عبداللہ خٓلد قاسمی خیرآبادی
ربیع الاول کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے اس مہینہ میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی گویا انسانیت کی سوکھی کھیتی کے لیے ابر باراں میسر آگیا۔ آپ کی ولادت با سعادت انسانیت کے لیے عظیم دولت و نعمت اور اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام و احسان ہے ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلیٰ المُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْہُمْ (القرآن)
چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں عالم انسانیت کی فضاء روحانی میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوامولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے لکھاکہ
’’ آپ کی ولادت با سعادت گویا رحمت الٰہی کی بدلیوں کی ایک عالم گیر نمود تھی، جس کے فیضان عام نے تمام کائنات کو سرسبزی و شادابی کی بشارت سنائی، اور زمین کی خشک سالی کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا، آپ کی ولادت با سعادت ہدایت الٰہی کی تکمیل تھی، شریعت ربانی کے ارتقاء کا آخری مرتبہ تھا یہ سعادت بشری کا آخری پیام تھا، یہ وراثت ارضی کی آخری بخشش تھی ‘‘اس لیے کہ سارے عالم کے لیے رحمت و رافت کا مجسم پیکر بن کر ہادیٔ عالم ، داعیٔ اعظم، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے،
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعا ئے خلیل اور نوید مسیحا
مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت کا مقام ہے کہ ان کا پیغمبر اس ماہ مبارک میں جلوہ افروز ہوا، عالم انسانیت کو ضلالت کی تاریکیوں کے بجائے ہدایت کی روشنی ملی، جہل کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کو علم و آگہی میسر آگئی، گلشن آدم سنور گیا،
جہل کی ہر زنجیر کو توڑا، رشتہ ایک خدا سے جوڑا
پھر سے سنوارا گلشن آدم صلی اللہ علیہ وسلم
خوشی کے مواقع پر خوشی منانا ایک فطری بات ہے، اور شریعت اسلامیہ اس پر پابندی بھی نہیں لگاتی لیکن شریعت نے ہر چیز کی ایک حد اور ایک دائرہ مقرر کیا ہے، جس کے اندر ہی وہ چیز محمود و مستحسن ہے اور اس کے باہر وہ شرعاً مذموم اور غیر مستحسن ہی نہیں بلکہ باعث عقاب و عذاب ہے۔
ماہ ربیع الاول میں ولادت نبوی کی تاریخ یقیناً بڑی خوشی اور اانتہائی مسرت کا موقع ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے اس پر غور کیا جائے کہ عامۃ المسلمین کا اظہار خوشی کا انداز کیا ہوتا ہے ۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر مسرت کا طریقہ کیا ہوتا ہے، کیا شرعی حدود و قیود کی پابندی ملحوظ ہوتی ہے؟
ہمارے لیے شریعت اور شرعی حکم وہی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے برگزیدہ اصحاب اور پھر ان کے حقیقی جانشین تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہو، اس مرحلے پر آکر جب ہم تاریخ و سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو موجودہ طریقے اور رسوم و بدعات جو ماہ ربیع الاول سے متعلق اس وقت نظرآتی ہیں ان کا دور دور تک نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ آج ذکر ولادت نبی اور سیرت نبی کے عنوان سے بڑے بڑے جلسے خاص اندازاور کچھ رسومات کے ساتھ منعقد کئے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، لذیذ اور عمدہ پکوان تیار کئے جاتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ اس تاریخ میں روزہ رکھنا ، مدارس و مکاتب میں چھٹی اور تعطیل کرنا، باہم ایک دوسرے کو اس دن دعوت کرنا، یہ سب بے اصل اور بے بنیاد چیزیں ہیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات سے ان سب کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح اس تاریخ کو عید میلاد النبی کے نام سے موسوم کرنا بھی اس دور کی ایک بڑی بدعت ہے جس کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام، تابعین اور سلف صالحین سے بالکل نہیں ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب عشق رسول کے تقاضے ہیں اور عشق رسول کا اظہار ہر مسلمان کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ اس کے ایمان کے مکمل ہونے کی دلیل ہے۔
لیکن عشق رسول اور محبت رسول کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ کچھ ایام خاص کر کے کچھ رسومات ادا کرلی جائیں اور لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ہنگامہ سا کردیا جائے بلکہ عشق رسول کا حقیقی تقاضا تو یہ ہے کہ مسلمان کی زندگی سیرت نبی کا عملی نمونہ بن جائے، مسلمانوں کی معاشرت اور طرز زندگی میں اسلامی انداز آجائے، لباس، انداز نشست و برخاست اور معاملات ہر ہر چیز پر اسلام کا رنگ غالب رہے۔ اگر ایسانہیں ہے تو ہم عشق رسول کے دعوی میں جھوٹے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ میلاد و سیرت کے جلسے، بظاہر ہیں بام سعادت کے زینے
یہ سچ ہے کہ نعت محمد کے موتی ،ہے ایماں کی انگشتری کے نگینے
مگر اے قصیدہ گرو یہ تو سوچو! ،کہ بے روح لفظوں کی قیمت ہی کیا ہے
بنے ہیں کہیں نقش آب رواں پر، چلے ہیں کہیں خشکیوں پر سفینے
اس ماہ کی مبارک بدعات سے بچنا چاہئے اور یایہا الذین آمنو ا ادخلوا فی السلم کافۃ یعنی اسلامی مزاج و مذاق کی پوری رعایت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہئے اسی وقت عشق رسول کا ہمارا دعویٰ سچا اور مبنی برحقیقت ہوگا ورنہ خشکی پر کشتی چلانے کے مترادف ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عشق رسول کی حقیقی دولت و نعمت سے سرفراز فرمائے آمین
یا ربِّ صل وسلم دائماً ابداً علی حبیبک خیر الخلق کلہم