از ــــ مولانا محمود احمد خاں دریابادی
ہمیں تقریر سے بہت زیادہ مناسبت نہیں ہے، لیکن کچھ تنظیمی، سماجی اور ملی ذمہ داریاں ایسی آپڑیں کہ تقریرکرنا ناگزیر ہوگیا، اب تک سیکڑوں تقریرں کرچکے ہیں، مگر اب تک طبیعت رواں نہیں ہوئی، کسی پروگرام جلسے وغیرہ میں جانا ہوتا ہے تو وہاں ایسا لگتا ہے کہ کاش ہم سےتقریر کرنے کے لئے نہ کہا جائے، لیکن اکثر جان نہیں چھوٹتی نام پکارا جاتا ہے اور تقریر کے نام پر کچھ نہ کچھ بولنا ہی پڑتا ہے، …….. بعد میں جب احباب ماشااللہ وسبحان اللہ کہہ کر ستائش کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہمارا دل رکھنے کے لئے یہ سب تعریفیں کررہے ہیں، واللہ اعلم باالصواب ـ
ہاں ایک موضوع ایسا ہے جس پر ہمیں لگتا ہے ہماری تقریر زبردست ہوتی ہے، وہ موضوع ہے ” حالات حاضرہ ” ……….. دراصل ہوا یہ ہے کہ تقریبا ۳۵ برس قبل حالات حاضرہ پر ایک تقریر یاد کی تھی آج تک وہی تقریر جزوی تبدیلی کے ساتھ کچھ نام و مقام وغیرہ بدل کر ہر جگہ کردیتے ہیں ـ ایسے موقع پر دلاور فگار کا ایک شعر یاد آتا ہے ………..
حالات حاضرہ تو نہیں مستقل مگر
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے
برسوں گزر گئے کم وبیش ہم ایک جیسے حالات سے گزر رہے ہیں، ہمارے خون کی ارزانی، الزام تراشیاں، ناانصافیاں بے جاگرفتاریاں، فسادات، مذہب میں مداخلت وغیرہ ہندوستان میں ہمارا مقدر بن چکی ہیں ـ ……….. برسوں سے یہی ہورہا ہے، اگرچہ ہم مقدور بھر حالات سے لڑتے بھی رہے ہیں، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ہم پر جو گزر رہی ہے وہ بس ہم ہی جانتے ہیں ـ ملک زادہ منظور نے کہا ہے کہ ………..
زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی
تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی
جام خالی تھے مگر میخانہ تو آباد تھا
چشمِ ساقی میں تغافل تھا پشیمانی نہ تھی
ظلم وستم پہلے بھی ہوتا تھا، اُس ظلم وستم میں اُس وقت کی حکومت کے کارندوں کی شمولیت بھی ہوتی تھی، مگر یہ شمولیت خاموشی سے اور خفیہ ہوتی تھی، جب مسلمان احتجاج کرتے یا حکومتی ذمہ داروں کے پاس فریاد لے کر جاتے تو ان کی فریاد سنی جاتی، انصاف کا یقین بھی دلایا جاتا، کچھ ٹوتی پھوٹی کارروائی بھی کی جاتی، ……….. مگر اب دوسرا زمانہ ہے اب سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے، پوری بے حیائی کے ساتھ ہورہا ہے، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظالموں کے درمیان آپس میں مسابقہ و کمپٹیشن چل رہا ہے کہ کون مسلمانوں کو سب سے زیادہ پریشان کرسکتا ہے، فخر کے ساتھ بیانات دئے جارہے ہیں کہ ہم نے تین طلاق ختم کردیا، حجاب پر روک لگادی، یونیفارم سول کوڈ لارہے ہیں، بوچڑ خانے بند کرادئے، اتنے مدرسوں پر پابندی لگادی ـ ……….. پرانے زمانے میں جس طرح راجے مہاراجے شیر کا شکار کرکے بڑے فخر کے ساتھ اس کی لاش پر پیر رکھ کر فوٹو کھنچایا کرتے تھے بالکل اسی طرح آج مسلمانوں کی چھاتی پر پیر رکھ کر فوٹو کھنچوانے کی ہوڑ لگ رہی ہے ـ
ایسے ہی ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں خصوصا نوجوانوں میں غم و غصہ تو ضرور ہے ساتھ میں مایوسی اور بے بسی بھی ہے، ……….. نوجوانوں کی یہ مایوسی اور بے بسی قوم کے لئے بہت نقصان دہ بلکہ خطرناک ہے ـ نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، اگر نوجوانوں کو اس دلدل سے جلدی نہ نکالا گیا تو ہمارے نوجوان مستقل احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے جس کی وجہ قوم کامستقبل تاریکی میں پڑسکتا ہے، ………. ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ نوجوان رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوکر ایسا کچھ کر گزریں جس کی ملکی قانون اجازت نہیں دیتا، ………. آج کل ہمارے خلاف ایسا ماحول بنادیا گیا ہے کہ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر نقصان خربوزے کا یعنی مسلمانوں کا ہی ہوگا ـ
اس لئے قوم کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ قوم کو مایوسی اور بے بسی کے جال سے نکالا جائے ـ یوں تویہ کام ملت کے تمام ارباب حل وعقد، دانشوران، صحافی، سیاسی، ملی وسماجی کارکنان وغیرہ کے کرنے کا ہے، مگر علماء کرام، ائمہ مساجد، شیوخِ طریقت اور سجادہ نشین حضرات سب سے بہتر انداز میں یہ کام کرسکتے ہیں، اس لئے کہ ان تمام حضرات کا عوام الناس سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے ـ ……… یہ تمام لوگ اس سلسلے میں درج ذیل کام کرسکتے ہیں ـ
۱ ـ اپنے مواعظ اور خطبات کے ذریعے عوام میں عزم و حوصلہ پیدا کیا جائے، رجوع الی اللہ کی طرف اُنھیں راغب کیا جائے، اُنھیں صحابہ کرام، مجاہدین، اسلافِ امت اور دیگر بہادران اسلام کے واقعات سنائے جائیں، بتایا جائے کہ ملت پر آج کل جس طرح کے حالات ہیں وہ نئے نہیں ہیں اس سے پہلے کئی مرتبہ ملت ایسے بلکہ اس سے بھی زیادہ نازک حالات سے گزر چکی ہے، فتنہ تاتار کے متعلق بتاجائے جب ایسا لگتا کہ دنیا سے اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا، اس پہلے فتنہ خوارج، فتنہ حشاشین، قرامطہ جو خانہ کعبہ سے حجر اسود تک اُکھاڑ کر لے گئے تھے جو عرصے تک اُن کے قبضے میں رہا ـ ………. ملت نے ایسے تمام فتنوں کا بھرپور مقابلہ کیا ہےاور ہر بار تمام طاغوتی طاقتوں کو شکشت دے کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہے، اس لئے مسلمان مایوسی کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دیں، عزم، ہمت اور حوصلہ قائم رکھیں ـ
۲ ـ ملت کی فلاح وبہبود کے لئے سرگرم افراد جو ظلم کے خلاف قانونی اور عوامی جدوجہد کررہے ہیں اور ایسی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں، کم ازکم بے جا تنقیدیں کرکے اُن کی حوصلہ شکنی تو بالکل نہ کریں ـ واضح رہے کہ ظلم کے خلاف لڑنے والوں میں بہت سے غیر مسلم بھی شامل ہیں ـ
۳ ـ کچھ فرقہ پرست اور مسلم دشمن عناصر دانستہ ایسی حرکتیں کرتے اور ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے مسلمان مشتعل ہوں، سڑکوں پر اتریں، ہنگامہ، توڑ پھوڑ ہو اور پھر مسلمانوں پر گولیاں چلیں، اُن کی املاک پر بلڈوزر چلایا جائے ـ اس لئے کسی بھی قیمت پر اشتعال قبول نہ کریں، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اپنا ہی نقصان ہوتا ہے ـ
۴ ـ ہمارے وطن کا قانون ہمیں بلکہ تمام باشندوں کو پُرامن عوامی احتجاج، مظاہرے، جلسے جلوس، دھرنے پردرشن کی اجازت دیتا ہے،……….. لیکن اس سلسلے میں اس بات خیال رکھیں کہ کسی غیر معروف تنظیم یا ناتجربہ کار افراد کی دعوت پر کسی قسم کا احتجاج، مظاہرہ، دھرنا وغیرہ نہ کریں، اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ عین وقت پر مظاہرے کی دعوت دینے والے کسی دباو یا لالچ کا شکار ہوکر غائب ہوجاتے ہیں اور عوام کو بے یار ومددگار پولیس ڈنڈے، گولیاں کھانے یا برسوں تک جیلوں میں سڑنے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں ـ
۵ ـ آج کل اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے غیر مسلم پڑوسیوں، محلے داروں، بسوں ٹرینوں میں ساتھ سفر کرنے والے غیر مسلم ہم سفروں، ساتھ ملازمت کرنے والے غیر مسلم ساتھیوں یا ہم سے کاروبار کرنے والے تاجروں، ہماری دوکانوں پر آنے والے غیر مسلم گاہکوں اور اپنے غیرمسلم ملازموں وغیرہ سے اسلامی اخلاق وکردار کا مظاہرہ کریں، اُن کے مسموم ذہنوں کو صاف کریں، آجکل پروپیگنڈے کا سہارا لے کر ایک عام غیر مسلم کے ذہن میں بھی مسلمانوں کے خلاف زہر بھردیا گیا ہے ـ
۶ ـ آج کل ہجومی تشدد ماب لنچنگ نام کا ایک نیا ظالمانہ طریقہ شروع ہوگیا ہے ـ اول تو ایسی خطرناک جگہوں یا مشکوک علاقوں میں تنہا جانے سے ہر ممکن گریز کریں ـ لیکن اگر خدانخواستہ ایسے حالات سامنے آجائیں تو ظالموں کے سامنے رونے، گڑگڑانے اور غیر اسلامی جملوں کی آدائیگی سے پرہیز کریں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس سے جان نہیں بچتی بلکہ ظالم زیادہ جری ہوجاتا ہے، ایسے موقع پر عزیمت، جرات اور بہادری کا مظاہرہ کریں، حُسینی کردار ہمارے سامنے ہے، جان ایک ہی بار جاتی ہے ـ………..
شہادت ہےمطلوب ومقصودِمومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کُشائی
۷ ـ آخر میں ایک بار پھر دعا، انابت اوررجوع الی اللہ کے ساتھ توبہ استغفار کی بھی تلقین کرنی چاہیئے، بار بار کرنی چاہیئے ـ
یہ چند نکات سرسری طور پر ذہن میں آئے ہیں جن کو ہمارے علماء کرام بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں، …….. ولِلّہِ العِزّۃُ و لِرَسُولہ ولِلمومِنین
محمود احمد خاں دریابادی
14 اگست 2022 ء ایک بجے شب