مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی
علماء ، ائمہ، مسلم تنظیموں ، سرکردہ افراد اور سماجی کارکنان کے نام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
__برادران اسلام !
اس تحریر کے ذریعہ ایک بہت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں سے یہ روح فرسا خبریں مسلسل آ رہی ہیں کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کررہی ہیں، اور اپنا دین و ایمان اورضمیر وحیا بیچ کر اپنے خاندان اور اپنے سماج اور معاشرے پر بدنامی کا داغ لگارہی ہیں، اس طرح کے اکا دکاواقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں، لیکن ادھر چند برسوں سے باضابطہ پلاننگ کے تحت مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھنسایا جا رہاہے،اور آئے دن ان لڑکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،جو بے حیائی کے راستے پر بڑھتے ہوئے ارتداد تک پہونچ رہی ہیں،پچھلے دو سال میں صرف پونہ شہر میں تقریباً ستر مسلمان لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی اطلاع ملی ہے، دہلی، بھوپال ،دہرہ دون، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش کے اعداد و شمار ملا لیے جائیں تو یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے گی ، مہاراشٹر کے مختلف علاقوں (ممبئی ، پونہ،تھانہ،امراوتی،ناسک وغیرہ) میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دومہینوں میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواست دینے والی لڑکیوں کی تعداد ساٹھ سے متجاوز ہے۔ گذشتہ شعبان میں احمد آباد حاضری ہوئی تو وہاں کے علماء نے بتایا کہ ہمارے یہاں ہردوسرے تیسرے دن سوشل میڈیا پرخبر آتی ہے کہ فلاں مسلمان لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے یا فلاں لڑکی نے کورٹ میرج کی عرضی داخل کی ہے،بات یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ مستند ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو رجھانے ،قریب کرنے اور پھر ان کاجنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دیئے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائیل ،آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ایکٹیوا بائک وغیرہ،باضابطہ ان کی ’’فنڈنگ‘‘کی جا رہی ہے اور ایک سونچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں اس کام پر لگایا گیا ہے، اوپر بھی یہ بات میں نے لکھی ہے اور اب دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھناچاہتاہوں کہ یہ اتفاقی واقعات نہیں ہیں،بلکہ ان کے پیچھے ایک سونچا سمجھا منصوبہ کام کر رہاہے،’’لو جہاد ‘‘نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے،البتہ یہ’’شوشہ‘‘صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں ’’انتقامی جذبہ‘‘ ابھارا جائے اور خود مسلمانوں کو ’’لو جہاد‘‘میں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے ۔پہلے یہ بات ڈھکی چھپی رہی بھی ہو تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔(مزید تفصیلات کے لیے راقم الحروف کا تازہ تفصیلی مضمون ملاحظہ کیجئے۔)
اس صورت حال کے پیش نظرعلمائے کرام سے درخواست ہے کہ
وہ اس مسئلہ پر فوری توجہ دیں او ر اصلاح معاشرہ کے عنوان پر منعقد ہونے والے جلسوں، کانفرنسوں اور مجلسوں میں اس موضوع پر گفتگو کریں۔ ہر علاقے میں خواتین کے اصلاحی جلسے منعقد کر کے انہیں دین وایمان کی عظمت سمجھائیں، عقیدۂ توحید پر استقامت کی تلقین کریں، اولاد کی تربیت کے سلسلے میں فکر مندی دلائیں، اخبارات میں مضامین لکھیں، خاندانوں کے سرپرست حضرات کی میٹنگ منعقد کروائیں، اپنے علاقے کے اسکولس اور کالجس میں اس موضوع پر خطاب کریں، اسکولس اور کالجس کی چھٹیوں میں سمر کیمپ منعقد کرنے کااہتمام کریں۔
مساجد کے ائمہ کرام سے گذارش ہے کہ
وہ اپنی اپنی مساجد میں جمعہ کے خطبے میں اس موضوع پر اہمیت اور تیاری کے ساتھ گفتگو کریں، مساجد کے بلیک بورڈ پراسی سلسلے میں مختصر مضمون لکھیں،جن مساجد میں بلیک بورڈنہ ہو، اسی مضمون پر مشتمل کوئی پرچہ مساجد کی دیوار پر چسپاں کریں، ہر مسجد کی انتظامی کمیٹی کے زیر نظم ہفتہ واری خواتین کے اجتماع کاانعقاد کریں۔
مسلم تنظیموں او رجماعتوں سے عرض ہے کہ
وہ ا س اہم مسئلے کو اپنا ترجیحی ایجنڈا بنائیں،اوردوسرے اہم اور ضروری کاموں کے ساتھ اس ہنگامی اور اہم ترین مسئلے پر بھی توجہ مرکوز کریں، اپنے کارکنان کو ہر علاقے میں چوکنااور خبردار رہنے کی تلقین کریں، اپنے اپنے حلقہ اثر میں چند مخلص اور سمجھدار حضرات کو اس کام پر لگائیں کہ جن علاقوں میں مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواست دے چکی ہیں ان کے گھر والوں سے مل کر معاملے کوحل کرنے کی کوشش کریں۔ اصلاح معاشرہ کی تحریک کومضبوط اور زمینی سطح پر فعال بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔
سرکردہ افراداور سماجی کارکنان سے درخواست ہے کہ
وہ اس حساس مسئلے کو مسلمانوں میں سے غلط ذہنیت رکھنے والے افرادکے ہاتھ نہ لگنے دیں۔ عام مسلمانوں خاص طور پرنوجوانوں کو اشتعال ،لاقانونیت اورغلط طرزعمل سے بچانے کی پوری فکر کریں،سمجھ دار ، غیر متعصب اور صاف ذہن رکھنے والے غیرمسلم بھائیوں سے رابطہ کریں۔ انہیں اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کریں اور اس سلسلے میں ان کا تعاؤن حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
تمام ہی مسلمان بھائیوں سے التجا ہےکہ
یہ معاملہ بہت ہی حساس اور نازک ہے او ر مصلحتوں کے پیش نظر اس پر خاموشی اختیارکرنا جرم ہے۔لیکن اس ملک میں یہ گھناؤنا کھیل برابر جاری ہے کہ ہر معاملے کو ہند و مسلم معاملہ بنا دیاجاتاہے اور فرقہ واریت کے گرم توے پر سیاست کی کالی کالی روٹیاں سینکی جاتی ہیں۔اس لیے ہر قیمت پراس مسئلہ کوہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اپنے قلعے کو مضبوط بنائیں، اپنی بچیوں کوباکردار اور با حیا بنانے کی محنت کریں، اپنے معاشر ے میں کمزور ہوتی ہوئی اخلاقی قدروں کوسہارادیں، فرقہ پرست عناصرکے منصوبے کو حکمت، اعتدال، ہوشمندی اور پوری احتیاط کے ساتھ ناکام بنائیں۔ اشتعال انگیز تحریروں اور تقریروں سے پوری احتیاط برتیں، الفاظ ناپ تول کر استعمال کریں، ہاں ! یہ ضرور ہے کہ احتیاط اور مصلحت کے نام پر پاؤں توڑ کر نہ بیٹھ جائیں، ہمت کے ساتھ، اخلاص کے ساتھ اورﷲ تعالیٰ کی مدد پریقین کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں، اﷲ کی مدد آئے گی ،ضرور آئے گی اور بہت جلد آئے گی۔ اَ لَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب’‘
آپ کا بھائی
محمد عمرین محفوظ رحمانی