقول عشرہ، علوم و ادبیات سب میں قلم کی حکمرانی ہے۔ اقلیم سخن ہوکہ امارتِ علم و فن، سلطنت اسلامیات ہوکہ آثار و سلفیات، تعلیمات و تکریمات کی جہانبانی ہوکہ فن و ادب کی تاجوری سب میں قلم کی کشور کشائی اور حکمرانی نظر آتی ہے۔ جو بھی تاریخ مرتب ہوتی ہے، جو بھی کہانی کہی جاتی ہے، جو بھی تحریک ابھرتی ہے اور جس جس علم کی سرگذشت دروئداد بنائی جاتی ہے قلم کی کہانی، فن تحریر کی زبانی اور خط کی ترجمانی کہی جاتی ہے۔

یہی تحریر یہی خط، یہی دائرے مراکز و نقاط اپنے اندر نہ جانے کتنی تحریکات اور کتنی تواریخ سموئے ہوئے ہیں۔ خط عقول عشرہ کا ترجمان ہے۔ خط فنونِ لطیفہ کی جان ہے، علوم کی شان او احساسات و جذبات کا وجدان اور قوت متخیلہ کا نگہبان ہے۔ خط رات کی سیاہی کا اجالا ہے۔ عقل و دانش کا حسین مصور ہے۔ خیالات و حسیات کا مظہر ، فہم و فراست کا علمبردار، نطق و گویائی کا تزئین کار اور علم و ادب کا جادوبیاں اداکار ہے۔ پیراہن قلم اور حصائے تحریر میں کیا کچھ نہیں ہے۔ زندگی کے آثار، آداب خود آگہی، تعلیم و تعلمات کے دربستہ گہراہائے آبدار، فنونِ لطیفہ کے دریائے شاہوار، تہذیب و تمدن کے مرقع، ثقافت و حکمت کے شاہ پارے اور مذہب و ملت کے جواہر ریزے، قلم ساکت ہے پھر بھی گویا قرطاس ابیض میں مقید ، لیکن فرش سے عرش تک سیر و طیر کی منازل طے کرتا ہے۔ قلم کی ایک ایک کشش اور نوک و پلک سے انقلابات کروٹیں لیتے ہیں۔ تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ قومیں بنتی ہیں، بگڑتی ہیں، تقدیریں سنورتی ہیں اور نکھرتی ہیں۔ جس جس روش سے قلم چلتا ہے اس اس روش سے پھول کھلتے ہیں۔ جس جس میدان سے گذرتا ہے سوئے پھوٹتے ہیں، چشمے ابلتے ہیں، جس شان سے چلتا ہے اسی شان سے نغمے نکلتے ہیں، ترنم ریزیاں بکھرتی ہیں، جب الفاظ تحریری جامہ پہنتے ہیں تو بالماس ونگیں وضع ہوتے ہیں یا بلند آسمان بوس قطب مینار اور حسین تاج محل تعمیر ہوتے ہیں۔ غلافِ کعبہ ہوکہ گنبدِ خضرمی، محراب و منبر ہوں کہ مساجد و مقابر ، آستامان درویشان ہوں کہ محلات شاہی، طاق و محراب ہوں کہ طاق ابروئے محبوب، تحریر اور فن تحریر کی جلوہ نمائیاں تا حد نظر دامنِ دل کو کھینچتی ہوئی اس طرح مرکوز ہوجاتی ہیں جیسے الفاظ، مراکز و نقاط، رخ و دامن کسی محبوب کہلاہ کے رخ گیسو میں جم جاتے ہوں۔

اس قلم کی نیرنگیاںاور نور افزائیاں اور جلوہ سامانیاں نظر کو نور، دل کو سرور اور اہلِ بصیرت کو شعور دیتی ہیں۔ قلم نگہبانی و حکمرانی کرتا ہے۔ اس کا نقش، نقشِ سلیمانی، اس کا ذوق حیات جاودانی، اس کا زقارہ گذر سلطانی۔ اس کا زیر، زبر انداز ہمہ دانی اور اس کی شان وصفا صفاو مروہ کی تابانی۔یہ دلوں کو بالیدگی دیتا ہے۔ مصوری دماغ کو چھوتی ہے۔ خطاطی دل کو لبھاتی ہے، وہ نگاہ کو آشنا کرتی ہے، یہ دل کو شناس کرتی ہے۔ وہ دماغ کو مست اور بے خود بناتی ہے۔ یہ روح کو بالیدگی دیتی ہے۔ خطاطی میں حرکات و سکنات متکلم و مترتم ہیں۔ وہ دیکھے جاتے ہیں یہ بولے جاتے ہیں۔ وہ بے جان ہیںیہ جاندار بھی اور شاندار بھی۔وہ رنگ و زنگ سے بنتے بگڑتے رہتے ہیں، یہ خون جگر سے اور بصیرت قلب کی روشنائی سے لکھے اور دل و دماغ پر نقش کئے جاتے ہیں اور مرتسم بھی کئے جاتے ہیں۔ یہ آنکھوں میں سما جاتے ہیں وہ دل میں اتر آتے ہیں۔ مصوری کے نقوش جہاں اترتے ہیں خطاطی کے نقوش دل میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اگر مصوری قوت متخیلہ کی رفعت و رافت ہے تو خطاطی جمالیانی ورومانی شان امتزاج کی تشکیل بھی ہے اور تکمیل بھی، تحصیل بھی اور تحویل بھی، تحریر بھی اور تقریر بھی تعبیر بھی اور تصویر بھی۔ وہ اگر تخیل ہے تو یہ تشکیل ۔ وہ اگر تعبیر ہے تو یہ تصویر، وہ اگر تدبیر ہے تو یہ اس کی تقدیر، مظاہر فطرت کی وہ ساکت تصویر ہے اور یہ مظاہر فطرت کی گویا تصویر۔ یہ وہ حسین و جمیل تصویر ہے جس کے زیر زبر میں زمین و آسمان کو زیر و زبر ہونے دیکھا گیا ہے۔ جس کے دور و دامن میں قرون و عہود کی تواریخ اس کے ثقافتی گنجہاتے گراں مایہ کو بولتے سنا ہے۔ جس کے مراکز و اعراب میں خزائن الفتوح اور قصور النوادر کو مجتمع ہوتے دیکھا ہے۔ جس کی نشست و کرسی میں شہنشاہوں اور تاجوروں اور ملوک و ملائک کی کرسی و تخت و تاج جمتے اور سنورتے دیکھے ہیں۔

فن خطاطی اپنی تمام کمال جمالیاتی شان و صفا، تخلیقی جلوہ نمائیوں اور تسخیری عظمتوں کے ساتھ جملہ فنونِ لطیفہ میں ممتاز و منفرد ہے۔ یہ خطاطی عالم اسلام کا ایک لازوال شاہکار ہے اور مصور فطرت کی خاص دین ہے جس سے صرف سی پارۂ دل کی عظمت قائم ہے بلکہ کائنات کی رعنائی و زیبائی بھی اسی سے دائم و قائم ہے۔ یہ فن لوح دل کو جلا بخشنے والا، انسانی عظمت فکر کو چار چاند لگانے والا اور مسکوکات مخطوطات کو زیب و زینت دینے والا یہی ایک ایسا فن ہے جس کے آگے شہنشاہ سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ شہزادوں اور شہزادیوں کے نو لکھے ہار نثار ہوتے ہیں۔ مصور اپنی قلمونیاں بھول جاتا ہے۔ یہاں تک کہ محبوب کجکلاہ بھی اپنا دل نکال کر رکھ دیتا ہے۔ یہی خط یہی دائرے اور نوک و پلک خود انسان کے کتابی چہرے کو بھی صحیفہ بنادیتے ہیں۔ اگر بہ نظر غائر دیکھیں تو انسان کا چہرہ خود ایک شاندار خطاطی کا نمونہ ہے ۔ یہ دائرے یہ کششین یہ رخ یہ دامن و نوک و پلک ، نشست مراکز و نقاط کو:

’’اے چہرۂ زیباتے تو رشک بتاں آزری‘‘

اس فنِ ظریفہ پر متعدد مخطوطات، قدیم مطبوعات اور مستند مراجع بھی ہیں جن میں کتاب الفہرست، ابن ندیم، ابن خلدون، ابن خلکان، فتوح البلدان، علامہ بلازری کی، تذکرۂ خوشنویسان، مولانا غلام محمد ہفت قلم، دفتر خطاطی اعجاز رقم، پیدائش خط و خطاطان از میرزا ایرانی، تحقیقات ماہر، ارژنگ چین، دیبی پرشاد بشاش اور ڈاکٹر ضیاء الدین کی مسلم کیلیگرافی مشہور و معروف ہیں۔ ان میں اس کی ابتداء قدامت اور فن سے بحث کی گئی ہے۔ مولانا غلام محمد ہفت قلم نے اس فن سے بہت دانشمندی سے اپنی گراں قدر تخلیق میں بحث کی ہے۔ ان متذکرہ مخطوطات اور قدیم کتب علمی میں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے خط کی ایجاد کی جنہوں نے اپنی وفات سے تین سو سال قبل رسوم الخط کو خام مٹی کی تختیوں پر مرتب کیا اور ان کو پکاکر زمین میں دفن کردیا جن کو Terracottas کہتے ہیں۔ طوفان نوح میں یہ تختیاں بر آمد ہوئیں۔ نوح علیہ السلام نے اپنے علم ازلی سے تحریر اور نقوش بناتے جس سے تحریر و تسوید کی ابتداء ہوئی۔ ابن ندیم نے کتاب الفہرست میں یہی روایت بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی قول مشہور ہے کہ سب سے پہلے خط ایجاد کرنے والے حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔ فتوح البلدان میں ہے کہ سب سے پہلے خط ایجاد کرنے والے اہل بولان جو تین افراد پر مشتمل تھے، جن کے نام مُرامر بن مرّہ، اسلم بن سدرہ، اور عامر بن جدرہ ہیں۔ ان ہی افراد نے مشترکہ طور پر مفرد حروف عربیہ سریانی کے طرز پر ایجاد کیے ۔ مُرامر نے حروف کی صورت اور نقوش ایجاد کئے اور اسلم نے حروف کو ملانے اور الگ کرنے کے اصول وضع کئے اور عامر نے نقوط والے حروف اور مرکبات حروف کے طریقے بنائے جس سے بعثتِ اسلام سے پہلے کا خط رائج ہوا وہ خط حیری ہے جو کوفی سے پہلے رائج تھا۔ اس کے بعد شیرین عبد الملک جورئیس وقت اور صاحب دولت و امارت تھا اس نے اس کو فروغ دیا۔ اس کے بعد یہ فن کتابت قریش مکہ نے حاصل کیا۔ ابو سفیان بن امیہ بن عبد الشمس اور ابو قیس بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب نے بھی یہ فن حاصل کیا۔ کلیم ماہر نے تحقیقات ماہر میں فتوح البلدان کے حوالے سے اس کی توثیق کی ہے، صاحب فتوح البلدان نے لکھا ہے کہ جب طلوع اسلام ہوا اس وقت اہل قریش میں سترہ افراد خط شناس اور خطاط تھے۔

چوتھا قول جیسا کہ غلام محمد ہفت قلمی نے بیان کیاہے کہ سب سے پہلے جنہوں نے خط ایجاد کیا وہ اہل طمس،Tems، میں چھ افراد تھے جن کے نام تھے ابجد، ہوز، حطی، کلمن، سعفص، قرشت اور انہوں نے اپنے اسماء کی مناسبت سے حروف وضع کئے اور جو حروف ان کے ناموں میں موجود نہیں تھے جیسے تا، ضاد، ذال، طا وغیرہ ان حروف کو ان کے برابر والے حروف کے لحاظ سے ترتیب دیا۔

ماہر خط و خطاطات کی رائے کے مطابق مسیح علیہ السلام سے پندرہ ہزار سال قبل مصریوں نے اپنے احوال و اقوال کا اظہار کرنے کی غرض سے خط ایجاد کیا تھا جس کے لئے انہوں نے انسانی اور حیوانی اشکال وضع کیے تھے۔ کاغذ کی جگہ پتھر اور قلم کی جگہ قیشہ استعمال کرتے تھے۔ مثلاً اظہار محبت کے لئے کبوتر، عداوت کے لئے سانپ، جنگ و جدال کے لئے شیرو پلنگ، صلح و آتشی کے لئے بکری اور ہرنی، خوشی و مسرت کے لئے طنبور بجاتی ہوئی عورت یارقص کرتا ہوا مرد، مکاری اور جاسوسی کے لئے گیدڑ، یورپHieroglyphics اور اہل عرب ہیرو غلفی کہتے ہیں۔ اس کی تحقیق سب سے پہلے مصر میں حجر الرشید سنگ موسی سے ہوتی جو وہاں کے عجائب گھر میں محفوظ ہے جس میں ہیروغلفی کی کتابت ہے۔ یہ ۱۹۶ سال قبل مسیح کندہ ہوا تھا۔ (پارسی آریاؤں نے بھی تیس ہزار آٹھ سو سال قبل مسیح ایک خط نقاط اور علاماتی اشکال میں ایجاد کیا تھا اس کو مسماری، میخی یا پیکانی خط کہا جاتا تھا)

ان خطوط کے علاوہ خطوط قدیمہ خط طلسم جس کی ابجد عجیب و غریب ہے، دوسرا خط شجری جویکروں سے لکھا جاتا تھا۔ تیسرا خط مرموز چوتھا خط شیث علیہ السلام جس کی اشکال بھی عجیب و غریب ہیں۔ چوتھا خط ادریس علیہ السلام سے منقول ہے جس کی شکلیں بھی مجہول سی ہیں یہ خطوط اب متروک ہوگئے جن کے نمونے بھی نہیں ملتے۔

مشہور و معروف خط سب سے قدیم حیری جس کو معقلی بھی کہتے ہیں جو کوفی سے پہلے اور اونٹ کے کوہان کی طرح حروف لکھے جاتے تھے جو بعثتِ اسلام کے بعد کوفہ سے متبدل ہوا ہے اس لئے کہ کوفہ کا نام پہلے حیری تھا۔ اسلام میں کچھ تغیر کے بعد یہ خط کوفی میں تبدیل ہوا جو اب بھی رائج ہے اور سوڈانی،اسپینی آرائشی سے اس میں رعنائی اور زیبائش آگئی جس کو Western Kufic بھی کہتے ہیں۔ حضرت علی کے دستِ مبارک کا نوشتہ قرآن شریف اسی خط کوفی میں ہے جس پر خط حیری جمل کا غلبہ ہے۔ یہ رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے جس کی زیارت میں نے بھی کی ہے، جس کی روشنائی کے نور ساطع اور ضیاء لامع سے دل منور، روح درخشاں، اور آج بھی جس کی بدولت چشم بصیرت و بصارت روشن، دل و دماغ بصیرت افزا ہو جاتے ہیں۔

ظہور اسلام سے قبل ابتداء میں خط کوفی اور خط حیری نقاط سے عاری تھا۔ مولانا شاغل صاحب نے پیدائش خط و خطاطان میں ابن ہشام، ابن ندیم، شخصیات ماہر اور غلام محمد ہفت قلمی کی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ۵۰؁ھ م ۶۷۰؁ء تک خط کوفی میں نقاط و اعراب نہیں لگائے جاتے تھے۔ سب سے پہلے ابوالاسود جو فضلاء عرب میں سے تھا اور حضرت علی کا شاگرد تھا، اس نے اعراب وضع کئے اور زبر کی جگہ اوپرحروف کے نقطہ، زیر کے لئے دائیں طرف نقطہ، پیش اور آواز زیریں پر حرف کے نیچے زیر سمجھا جانے لگا۔ پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی نے بھی اس پر جزم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے چھٹی صدی ہجری تک کے مخطوطے بغیر اعراب کے دیکھے ہیں۔ساتویں صدی میں اعراب لگنا شروع ہوگئے تھے۔ پھر آگے دوسال تک معدوم ہوگئے ۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایک قدیم تفسیر جو ناہیہ ہے اس سے بحث کرتے ہوئے نتائج اخذ کئے ہیں۔ آگے سو سال بعد ہی عراق کے گورنر یوسف کے حکم سے نصر بن عاصم نے اسود کے ضابطے میں قدرے اضافہ کیا اور اعرابی نقاط کو اسودی نقاط یعنی سیاہ اور حروف کے مشخص کے لئے شنگرفی نقاط یعنی سرخ، عہد عباسیہ دوسری صدی ہجری لغایت ساتویں صدی ہجری میں خلیل بن احمد نحوی، واضع و معلم علم العروض نے نقاط کی جگہ اعراب ایجاد کئے۔ اسی دور میں خط کوفی کی آرائش ہوتی اور اسحاق بن حماد جو سرخیل خطاطان اور استاد الاساتذہ مانا جاتا ہے اور اپنے کمال فن کے سبب ’’یکہ تاج میدان قلمرانی‘‘ ماہر خط حکمرانی مانا گیا ہے۔ اس ماہر نے ماہران خطوط اور شہ سواران خوش نویساں نے خط کوفی سے بارہ خطوط وضع کئے:

۱۔خط طومار (مسجد و عمارات کے کتبے)۔

۲۔ خط سجلات جو پیج در پیج بقلم خفی کوفی کاغذی کار رواقی لکھی جائے۔

۳۔ خط عہود وصیت اور عہد نامہ وغیرہ لکھے جائیں۔

۴۔ خط موامرات مشورت وغیرہ (خفی)۔

۵۔ خط امانات۔ امانتی خط کارروائی وغیرہ (خفی)۔

۶۔ خط دیباہی۔ فارسی لفظ دیبا (ریشمی کپڑا) جس پر کوئی چیز لکھی جائے۔

۷۔ خط مدیح۔ ستائش اور قصیدہ وغیرہ لکھا جائے۔

۸۔ خط ریاش۔ بمعنی پرندوں کے خوبصورت پر یا عمدہ آرائش و لباس۔ عمارات و محلات و مساجد میں خوبصورتی کے لئے خفی و جلی و صلیات، کتبے وغیرہ لکھے جاتے تھے اور امراء و شرفا اور وزراء وغیرہ کو وصلیات پیش کی جاتی تھی۔

۹۔ خط غبار۔ گرد آلودہ۔ ملا ہوا۔ سادہ گلزار و پرکار۔

۱۰۔ خط حسن۔ خوش نویس اچھا و پاکیزہ۔

۱۱۔ خط مرصع۔ جڑاؤ خوبصورت قصیدے پیشکش وغیرہ۔

۱۲۔ خط بیاض۔ مبیضہ، سادہ سفید، احادیث ادعیہ کی کتابت کی جاتی تھی بعض حضرات نے ان بارہ خطوط کے نام اس طرح بھی لکھے ہیں۔ قلم الجلیل، قلم السجلات، قلم الدیباج، قلم السطومار، قلم الکبیر، قلم الثلثین، قلم الزنبور، قلم الفتح، قلم الحرم، قلم العہود، قلم القصص، قلم الحرماج، وغیرہ جب مامون رشید کا دور آیا تو اس فن کی مزید ترقی و ترویج ہوئی اور احوال محرر اور ذوالریاستین فضل بن سہیل خطاطان ہوئے جنہوں نے خطوط کی زیب و زیبائش میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ کئی خط ایجاد کئے۔ فضل بن سہیل نے قلم المرصع، قلم النسخ اور قلم الریاستی ایجاد کئے جن میں قلم الرقاع اور قلم الغبار الحلیہ ایجاد ہوئے اسی دور عباسیہ میں ایک اور ماہر فن استاد تمیمی نے اس فن ظریفہ پر ایک رسالہ بعنوان تحفۃ الوامق لکھا۔ اس کے بعد برادران کاملین فن کا دور آیا یعنی تیسری صدی ہجری میں بابائے خط و خطاطان ابوعلی محمد بن علی بن مقلہ جو ابن مقلہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کا بھائی عبد اللہ الحسن بن علی ۲۷۲ھ اور ۲۷۸ھ بالترتیب پیدا ہوئے جنہوں نے اس فن میں تہلکہ مچادیا۔ ابن مقلہ تو اپنی فنکار انہ بصیرت و قدرت سے لازوال شہریار فن کی حیثیت سے تا قیامت یاد رہیں گے۔

اسی امام الخطوط اور ماخدائے فن خطاطی اور سلطان القلم اور شہ اقلیم قلم اور شہنشاہ قلمرو علم و قلم ابن مقلہ نے واضح چھ خط ایجاد کئے۔ اسحاق نے بارہ خط ایجاد کئے تھے جو ایک ہی خط تھا، طرزیں الگ الگ تھیں۔ یہ مختلف الانواع اور متعدد الالواح خطوط ہی الگ تھے، اور ہر خط کی الگ الگ طرزیں اور روشیں تھیں جو اب تک قائم و دائم ہیں۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے