بقلم: امدادالحق بختیار ([1])
اپنے ماضی اور اپنی صحیح تاریخ کے اعتبار سے یہ دنیا انسان کاوطن حقیقی (Native Place)نہیں ہے، یہ اس کے لیے ’’پردیس‘‘ (Abroad)ہے، اس کا پیدائشی اور آبائی وطن عالم بالا اور جنت (Hereafter & Heaven)ہے۔اور جس طرح ہر شخص اپنے آبائی وطن کی طرف ایک نہ ایک دن واپس جاتا ہے، اسی طرح انسان کو بھی اپنے حقیقی وطن یعنی عالم بالا اور عالم آخرت کی طرف ضرور بالضرور لوٹنا ہے؛ لیکن اس کے لیے دنیا کی طویل آزمائشی زندگی، بعد ازاں قبر وحشر اور حساب وکتاب اور اپنے ایک ایک قول وعمل اور ایمان وعقیدہ کی اسکیننگ اور چیکنگ (Scanning & Checking) کے مراحل سے گزرناہر انسان کے لیے لازمی اور ناگزیر ہے، ان مراحل سے کوئی مستثنی نہیں ہے۔ اور پھر واپسی کے بعد انسان اپنے آبائی وطن میں صرف جنت ہی نہیں دیکھے گا؛ بلکہ اب وہاں ایک خطرناک، ہیبت ناک، درد ناک اور قسم قسم کے عذابوں سے بھر ہوئی جہنم نامی جیل بھی اسے ملے گی۔
دنیا نامی اس پردیس میں آنے کے بعد ہر انسان کو کیسے زندگی گزارنی ہے، اس کے تمام قواعد وضوابط اور قوانین و دستور خالقِ کائنات کی طرف سے جاری کیے جا چکے ہیں، جو انسان زندگی کے ہر دورانیہ میں اور اس ’’ پردیس‘‘ کے ہر نئے موڑ پر اُن الہی قوانین کی پاسداری (Follow)کرے گا، وہ اپنے آبائی وطن لوٹنے کے بعد خوش حال رہے گا اور بے نظیر خوشحالی، بے مثال نعمتوں، لا زوال آسائشوں اور آرائشوں سے لبریز اپنے وطن حقیقی یعنی جنت میں کبھی نا فنا ہونے والی زندگی اور کبھی نا ختم ہونے والی راحتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور اگر کوئی انسان اس پردیس میں آکر، یہاں کی چکا چوند میں گم ہوکر قانون الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے، اللہ تعالی کے باغی گروہ ’’ شیطان ‘‘ اور اس کے کارندوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، ان کی باتوں میں آکر راہ بھٹک جاتا ہےاور وہ اسی حال میں ہوتا ہے کہ اچانک اس کا دنیا میں مزید رہنے کا’’ویزہ ‘‘ ختم ہوجاتا ہے اور چار وناچار اسے اس پردیس سے اپنے آبائی وطن کی طرف واپس جانا پڑجاتا ہے، پھر اپنے جرائم کے اعتبار سے اسے قبر وحشر اور حساب وکتاب کے مراحل میں بھی بڑی تکلیفوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور عالم آخرت میں بھی اسے جہنم کی جیل اور اس کی سزاء اور عذاب میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ انہیں کے بارے میں اللہ تعالی نے پوری تاکید کے ساتھ فرمایا ہے: لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ. (سورة هود: 22) ترجمہ: یقیناً وہ لوگ آخرت میں ناکام اور خسارہ میں رہیں گے۔
اور ان کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں: أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ. (سورة هود: 16) ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں، جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے عذاب کے اور کچھ نہیں ہے۔
نیز اپنے آبائی وطن کی خوش حالی کو بحال کرنے اور سزا سے رہائی کے لیے خواہش اور ہزار منت وسماجت کے باجود اسے دوبارہ دنیا میں آنے کا دوسرا موقع (Chance) بھی نہیں دیا جاتا۔ چناں چہ اللہ تعالی فرماتا ہے: فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (سورة يس: 50) (جب موت کا وقت آئے گا تو نہ اسے کوئی وصیت کرنے کی مہلت ملے گی اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کی طرف دوبارہ واپس آسکتا ہے۔ )
اور جب وہ وہاں سزاء اور عذاب کو دیکھے گا تو حسرت بھرے لہجہ میں کہے گا:أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ. (سورة الزمر: 58) (یا جب تو عذاب دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ اے کاش مجھے دنیا میں دوبارہ واپس بھیج دیا جائے اور پھر میں اچھے کام کرنے والوں میں سے بن جاؤں۔)
اسی خطرہ کے پیش نظر اللہ تعالی نے اپنے قانون کی کتاب: قرآن اور اپنے قاصدین: انبیاء اور رسولوں (علیہم الصلاۃ والسلام) کی تشریحات (Explanations) میں انسان کو بار بار اس کا آبائی وطن یعنی عالم آخرت اور وہاں کی دونوں منزلیں (Destinations) جنت اور جہنم یاد دلائی ہیں، بار بار اس کی توجہ اس جانب موڑی ہے، اسے دعوت فکر وعمل دی ہے؛ بلکہ اس دنیا میں زندگی گزرانے کے لیے ’’ تصوّرِ آخرت‘‘ کو بنیادی عقیدہ کی حیثیت عطا کی ہے؛ تاکہ انسان اس پردیس کو اپنا دیس نہ سمجھ بیٹھے اور اس کی بھول بھلیوں میں الجھ کر اپنے حقیقی دیس کو نہ بھلا بیٹھے اور اس طرح اس کی زندگی تباہ وبرباد نہ ہوجائے۔بلکہ وہ اس دنیا میں ہر عمل اس یقین اور اس خوف کے ساتھ کرے کہ مجھے عالم آخرت کی طرف جانا ہے ، وہاں اس کا حساب وکتاب دینا ہے اور اس کی بنیاد پر میری وہاں کی اصل اور حقیقی زندگی میں خوشیاں آئیں گی یا مصیبتوں سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اللہ تعالی نے مختلف انداز اور نت نئے اسلوب کے ساتھ قرآن کریم میں ’’ تصور آخرت ‘‘ کی طرف انسان کے ذہن کو منتقل کیا ہےاور دنیا کی بے ثباتی کو واضح فرمایا ہے؛ چناں چہ دنیا اور آخرت کے تقابل (Comparison) میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ. (سورة الأنعام: 32) (دنیا صرف کھیل تماشے کا گھر ہے، آخرت کا گھر ہی متقی حضرات کے لیے سب سے بہتر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے!)
تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ. (سورة الأنفال: 67) (تم دنیا کے ساز وسامان کے طلب گار ہو، جب کہ اللہ (تم سے) آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ زبردست قوت والا اور حکمت والا ہے۔)
إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ. (سورة الغافر: 39) (دنیا کی یہ زندگی چند روزہ سامان ہے اور آخرت برقرار رہنے والا گھر ہے۔)
أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ. (سورة التوبة: 38) (کیا آخرت کے مقابلہ میں تم دینا کی زندگی پر راضی ہوگئے؟ آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی کا مال ومتاع بہت کم ہے۔)
وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ. (سورة الرعد: 26) (وہ لوگ دنیاوی زندگی پر ہی خوش ہوگئے، جب کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی چند روزہ سامان کی حیثیت رکھتی ہے۔)
دنیا کے طلب گار اور دنیا ہی اپنی تعمیر وترقی کی کوشش کرنے والے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالی نے انہیں دو ٹوک انداز میں متنبہ کیا ہے:
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا. وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا. (سورة الإسراء: 18 – 19) (جو انسان حالیہ دنیا کا طلب گار ہوتا ہےتو ہم جس شخص کے لیے جتنا چاہتے ہیں دنیا میں اسے عطا کردیتے ہیں، پھر (آخرت میں) ہم نے اس کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، جس میں وہ ذلیل وخوار ہوکر داخل کیا جائے گا۔ اور جو شخص آخرت کا طلب گار رہتا ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے، ایمان بھی لاتا ہے تو ایسے لوگوں کی کوشش اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔)
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ. (سورة الروم: 7) (دنیاوی زندگی کے ظاہر کو تو وہ جانتے ہیں؛ لیکن آخرت سے غافل ہیں۔)
مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ. (سورة الشورى: 20) (جو آخرت کی کھیتی (یعنی اپنی کوششوں کا نتیجہ آخرت میں دیکھنا) چاہتا ہے، ہم اس کی کھیتی (یعنی اس کے عمل کے بدلہ ملنے والی نعمتوں) میں اضافہ کریں گےاور جو دنیا کی کھیتی (یعنی اپنے اعمال کا پھل صرف دنیا میں حاصل کرنا) چاہتا ہے، تو ہم اس کو کچھ دنیا دے دیتے ہیں، پھر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔)
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ. (سورة آل عمران: 85) (ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، قیامت کے دن تم سب کی اجرت پوری پوری دے دی جائے گی؛ لہذا جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہی کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی تو دھوکہ کا سامان ہے۔)
اسی طرح دیگر انداز اور طریقوں سے بھی اللہ تعالی نے انسان کواللہ کی قدرت و طاقت کو سمجھنے، آخرت کی فکر کرنے، اس کے لیے کوشش کرنے ، وہاں کی باز پرس، حساب وکتاب اور عذاب سے ڈرنے کی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ درج ذیل آیات کا بغور مطالعہ فرمائیں:
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ. (سورة هود: 103) (آخرت کے عذاب سے ڈرنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔)
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ. (سورة القصص: 77) (اللہ تعالی نے تمہیں جو مال واسباب عطا کیا ہے، اس کے ذریعہ آخرت کے طلب گار بنو۔)
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ. (سورة البقرة: 28) (تم کیوں کر اللہ کا انکار کرتے ہو، جب کہ تم مردے تھے، اللہ نے تمہیں زندہ کیا، پھر اللہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم سب اسی کی طرف واپس لوٹوگے۔)
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ. (سورة البقرة: 281) (تم ایسے دن سے خوف کھاؤ، جب تم اللہ کی طرف واپس لائے جاؤگے، پھر ہر نفس کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں ہوگا۔)
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ. (سورة المؤمنون: 115) (کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بلا مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہیں لائے جاؤگے۔)
أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورة النور: 64) (سن لو! یقیناً آسمان وزمین کی تمام چیزیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں، تمہاری حالت کو اللہ خوب جانتا ہے، جس دن وہ اللہ کے پاس واپس لائے جایں گے تو وہ ان کے تمام اعمال انہیں بتادے گا؛ کیوں کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔)
وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ. (سورة القصص: 39) (اس نے اور اس کے لشکر نے سر زمین پر نا حق تکبر کیا اور ان کا خیال تھا کہ وہ ہمارے پاس واپس نہیں لائے جائیں گے۔)
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا. (سورة آل عمران: 30) (جس دن ہر نفس اپنے اچھے اور غلط کاموں کو اپنے سامنے دیکھے گاتو وہ خواہش کرے گا کہ کاش اس کے اعمال اور اس کے درمیان دور دراز کا فاصلہ ہوجاتا ۔)
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا. (سورة النساء: 87) (اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، یقیناً وہ تم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟!)
أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (٤) لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (٥) يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (سورة المطففين: ٦) (کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ ایک بڑے دن میں وہ سب دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، جس دن انسان سارے جہاں کے رب کے سامنے (حساب وکتاب کے لیے) کھڑا ہوگا؟!)
اللہ کے آخری رسول (Messenger) ﷺ نے اس دنیا میں خود اپنی حیات مبارکہ اپنے وطن کی طرف جلد واپس ہونے والے ایک مسافر کی طرح گزاری ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مال واسباب کی انتہائی قلت اور اس کی وجہ سے ہونے والی دشواری پر روتے ہوئے اللہ کے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ قیصر وکسری باطل ہونے کے باوجود عالی شان محلات میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ محبوب رب کائنات ہوکر یہ تنگی کی زندگی میں ہیں؟ تو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا: قال النَّبِيُّ -صلى اللَّه عليه وسلم-: "أما تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمْ الدُّنْيا ولَنا الآخِرَةُ” فقال عُمَرُ: بَلَى. قال: "فَإِنَّهُ كَذَلكَ”. (رواه الإمام أحمد 3/ 139 – 140، والبخاري في "الأدب المفرد” (1183)، وأبو يعلى 5/ 67 (2782) من طرق عن المبارك بن فضالة به.) (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت، تو عمر نے عرض کیا : کیوں نہیں ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا ہی ہوگا۔)
دیگر مواقع پر بھی رسول اللہ ﷺ نے کثرت کے ساتھ اس کی یاد دہانی کرائی ہے، متعدد احادیث شریفہ میں آخرت کی فکر اور اس کو یاد کرنے کی تلقین ملتی ہے، ذیل میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں، غور سے مطالعہ فرمائیں:
«قَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ القُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الآخِرَةَ» (سنن الترمذي، باب ما جاء في الرخصة في زيارة القبور، حديث نمبر: 1054) (میں نے آپ کو قبرستان جانے سے منع کیا تھا، محمد کو والدہ کی قبر پر جانے کی اجازت مل گئی ہے؛ لہذا آپ حضرات بھی قبرستان جایا کریں؛ کیوں کہ اس سے آخرت یاد آتی ہے۔)
"مَنْ كانَ هَمُّهُ الآخِرَةَ جَمَعَ اللَّهُ شَمْلَهُ، وجَعَلَ غِنْاهُ فِي قَلْبِهِ، وأَتَتْهُ الدُّنْيا وهِيَ راغِمَةٌ، ومَنْ كانتْ همته ونِيَّتُهُ للدُّنْيا فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ، وجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، ولَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيا إِلّا ما كُتِبَ لَهُ”. (رواه الإمام أحمد 5/ 183، وابن ماجه (4105)، وابن أبي عاصم في "الزهد” (163)، والدارمي 1/ 302 – 303، وابن عبد البر في "جامع بيان العلم وفضله” 1/ 175 من طرق عن شعبة به.) (جس کی فکریں آخرت کے لیے ہوتی ہیں، اللہ تعالی اسے یکسوئی عطا فرماتے ہیں اور اس کے دل کو غنی بنا دیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ اور جس کی کوشش اور نیت دنیا کی ہوتی ہے، اللہ تعالی اس کے ذہن کو منتشر کر دیتے ہیں اور اس کی آنکھوں میں غربت رکھ دیتے ہیں اور اسے مقدر بھر ہی دنیا ملتی ہے۔)
ومَنْ أرادَ الآخرة تركَ زينةَ الدُنيا. (رواه أحمد 1/ 387 (3671)، والترمذي (2458)، وأبو يعلى (5047)، والحاكم 4/ 323. وإسناده ضعيف.) (جو آخرت کا طلب گار ہوتا ہے اور دنیا کی چمک دمک کو چھوڑ دیتا ہے۔)
فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وأَحْزَمُ النَّاس؟ قالَ: أَكْثَرُهُمْ ذِكْرَاً لِلْمَوْتِ، وَأَكْثَرُهُمُ اسْتِعْدَاداً لِلْمَوْتِ، أُولئِكَ الأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الآخِرَةِ. (رواه ابن أبي الدنيا في كتاب الموت والطبراني في الصغير بإسناد حسن، ورواه ابن ماجة مختصراً بإسناد جيد، والبيهقي في الزهد.) (دریافت کیا: اے اللہ کے نبی! سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط شخص کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرے، سب سے زیادہ موت کی تیاری کرے، وہی عقلمند ہیں ، جو دنیا کی شرافت اور آخرت کی عزت کے مستحق ہوں گے۔)
قالَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عليه وسلم: عُودُوا الْمَرْضَى، واتْبَعُوا الْجَنَائِزَ تُذَكِّرْكُمُ الآخِرَةَ. (رواه أحمد والبزار وابن حبان في صحيحه) (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیماروں کی مزاج پرسی کرو اور جنازے کے پيچھے چلو، اس سے تمہیں آخرت یاد آئے گی۔) لہذا ہمیں دنیاوی مشاغل ومصروفیات، یہاں کی چمک دمک، یہاں کی عارضی زندگی، آل واولاد ، مال واسباب اور دنیاوی زندگی کی تعمیر وترقی میں اس طرح نہیں لگ جانا چاہیے کہ ہم اپنے حقیقی وطن اور اپنی آخرت سے غافل ہو جائیں، جو لوگ اس طرح زندگی گزارتے ہیں، انہی کے لیے کہا گیا ہے کہ دنیا دھوکے کا ساز وسامان ہے، اچانک جب موت آئے گی اور اس دنیا سے آنکھیں بند ہوکر دوسری دنیا میں کھلیں گی تو تمام حقیقتیں انسان کے سامنے آجائیں گی اور اس وقت سوائے غیر مفید حسرت وافسوس کے وہ کچھ نہیں کر سکے گا؛ لہذا بالکل چوکنا ہوکر ، آخرت سے باخبر ہوکر اور وہاں کی زندگی ہر وقت نگاہوں کے سامنے رکھ کر اس دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔
([1]) رئیس تحریر عربی مجلہ ’’ الصحوۃ الاسلامیۃ‘‘واستاذ حدیث وعربی ادب جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد – انڈیا،
Mob: +91 9032528208– E-mail: ihbq1982@gmail.com