مفتی ندیم احمد انصاری
قرآن مجید اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کے نزول کا فیصلہ فرمایا تو اس عظیم الشان ذمے داری پر حضرت جبریل امین علیہ السلام کو مقرر فرمایا ، قرآن مجید میںہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی تعلیم بہت بڑی طاقت والے (جبریل ؑ) نے دی ۔(النجم : ۵)یہ قرآن مجید اس بلند و بالا ذات کی جانب سے اتارا گیا ہے ، جسے زمین و آسمان کی ہر شے کا علم ہے۔قرآن مجید کی حفاظت کی ذمّے داری اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لی اور اسے بندوں کے لیے نصیحت قرار دیا ہے۔(الحجر:۹)
قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے اور عنقریب تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ارشادِربانی ہے : یقینا یہ (قرآن مجید ) آپ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی قوم کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے اور عنقریب تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔(الزخرف:۴۴)اس لیے ہر مسلمان پر قرآن سے وابستہ چند حقوق ہیں ، ان کا ادا کرنا لازم و ضروری ہے۔ان حقوق کو مندرجہ سات عنوانات کے تحت سمجھا جا سکتاہے؛(۱)اس پرایمان لانا(۲)اس کی حفاظت کرنا(۳)اس کا احترام کرنا(۴)اس کی تلاوت کرنا(۵)اس میں تدبر کرنا(۶)اس پر عمل کرنا اور(۷)اس کی تبلیغ کرنا۔
(۱)قرآن مجید پر ایمان لانا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے ایمان والو! تم اللہ، اس کے رسول، اس کتاب‘ جو اُس (اللہ) نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر، جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری، ایمان لے آؤ اور جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کرے، تو وہ بے شک دور ضلالت و گمراہی میں پڑا۔(النساء: ۱۳۶)ایک جگہ ایمان والوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی :وہ رسول اس پر ایمان لائے جو کچھ ان پر اُن کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور ایمان والے بھی، یہ سب ہی دل سے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی نازل کردہ کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔(البقرۃ: ۲۸۵)ایک جگہ ارشاد فرمایا:پس ایمان لاؤ اللہ پر ، اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے اتارا ہے۔(التغابن: ۸)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن ہونے کے لیے ضروری ہے :(۱) اللہ تعالیٰ (۲) فرشتوں (۳) اللہ کی نازل کردہ کتابوں (۴) اس کے بھیجے ہوئے رسولوں(۵) آخرت کے دن اور (۶) تقدیر کے اچھا یا برا، اسی کی طرف سے ہونے پر ایمان لائے۔ (مسلم:۱۰)
(۲)قرآن مجید کی حفاظت
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ِ ہدایت ہے، جس طرح خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں آنے والا، اسی طرح قرآن مجید کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی کتاب بھی نازل نہیں ہونے والی،اب قیامت تک پیدا ہونے والے اِنس و جِنّ کی رہنمائی قرآن مجید کے ذریعے ہی ہوگی،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے،درحقیقت یہ اللہ جل شانہ کی حفاظت ہی ہے کہ قرآن مجید چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسی طرح محفوظ اور موجود ہے، جس طرح نازل ہوا تھا۔یہ حفاظت صرف حروف و الفاظ اور اعراب و حرکات کی حد تک ہی نہیں، بلکہ اس کے معانی و مطالب بھی محفوظ من جانب اللہ ہیں۔اسی کے پیش نظراولاً قرآن مجید کو لوحِ محفوظ میں، ثانیاً بیت العزت میں، ثالثاً قلبِ رسولﷺ میں اور رابعاً بہت سے قلوبِ امت میں اسے محفوظ کیا گیا اور خامساًسیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرواکر، سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تراویح کی باجماعت نماز میں قرآن پر مسلمانوں کو جمع کرواکر اور سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ذریعے مصحف عثمانی کو مرتَّب کرواکرموجودہ صورت میں قرآن مجید کا حفاظتی نظام جاری کیا گیا۔ایسا اس لیے کیا گیا کہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے، یہاں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اسباب و وسائل کے تحت ہوتا ہے، اس لیے اس کریم مولا نے بے حد و حساب اجر و ثواب سے اپنے بندوں کو نوازنے کے لیے ان بندوں کو بھی اس ذمّے داری میں حصہ نصیب فرما دیا۔ سب سے پہلے اس کی حفاظت صحابہ کرامؓ کے ذریعے کرائی اور ان حضرات نے بے سر و سامانی کے عالم میں بھی اس کلام معجز کے ہر ہر پہلو کی حفاظت فرمائی، بعض نے اس کو حفظ کرکے اور بعض نے اس کی کتابت کے ذریعے اس کی حفاظت میں حصہ لیا۔
(۳)قرآ ن مجید کا احترام
قرآن مجید اللہ سبحانہ و تقدس کا کلام اور اس کی ذاتی صفت ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے سید الملائکہ کے توسط سے سید الانبیا ﷺپر نازل فرمایا، تاکہ قیامت تک آنے والی تمام مخلوق کے لیے ہدایت و نور کا سامان ہو۔اس لیے اللہ کے نیک بندے قرآن ِ کریم کی ہر طور تکریم وتعظیم کو بجا لاتے ہیں، لیکن بعض محرومین ایسے بھی ہیں ، جو خود کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن قرآن پر عمل، اس میں فکر وتدبر اور اس کی تلاوت و غیرہ کو چھوڑے رہتے ہیں ۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ارشاد ہے: اور رسول ﷺکہیں گے: یا رب ! میری قوم، اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی۔(الفرقان:۳۰ )حق بات یہ ہے کہ آج واقعی بہت سے لوگوں نے قرآن ِ کریم کو چھوڑ رکھا ہے ؛ انھوں نے اس کی تلاو ت کو چھوڑ دیا ، اس میں تدبر و تفکر کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل کو چھوڑ دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس عظیم کتاب قرآن کی عظمت و رفعت کی وضاحت میں ارشاد فرماتے ہیں:بلا شبہ یہ بڑی عظمت و رتبے والا ’قرآن ‘ ہے ۔جو ایک محفوظ کتاب میں(پہلے سے)درج ہے ، اسے وہی لوگ چھوتے ہیں جو خوب پاک ہیں ۔( الواقعۃ : ۸۰-۷۷)
(۴)قرآن مجید کی تلاوت
بعض لوگ تلاوتِ قرآن مجید کو معمولی اور بے فائدہ چیز سمجھتے ہیں ، جب کہ اس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر عظیم اجر وثوب کے وعدے ہیں ، تلاوت قرآن سے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے :(اے پیغمبر!) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے ، اس کی تلاوت کرو۔ (العنکبوت:۴۵)ایک مقام پر ارشاد ہے : جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اور جنھوں نے نماز کی پابندی رکھی ہے، اور ہم نے انھیں جو رزق دیا ہے ، اُس میں سے وہ (نیک کاموں میں ) خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں ، جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی۔(فاطر: ۲۹)یہی وجہ ہے کہ اسلاف نے قرآن مجید کی تلاوت کو اپنے رات و دن کا مشغلہ اور اپنے دلوں کی بہار بنا لیا تھا ، لیکن امت رفتہ رفتہ اس عظیم نعمت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔
(۵)قرآن مجید میں تدبر
قرآن مجید کا ایک حق مسلمانوں پر یہ ہے کہ وہ اس میں غور و فکر اور تدبر کریں ، اس لیے کہ قرآن مجید ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ تدبر قرآن کے معنی ہیں؛ اس کے مضامین میں غور و فکر کرنا۔ ارشاد ِ ربانی ہے:کیا یہ لوگ قرآن مجید میں غور وفکر سے کام نہیں لیتے ؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت اختلافات پاتے ۔(النساء : ۸۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ ، قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں ، اس میں چند امور قابلِ غور ہیں :(۱) ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے{افلا یتدبرون}فرمایا ،{افلا یقرؤن} نہیں، اس سے بظاہر ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ وہ اگر گہری نظر سے قرآن کو دیکھیں تو اس کے معانی و مضامین میں کوئی اختلاف نظر نہیں آئے گا اور یہ مفہوم تدبر کے عنوان سے ہی ادا ہو سکتا ہے ، صرف تلاوت اور قراء ت ؛ جس میں تدبر اور غور و فکر نہ ہو ، اس سے بہت سے اختلاف نظر آنے لگتے ہیں ، جو حقیقت کے خلاف ہے۔(۲) دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے، لہٰذا یہ سمجھنا کہ قرآن مجید میں تدبر کرنا صرف ائمہ و مجتہدین ہی کے لیے ہے ، صحیح نہیں ہے، البتہ تدبر اور تفکر کے درجات علم و فہم کے درجات کی طرح مختلف ہوں گے ۔ ائمہ مجتہدین کا تفکر ایک ایک آیت سے ہزاروں مسائل نکالے گا ، عام علما کا تفکر ان مسائل کے سمجھنے تک پہنچے گا ، عوام اگر قرآن مجید کا ترجمہ یا تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر تدبر کریں تو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکرپیدا ہوگی ، جو کامیابی کی کلید ہے ، البتہ عوام کے لیے غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن سبقاً سبقاً پڑھیں ، یہ نہ ہو سکے تو کسی مستند و معتبر تفسیر کامطالعہ کریں اور جہاں کوئی شبہ پیش آئے اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علما سے رجوع کریں ۔ ( معارف القرآن: ۲؍ ۴۸۸ ، بترمیم )
سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غور وفکر نہ کرنے کو منافقین کی رو ِش قرار دیا ہے ۔ارشادہے :بھلا کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے ، یا دلوں پر وہ تالے پڑے ہوئے ہیں ، جو دلوں پر پڑا کرتے ہیں۔(آیت:۲۴)دل پر قفل لگ جانے کے وہی معنی ہیں ، جس کو دوسری آیت میں {ختم} اور طبع یعنی مہر لگ جانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور مراد اس سے دل کا سخت اور ایسا بے حس ہو جانا ہے کہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگے ۔(معارف القرآن:۸؍ ۴۳)
(۶)قرآن مجید پر عمل
ایک حق قرآن مجید کا مسلمانوں پر یہ ہے کہ محض اس کی تلاوت کرنے یا اس میں غور و فکر کرنے ہی پر اکتفا نہ کریں،بلکہ اس کے تمام احکامات پر عمل بھی کریں، اگرچہ مذکورہ بالا چیزوں کا مستقل فائدہ ہے ، لیکن انھیں پر اکتفا کرلینا کافی نہیں۔ارشاد ِ ربانی ہیں: ( اے پیغمبر !)آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے جو وحی بھیجی گئی ہے، آپ اس کی پیروی کیجیے۔(الأنعام : ۱۰۶)ایک مقام پر ارشاد ہے :(لوگو!) جو کتاب تمھارے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی ہے ، اس کے پیچھے چلو۔(الاعراف : ۳)ایک اور مقام پر ارشاد ہے : اور تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس جوبہترین باتیں نازل کی گئی ہیں ، ان کی پیروی کرو ، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمھیں پتہ بھی نہ چلے۔(الزمر : ۵۵)
(۷) قرآن مجید کی تبلیغ
قرآن مجید کا ایک حق مسلمانوں پر یہ ہے کہ اس کی تبلیغ اقوام عالم میں کی جائے ، اگر ہم نے اس کی تبلیغ میں حتی المقدورکوشش نہ کی اور اس کی آفاقی دعوت امتِ دعوت تک پہنچانے میں کوتاہی کی تو یہ عظیم جرم ہوگا ، جس کا خمیازہ ہمیں دنیاو آخرت میں بھگتنا پڑے گا۔ارشاد ِ ربانی ہے : (اے پیغمبر ! جس طرح دوسرے رسول بھیجے گئے تھے ) اسی طرح ہم نے تمھیں ایک ایسی امت میں رسول بنا کر بھیجا ہے ، جس سے پہلے بہت سی امتیں گذر چکی ہیں ، تاکہ تم ان کے سامنے وہ کتاب پڑھ کر سنا دو جو ہم نے وحی کے ذریعے تم پر نازل کی ہے اور یہ لوگ اس ذا ت کی ناشکری کر رہے ہیں جو سب پر مہربان ہے۔(الرعد : ۳۰) ایک مقام پر ارشاد ہے :اور جس بات کی دھمکی ہم ان (کافروں ) کو دیتے ہیں ، چاہے اس کا کوئی حصہ ہم تمھیں (تمھاری زندگی ہی میں ) دکھا دیں ، یا (اس سے پہلے ہی ) تمھیں دنیا سے اٹھا لیں ،بہر حال ! تمھارے ذمّے تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینے کی ذمّے داری ہماری ہے ۔(الرعد : ۴۰)
[مضمون نگار دارالافتا نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]