تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی
*نام کتاب : احساسات* ( مجموعۂ کلام )
*نتیجۂ فکر : مولانا عبد الباسط معروفی قاسمی*
مولانا عبد الباسط طارق ؔمعروفی مشہور عالم ومحدث مولانا زین العابدین صاحب معروفی(م:اپریل 2013ء) کے صاحبزادے اورمیرے مخلص دوست اور رفیق درس ہیں،اس وقت ان کے اشعار کا مجموعہ’’احساسات ‘‘ میرے سامنے ہے جو ان کے دلی احساسات اور قلبی واردات کا ترجمان ہے۔یہ مناجات ، حمدونعت ،غزلیات، نظمیں ، مرثیے اور فی البدیہ قطعات پر مشتمل ہے۔مولانا موصوف باصلاحیت عالم ومدرس ، اعلیٰ درجے کے منتظم ، اورشعروادب اور اس کی مختلف اصناف پر گہری نظر رکھنے والے شاعر وادیب ہیں۔ قدیم وجدید مستند ومعروف شعراء کی کلیات ودواوین کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، سیکڑوں اشعار ان کی نوک زباں پر رہتے ہیں، ڈاکٹر کلیم عاجز وپروین شاکر کے کلام سے خاص مناسبت ہے۔شعرگوئی ان کی اخاذ طبیعت اور پاکیزہ فطرت کاحصہ ہے،جب طبیعت موزوں ہوتی ہے تو خیالا ت واحساسات خود بخود اشعار کے پیکر میں ڈھلنے لگتے ہیں۔
کتاب کا آغاز مولانا عبد الباسط معروفی کے پیش لفظ سےہوتا ہے، جس میں انھوں نے اپنی شعرگوئی کی داستان ، اس مجموعہ کی اشاعت میں تاخیر کی وجہ اور اپنی کچھ دوسری علمی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے والد گرامی کے تاثرات ہیں،پھر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تقریظ ہے ، مولانا رحمانی اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں :
*شاعری اور شعر گوئی کا مقصد اگر خرمن باطل کو جلانا، سونے والوں کو جگانا، کشت حیات کو سیراب کرنا اور حق بات کو خوبصورت پیرائے میں کہنا ہو تو پھر ایسی شاعری محمود و مطلوب ہے،زیر نظر کتاب اسی با مقصد شاعری کا ایک نمونہ ہے، عزیزمکرم مولانا عبدالباسط قاسمی سلمہ اللہ تعالی کے رشحات فکرہیں،انہوں نے مختلف موضوعات کو اشعار کے خوبصورت پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، کچھ نظمیں عام ہیں اور کچھ مخصوص مواقع کی مناسبت سے ہیں، کوچۂ شاعری میں قدم رکھنا اور فکر وخیال کو آوارہ گردی سے بچا کر با مقصد شاعری کرنا حسن تربیت کا غماز ہے، اور کیوں نہ ہو کہ شاعر موصوف کو حضرت مولانا زین العابدین اعظمیؒ جیسی عظیم مصلح ومربی کی پدرانہ شفقت وتربیت حاصل رہی ہے، دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے قلم سے نکلے ہوئے اصلاحی وانقلابی اشعار کو اصلاح وفلاح کا ذریعہ بنائے اور ان کے اعمال خیر کو ان کے والد کے حق میں ایصال ثواب کے طور پرقبول فرمائے۔*
کتاب کا مقدمہ استاذ العلماء مولانا فضل حق عارف ؔخیرآبادی کےقلم سے ہے، اس کے بعد مولانا خورشید انور الاعظمی صدر المدرسین جامعہ مظہرالعلوم بنارس اور رَاقم الحروف کے تاثرات ہیں ۔ بطورنمونہ چند اشعار پیش خدمت ہیں ؎
کہاں حمد وثنا کرنے کے قابل ہے زباں میری
غریقِ معصیت اب تک رہی عمرِ رواں میری
تری توفیق نے مجھ کو نئی پرواز بخشی ہے
خدا معلوم ٹھہرے گی کہاں طبع رواں میری
نہ چھوٹے ہاتھ سے امید کا دامن مرے طارقؔ
تنِ نازک سےجب نکلے یہ جانِ ناتواں میری
در حبیب پہ دل کا پیام کہہ دینا
جو ہو سکے تو ہمارا سلام کہہ دینا
بہت اداس گزرتی ہے زندگی اپنی
صبا! یہ ان سے بصد احترام کہہ دینا
ستایا جاتا ہے دنیا میں تیری نسبت پر
ستم رسیدوں میں میرا بھی نام کہہ دینا
کیوں تم نے پھیرلی ہے نظر بولتے نہیں
تنہا کٹے گا کیسے سفر بولتے نہیں
یہ اپنا ظرف اپنی طبیعت ہے ہم نفَس
احسان کرکے بارِ دگر بولتے نہیں
بس اک جھلک نے حسن کی دیوانہ کردیا
ہم ورنہ ان کو شمس و قمر بولتے نہیں
طارقؔ تمہاری آنکھ تو ہے مدتوں سے نم
سونا ہے کب سے دل کا نگر بولتے نہیں
نگاہیں جھکی ہیں پشیمانیاں ہیں
وہ دل ہار بیٹھے ستم آز ماکے
یہ حمد ، نعت اور غزل کے چند اشعار ہیں ، اس کے علاوہ مختلف مواقع پر کہی گئی پُراثر نظمیں اوردلدوز مرثیے ہیں ، جیسے ’’القدس کی فریاد ‘‘ اور مولانا قاری صدیق احمد باندوی ، مولانا نثار احمد بستوی، حافظ عبداللطیف معروفی اور اپنے والد ماجد کی وفات پر کہے گئے مرثیے ، اس میں ایک نظم ہے ’’ ارشادِ شیخ اور عرضِ شاعر ‘‘ جو انھوں نے استاذی مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ کو مخاطب کرکے ایک خاص پس منظر میں لکھی ہے، نظم زبردست ہے اور شاعر کی قادرالکلامی کا بہترین نمونہ! اس میں وہ اپنی شعر گوئی کے بارے میں لکھتےہیں ؎
بصد نیاز، بصد انکسار عرض ہے یہ
ہمارے شعر کا موسم ہے مثل فصل بہار
جو فصل گل کبھی آئے گی کہ لوں گا
خزاں کے دور میں مجھ سےنہ کیجئے اصرار
اس نظم میں انھوں نے بعض پیشنگوئیاں بھی کی تھیں جو بیس سال کے بعد حرف بہ حرف صادق آئیں ۔2001ء میں امریکہ کو مخاطب کرکے اس نظم میں کہا تھا ؎
غرور خاک میں تیرا ملا کے رکھ دیں گے
وہ دیکھ مسلم خوابیدہ ہوگئے بیدار
غرور فتح تمہیں شرمسار کر دے گا
اتر ہی جائے گا اک دن بلندیوں کا خمار
وہ جس کے ملک میں سورج نہ ڈوبتا تھا کبھی
یہیں پہ آئے تھے گردش میں اس کے لیل و نہار
’’احساسات‘‘ شاعرکے شعور واحساس کا لفظی پیرہن ہے ،آورد وتکلف سے پرےان کی مناجات وحمد اور نعت وغزل میں آپ روانی ،سلاست ،شگفتگی اور دلآویزی پائیں گے ،اوزان وقوافی کے قالب میں ڈھلے ان کے دلی جذبات آپ کے سامنے ہیں ،جو کہنے کو تو مختصرہیں لیکن زورداراور پُر اثر ہیں، پڑھیں اورلطف اٹھائیں۔
یہ مجموعہ 88/صفحات پر مشتمل ہے، سن اشاعت ستمبر 2022ہے۔ اسے مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد، مکتبہ الفہیم ومکتبہ نعیمیہ مئو وکتب خانہ نعیمیہ ومکتبہ اتحاد دیوبند اور مکتبہ رحمانیہ ومکتبہ یادگار شیخ سہارنپور سے طلب کیا جاسکتا ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
29؍صفر 1444ھ مطابق 27؍ستمبر2022ء منگل