تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی
*نام کتاب : استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلی ؒ نانوتوی*
*منصف : مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی*
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دورِ حاضر میں علم وتحقیق کی آبرو ہیں ، ان کے علمی وتحقیقی شہ پاروں کے قدرداں جس طرح اہل مدارس و علماء دین ہیں اسی طرح جدیدعلوم کے حامل دانشور ومحققین بھی ہیں۔اس وقت مولانا کاایک عظیم تحقیقی کارنامہ ’’ مولانا مملوک العلی ؒ نانوتوی ‘‘ کی سوانح ضخیم ومستند میرے سامنے ہے ، یہ کتاب 612؍ صفحات پر مشتمل ہے اور مولانا مملوک العلی ناناتویؒ کی پہلی مکمل سوانح ہے۔
اس کتاب پر مفتی سعید احمد پالن پوری ( سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند )کے کلماتِ ترحیب، اردو دنیا کے نامور محقق وناقد شمس الرحمٰن فاروقی کا پیش لفظ ، ممتاز محقق ومورخ اور ماہر لسانیات ، کراچی یونیورسٹی کےسابق وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی کا کلمۂ استقبال اور اردو دنیا کی قدر آور شخصیت ڈاکٹر خلیق انجم کے کلمات تہنیت موجود ہیں ۔اسی بنا پر میں نے لکھا ہے کہ مولانا کے علمی وتحقیقی کاموں کی قدر وقیمت قدیم وجدید دونوں طبقات کے درمیان یکساں ہے۔
مولانا مملوک العلی نانوتوی ( و؛ 1204ھ؍ 1789ء۔ م: 11؍ ذی الحجہ 1267ھ؍ 17؍ اکتوبر 1851ء) اپنے وقت جید وممتاز عالم اور علماء دیوبند کے سرخیل مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہما کے استاذ و علمی پیشوا ہیں ۔ان کے صاحبزادے مولانا محمد یعقوب نانوتوی دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث وصدر مدرس تھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ مولانا مملوک علی صاحب جن کی حیثیت استاذ الکل کی ہے ، جن کے تلامذہ میں اپنے وقت کے ایک سے ایک نابغۂ روزگار افراد ہیں ، جو خود اپنی ذات سے ایک امت ہیں ، ایسی عظیم شخصیت پر چند متفرق تحریروں کے علاوہ اب تک کوئی مبسوط ومستند سوانح نہیں تھی ۔ جبکہ اس سوانح کی ضرورت علم وتحقیق کی دنیا کے ہرفرد کے دل کی آواز تھی ، لیکن کام مشکل تھا ، اس لئے ٹلتا رہا ،بالآخر مولانا نور الحسن راشد نے اس کا بیڑا اٹھایا اور سالوں کی محنت شاقہ کے بعد اسے پایۂ تکمیل کو پہنچایا ۔ اس کتاب کے ذریعہ صرف صاحب سوانح کے حالات ہی نہیں بلکہ انیسویں صدی کی تعلیمی ، سیاسی اور معاشرتی صورتحال اور اس دور کے علماء واساطین ، تعلیم گاہیں، تاریخی عمارتیں اور نادرونایاب مخطوطات وکتابوں سے متعلق ایسی اہم اور قیمتی معلومات سامنے آتی ہیں جو سیکڑوں کتابوں سے بےنیاز کردیتی ہیں۔
مفتی سعید احمد پالن پوری نے لکھا ہے کہ بزرگان دیوبند کے روحانی پیشوا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور علمی پیشوا مولانا مملوک العلی نانوتوی ہیں ، حاجی صاحب سے تو جماعت دیوبند کسی درجہ میں واقف ہے لیکن مولانا مملوک علی صاحب سے کماحقہ واقفیت نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اس سوانح کی ضرورت اور مولانا نور الحسن راشد کی لیاقت واہلیت اور بصیرت کے بارے میں لکھتے ہیں:
*’’حضرت حاجی صاحب سے جماعت دیو بند کسی درجہ میں واقفیت رکھتی ہے، لیکن مولانا مملوک العلی صاحب سے کما حقہ واقف نہیں۔ اس لئے ضرورت تھی کہ آپ کی کوئی مفصل سوانح مرتب کی جاتی جو جماعت دیوبند کے لئے سرمہ بصیرت بنتی ۔اس ضرورت و خدمت کا اوروں کے علاوہ مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی کو بھی بہت احساس تھا مولا نا زید فضلہ نے اس فرض کفایہ کی تکمیل اور اس سوانح کی تصنیف کے لئے قلم اٹھایا اور محنت شاقہ برداشت کر کے، استاذ الکل حضرت مولا نامملوک العلی نانوتوی کا بہت عمدہ جامع اور مفصل تذکرہ مرتب کر دیا۔مولا نا راشد دوآ بہ کے علماء و اولیاء کے حالات پرمبصرانہ، بلکہ مجتہدانہ نظر رکھتے ہیں ، وہ استنباط احوال کا گُر بھی جانتے ہیں، واقعات کی مفقود کڑیوں کو ملا دیتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پیشیں سوانح نگاروں پر انگلی رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔*
*میں نے اس کتاب کا معتد بہ حصہ پڑھا ہے، صاحب سوانح پر ہمہ جہتی روشنی ڈالنے کےعلاوہ، سوانح نگار نے اس زمانے کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ قاری اس زمانے میں پہونچ جاتا ہے، اور صاحب سوانح کے متعلقات بھی کافی تفصیل سے بیان کئے ہیں ۔ جیسے نانو تہ اور اس کے مشائخ کا تعارف ، حضرت مولا نا مملوک العلی صاحب کی اولا د اور تلامذہ کا مفصل تذکرہ۔یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب صاحب سوانح کی شخصیت سے واقفیت کے لئے کافی وافی ہے‘‘۔ *
اس کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی کی یہ شہادت بھی ملاحظہ فرمائیےکہ *’’ میرا خیال ہے کہ اردو میں اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے ۔‘‘ ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مولوی صاحب کے بارے میں اتنی مبسوط تحریر اردو کیا عربی اور فارسی میں بھی نہیں ہے۔‘‘ ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب عامی اور عالم دونوں کے لئے استفادہ اور حوالہ کا ذریعہ بنے گی ۔‘‘*
ڈاکٹر جمیل جالبی ( سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ) لکھتے ہیں :
*مولا ناراشدصحیح معنی میں محقق ہیں، بال کی کھال نکالنے والے، صحیح وغلط کو الگ الگ کر کے دکھانے والے، علم وادب کے پارکھ، تاریخ کے فاضل ، اب جومولا نامملوک العلی نانوتوی پر ان کی نئی تصنیف نظر سے گذری تو میں ان کے علم فضل اورنظر کا مزید قائل ہو گیا۔ میں خود اب تک مولا نا مملوک العلی کو سرسید کا استاد سمجھتارہا تھا،اور فی الواقع یہ سبق میں نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور شیخ محمد اکرام سے پڑھا تھا، لیکن جن دلائل اور حوالوں کے ساتھ مولانا راشد نے زیر نظر کتاب میں’’ سرسید کے مولا نا مملوک العلی سے تلمذ اور دہلی کالج میں پڑھنے کی روایت پر ایک نظر“ کے عنوان کے تحت اسے بے بنیاد بتایا ہے، وہ ہمہ وجوہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔*
*و ہ دلائل کو دلائل کی سطح پر رکھتے ہیں اورانہیں ذاتیات کی کیچڑ میں نہیں سانتے ، انہوں نےجہاں کہیں دوسرے علماء ومحققین سے اختلاف کیا ہےوہاں بھی دینی مدارس کی خالص علمی کے روایت کے زیر اثر،عزت واحترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔*
*وہ ایسے محقق ہیں جو اختلاف کر کے اتراتے نہیں، بلکہ معروضی انداز میں دلائل اور حوالوں کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں ،مثلاً زیر نظر تصنیف: ”حضرت مولا نا مملوک العلی نانوتوی“ میں، مولا نا مملوک العلی کی مدرسہ دارالبقا سے وابستگی کے سلسلہ میں، حضرت مولا نا اشرف علی تھانوی اور نزہۃ الخواطر کے مؤلف ومصنف حکیم عبدالحی سے اختلاف کیا ہے،اور اپنی بات کو نئے اور پرانے مآخذ سے اس طرح مدلل پیش کیا ہے کہ مولا نا راشد سے اتفاق کر نا پڑتا ہے۔ راشد صاحب دلائل اور اصل مآخذ کے حوالوں سے ، اپنے زاویۂ نظر کے لحاف میں ڈورے سے ڈالتے چلے جاتے ہیں ۔ وسیع مطالعہ اور موضوع پر گہری نظر ان کی تحقیق تحریر کی اصل طاقت ہے،،۔*
ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں :
*’’میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوپاک کی یونیورسٹیوں میں جتنے تحقیقی مقالوں پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جارہی ہیں ، ان میں سے ۹۵ فیصد مقالوں سے یہ کتاب بہتر ہے‘‘۔*
ان وقیع شہادتوں کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کتاب 22؍ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب : نانوتہ کی مختصر تاریخ اور چند نامور مشائخ اور علماء ‘‘ ہے ۔ اس میں قصبہ نانوتہ کی تاریخ اور وہاں کے چند قدیم علماء ومشائخ کا تذکرہ ہے۔ دوسرا باب ’’صدیقی خاندان کی نانوتہ آمد اور قیام ‘‘ ہے۔ اس باب میں مولانا مملوک العلی کے خاندان کی یہاں آمد ، ان کے آباء واجداد اور خاندانی شجرۂ نسب کی تفصیلات ہیں ۔ تیسرا باب ہے ’’ مولانا مملوک العلی : ولادت ، علاقہ اور وطن کا تعلیمی پس منظر ، مولانا کے اساتذہ اور تعلیم کی تکمیل کے لئے دہلی کا سفر ‘‘ ۔ چوتھا باب ’’ مولانا کے اساتذہ کے مختصر حالات ‘‘ ہے۔ جس میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، مفتی الٰہی بخش کاندھلوی ، مولانا سید محمد قلندر محدث جلال آبادی ، مولانا عبد اللہ خاں علوی اور مولانا رشید الدین خاں کشمیری کے حالات ہیں ۔ پانچواں باب ’’ دہلی کالج کا پس منظر اور قیام ‘‘ ہے، جس میں دہلی کالج کے تعلق بڑی اہم معلومات آگئی ہیں ۔ چھٹا باب ’’ مولانا مملوک العلی کا دہلی کالج میں تقرر ‘‘ ہے ۔ ساتواں باب ’’ مولانا مملوک العلی کے عہد میں دہلی کالج ‘‘ ہے۔ یہ اس کتاب کا اہم ترین باب ہے ، اس میں دہلی کالج کے نصاب تعلیم ، درجوں کی کیفیت ، امتحانات کے نتائج ، مولانا کے تلامذہ کی اعلیٰ استعداد اور مولانا کے عمدہ تعلیمی وتربیتی اثرات جیسے موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔آٹھواں باب ’’ دہلی کالج کے علمی وتعلیمی شعبوں کی نگرانی ‘‘ ہے۔ نواں باب ’’ تحریک سید احمد شہید ؒؒ سے وابستگی ‘‘ ہے۔ جس میں اس تحریک سے متعلق سید صاحب کے مکاتیب اور دیگر قلمی تحریروں کی روشنی میں مستند معلومات اور تاریخی حقائق کو اجاگر کیا گیا ہے۔دسواں باب ’’ شاہ محمد اسحاق کی ہندوستان سے ہجرت ‘‘ ہے، اس باب میں ہجرت کے تفصیلات کے ساتھ مولانا عبید اللہ سندھی کی تحریر سے پیدا ہونے والی ایک تاریخی غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔
گیارہواں باب ــ’’اخلاق ومزاج کی ایک سرسری جھلک ‘‘ ہے۔ بارہواں باب ’’سفرحج اور اس کا سنہ ‘‘ ہے۔ جس میں سفر حج کے علاوہ شاہ اسحاق صاحب کے سفر ہجرت کے صحیح سن کی تعیین بھی کی گئی ہے۔ تیرہواں باب ’’ مولانا مملوک العلی کی تصانیف ‘‘ سے متعلق ہے ، جس میں ان کی تصانیف ، مؤلفات، حاشیے اور ترجموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چودہویں باب میں مولانا کا ایک غیر منقوط عربی خط پیش کیا گیا ہے ، جس سے عربی زبان پر ان کی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے، اس کا اردوترجمہ بھی عربی خط کے بعد ہے۔ پندرہویں باب میں اردو زبان میں لکھے گئے مولانا کے چند اہم خطوط ہیں ۔ سولہویں باب میں چند اہم فتاویٰ اور کچھ علمی سوالات کے جوابات ہیں ۔ سترہواں باب ’’ چند اہم کتابوں کی تصنیف واشاعت میں حصہ ‘‘ ہے۔اٹھارہواں باب ’’ مولانا مملوک العلی کا کتب خانہ ‘‘ ہے۔ یہ مولانا کی اس تحریر کی روشنی میں لکھا گیا جو انھوں نے ڈاکٹراسپرنگر پرنسپل دہلی کالج کی فرمائش پر اپنے کتب خانہ کے متعلق لکھی تھی ۔ انیسواں باب ’’ علالت ووفات اور مسجد مہندیان دہلی کے صحن میں تدفین ‘‘ ہے۔ بیسواں باب ’’ اولاد واحفاد ‘‘ ہے۔ اس میں دیگر اولاد کے ساتھ مولانا یعقوب نانوتوی کے حالات نہایت تفصیل کے ساتھ لکھے گئے ہیں ۔اکیسواں باب ’’ مولانا مملوک العلی کے چند شاگرد : فہرست وتعارف ‘‘ ہے ، یہ اس کتاب کا سب سے طویل باب ہے ، اس میں مولانا کے51؍ تلامذہ کے نام ہیں،جن میں اکثر کا تعارف بھی شامل ہے ، چند لوگ ایسے ہیں جن کے حالات نہ مل سکے۔ اس میں تلامذہ کی چھ قسمیں قرار دی گئی ہیں ۔ یہ باب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بائیسواں باب ’’ سرسید کے مولا نا مملوک العلی سے تلمذ اور دہلی کالج میں پڑھنے کی روایت پر ایک نظر‘‘ ہے۔ یہ بڑی معرکۃ الآرا بحث ہے ، مشہور ہے کہ سر سید احمد خاں مولانا مملوک العلی کے شاگرد اور مولانا قاسم نانوتوی کے ہم سبق ہیں ۔ مولانا کاندھلوی نے دلائل وشواہد کی روشنی میں اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تیئیسویں اور آخری باب میں مولانا مملوک العلی کے عہد کے چند تذکرہ نگاروں کی تحریریں پیش کی گئی ہیں ، جن میں مولانا کے متعلق بڑے بلند خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں مولانا ذوالفقار علی دیوبندی ، کریم الدین پانی پتی اورسر سید احمد خاں ہیں ۔
فہرست مضامین میں حواشی میں ذکر کردہ شخصیات کی فہرست دیدی گئی ہے جس سے ان کی تلاش میں بہت آسانی ہوگئی ہے، ان شخصیات کی تعداد 35؍ ہے۔اسی طرح اخیر کتاب میں مولانا مملوک العلی کی تصانیف ومکاتیب اور ان کے مکان ومدفن کے عکس شامل ہیں ان کی فہرست بھی اصل فہرست میں شامل ہے ۔اخیر میں 35؍ صفحات پر مشتمل مفصل اشاریہ بھی ہے ،فہرست مراجع میں 201؍ کتابوں کا ذکر ہے۔
کتاب 612؍ صفحات پر مشتمل ہے ، سن اشاعت 2009ء ہے ۔یہ مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ سے شائع ہوئی ہے اور وہیں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
2؍ربیع الاول 1444ھ مطابق 29؍ستمبر2022ء جمعرات