شراب اور منشیات کی تباہ کاریاں اور حکومتوں کا دوہرا رویہ

مفتی محمد قاسم اوجھاری

ہر عقل مند شخص جانتا ہے کہ انسانیت کا مدار عقل وفراست پر ہے، عقل ہی انسان کو دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے، اسی عقل سے آدمی اچھے اور برے میں تمیز کرتا ہے، نفع ونقصان کا احساس کرکے نفع بخش چیزوں کو اختیار کرتا ہے اور نقصان دہ چیزوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی ساری سرگرمیاں عقل و دانش کے ارد گرد ہی گھومتی ہیں، اور اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ اگر عقل ہے تو انسان ہے، اور اگر عقل نہیں تو انسان نہیں۔ اور جو چیز عقل کو ہی ضائع کردے اس سے زیادہ تباہ کن چیز کیا ہو سکتی ہے؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ نشہ سے عقل انسانی ماؤف ہوجاتی ہے، آدمی اچھے اور برے میں تمیز کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، حتی کہ پانی اور پیشاب، بیوی اور بہن کے درمیان بھی تمیز نہیں کر پاتا، بسا اوقات گھر اور راستے کے درمیان بھی فرق نہیں کرتا، چناں چہ کتنے ہی نشہ باز سڑکوں پر پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اسلام انسانیت کی تذلیل کبھی برداشت نہیں کرتا، اسلام ایک دین فطرت ہے، اسلامی تعلیمات انسانیت کی بقا کی ضامن ہیں، اسلام نے نشہ اور شراب کو ام الخبائث قرار دیا ہے، کیوں کہ جب عقل ٹھکانے ہوگی تب ہی آدمی برائیوں سے بچے گا، اور جب عقل ہی جاتی رہے اور آدمی نشے میں مدہوش ہوجائے تو پھر وہ کوئی بھی غلط کام بآسانی کرسکتا ہے۔

آج معاشرے میں جو گناہ بکثرت پھیل رہے ہیں ان میں شراب نوشی اور منشیات سرفہرست ہیں، نشے نے انسانی معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، لوگ اس کے چند وقتی اور ظاہری فائدے دیکھ کر اس کی طرف لپکے جارہے ہیں، جب کہ اس کے دائمی اور تباہ کن مفاسد کو بھی بغور دیکھنا چاہیے۔ بدن انسانی پر شراب کے بے شمار نقصانات ہیں۔ شراب رفتہ رفتہ معدے کے فعل کو فاسد کر دیتی ہے، کھانے کی خواہش کم کردیتی ہے، چہرے کی ہیئت بگاڑ دیتی ہے، پیٹ کو بڑھا دیتی ہے، مجموعی حیثیت سے تمام قوی پر اس کا اتنا اثر پڑتا ہے کہ جو شخص شراب کا عادی ہو چالیس سال کی عمر کے قریب اس کے بدن کی ساخت بوڑھی عورت کی طرح ہوجاتی ہے، وہ جسمانی طاقت وقوت کے اعتبار سے انتہائی کمزور ہوجاتا ہے، جگر اور گردے خراب ہو جاتے ہیں، سل کی بیماری شراب کا خاص اثر ہے، یورپ کے شہروں میں سل کی کثرت کا بڑا سبب شراب ہی کو بتایا گیا ہے، وہاں کے بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یورپ میں آدھی امواد سل کے مرض میں ہوتی ہیں۔ عقل پر شراب کا اتنا اثر پڑتا ہے کہ جب تک اس کا نشہ رہتا ہے عقل کام نہیں کرتی، ماہرین اور ڈاکٹروں کی تحقیق ہے کہ نشے کی عادت قوت عاقلہ کو بھی کمزور کر دیتی ہے، جس کا اثر ہوش میں آنے کے بعد بھی رہتا ہے، بعض اوقات جنون تک اس کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اطباء اور ڈاکٹروں کا اتفاق ہے کہ شراب نہ جزؤ بدن بنتی ہے اور نہ اس سے خون بنتا ہے کہ جس کی وجہ سے بدن میں طاقت آئے، بلکہ وہ صرف خون میں ہیجان پیدا کرتی ہے، جس سے صرف وقتی طور پر قوت کی زیادتی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہی خون کا دفعتاً ہیجان بعض مرتبہ دل کا دورہ کی شکل میں موت کا سبب بن جاتا ہے۔ شراب کے ذریعے وہ رگیں سخت ہوجاتی ہیں جن کے ذریعے سارے بدن میں روح پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے بڑھاپا جلد آتا ہے۔ شراب کا اثر انسان کے حلقوم اور تنفس پر بھی پڑتا ہے، جس کی وجہ سے آواز بھاری ہوجاتی ہے، دائمی کھانسی ہوجاتی ہے۔ شراب کا اثر نسل انسانی پر بھی پڑتا ہے، چناں چہ شرابی کی اولاد کمزور رہتی ہے، اور بعض مرتبہ اس کا نتیجہ قطع نسل تک پہنچ جاتا ہے۔ شراب ایک ایسا زہر ہے جس کا اثر تدریجی طور پر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد تمام نقصانات ظاہر ہوجاتے ہیں۔ شراب کا ایک بڑا تمدنی مفسدہ یہ ہے کہ وہ اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں بغض وعداوت اور دشمنی پھیل جاتی ہے۔ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ مدہوشی کے عالم میں بعض مرتبہ آدمی اپنے پوشیدہ راز بھی بیان کر ڈالتا ہے۔ اسی طرح شرابی ایک کھلونا بن جاتا ہے جس پر لوگ ہنستے ہیں اور اس کو اپنی ٹھوکروں سے روندتے ہیں، اس کا کلام اور اس کی حرکات سب غیر متوازن ہوجاتی ہیں۔ شراب ایسی ام الخبائث ہے جو انسان کو تمام برے کام اور جرائم پر آمادہ کرتی ہے، زنا اور قتل وغیرہ اسی کے نتائج ہیں، یہی وجہ ہے کہ عام شراب خانے زنا اور قتل کے اڈے ہوتے ہیں۔ شراب کے مالی مضرات اور نقصانات بھی بے شمار ہیں، جس کو ہر شخص بخوبی جانتا ہے، کسی بستی میں اگر کوئی شراب خانہ کھل جاتا ہے تو پوری بستی کی دولت کو سمیٹ لیتا ہے۔ الغرض شراب اور منشیات کے بے شمار نقصانات ہیں، جن کا احاطہ دشوار ہے۔ جرمنی کے ایک ڈاکٹر کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ: اگر آدھے شراب خانے بند کر دیے جائیں تو میں ضمانت لیتا ہوں کہ آدھے شفا خانے اور آدھے جیل خانے بے ضرورت ہوکر بند ہوجائیں گے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ آج انسانیت کی ٹھیکے دار کہی جانے والی قومیں شراب اور منشیات کو عام کرکے انسانیت کو تار تار کر رہی ہیں۔ آج کے نئے دور میں نشہ کرنا اور شراب پینا کوئی عیب نہیں رہا ہے، بلکہ فیشن بن گیا ہے۔ جگہ جگہ شراب کے اڈے قائم ہیں، ہوٹلوں حتیٰ کہ چائے کی دکانوں پر بھی شرابیں بآسانی دستیاب ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً حکومتوں کی طرف سے نشہ بازی کے خلاف اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں، منشیات کی تباہ کاریوں کو بیان کیا جاتا ہے اور شراب نوشی پر لگام کسنے کی باتیں کی جاتی ہیں، لیکن دوسری طرف باقاعدہ شراب بیچنے کے لائسنس جاری ہوتے ہیں، آئے دن نئی نئی دکانیں کارخانے اور فیکٹریاں قائم کی جاتی ہیں، اور شراب پر بھاری ٹیکس وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کیا جاتا ہے۔ 

اسلام اس دو رخی پالیسی کا قائل نہیں ہے، اسلام برائی کو جڑ سے مٹانے کی بات کرتا ہے، چناں چہ شراب اور منشیات کے بارے میں اسلام کا واضح اور مضبوط موقف ہے کہ شراب ہو یا دیگر نشہ آور چیزیں، سب ممنوع اور حرام ہیں۔ حتی کہ اسلام نے شراب اور منشیات کی خرید وفروخت اور ان کی دکانیں، کارخانے اور فیکٹریاں وغیرہ بنانے کو بھی ممنوع اور قابل تعزیر جرم قرار دیا ہے۔ اسلام اس منافقت کو کبھی برداشت نہیں کرتا کہ ایک طرف باقاعدہ شراب بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت ہو اور دوسری طرف شراب کی بوتلوں پر اس کے نقصانات کی صرف تنبیہ لکھ دی جائے، یا اشتہارات جاری کر دیے جائیں۔ اس طریقے سے کبھی شراب اور منشیات کا رواج ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی دوہرے رویہ کی وجہ سے دنیا میں نشہ بازوں کی روز بروز کثرت ہوتی جارہی ہے۔ حکومتوں کو اپنا یہ رویہ بدلنا چاہیے، تاکہ معاشرے کو اس قبیح لعنت سے نجات مل سکے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے