قرآن کریم میں کثرت سے بنی اسرائیل کا تذکرہ کیوں ہے؟

✍️: مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

اللہ کے فضل و کرم سے یہ عاجز 2002 سے مسلسل مجلس مذاکرہ میں تفسیر قرآن کریم کی خدمت انجام دے رہا ہے. درس قرآن کے بعد سامعین کی طرف سے کئی ایسے سوالات آتے ہیں؛ جن سے سائل کے ساتھ دیگر سامعین کا بھی بڑا فائدہ ہوتا ہے. اس ہفتہ کے درس قرآن کریم کومکمل سننے کے بعد تفسير قرآن کریم سے خاص لگاؤ رکھنے والے ہمارے دوست انجینئر عروج مرزا صاحب نے ایک خوبصورت سوال کیا. اس سوال کا تعلق اس امر سے تھا کہ قرآن کریم میں بنو اسرائیل کا کثرت سے تذکرہ آیا ہے . دیگر اقوام وملل کے بالمقابل بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآن کریم میں بہت زیادہ آیا ہے. اس کی حکمت کیا ہے؟
اس پس منظر میں اس عاجز نے یہ مناسب سمجھا کہ اس عنوان پر ایک مختصر تحریر مرتب کردی جائے تاکہ اس کا نفع عام ہو سکے؛ اس لیے کہ اس طرح کے سوالات عام طور پر دل و دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں.
"اسرائیل” اللہ کے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے ، حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پوتے، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والد ہیں..
اسرائیل” عبرانی زبان کا لفظ ہے، یہ ”اسرا“ اور”ایل“ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے، جس کا عربی ترجمہ "عبداللہ” اور اردو ترجمہ” اللہ کا بندہ ” ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو نسل حضرت یعقوب بن اسحاق علیہما السلام سے چلی وہ اسی وجہ سے "بنو اسرائیل” کہلاتی ہے۔
(مستفاد از قصص القرآن از مولانا حفظ الرحمن سیوہاری)
بندہ نے ان آیات کا جائزہ لیا، جن میں صراحتاً بنی اسرائیل کا تذکرہ آیا تو معلوم ہوا کہ وہ کل چالیس (40)آیات ہیں. دو آیات میں بطور نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کااسرائیل کے نام سے ذکر آیا ہے . اس کے علاوہ قوم موسی کے نام سے اور ان الذین ھادو ا کے عناوین سے بھی بنی اسرائیل کا تذکرہ کیا گیا ہے..
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے؛ جن میں سے ایک کا نام "یہودہ” تھا۔ "یہودی” کا لفظ اسی سے ماخوذ ہے۔ دراصل حضرت عیسی علیہ السلام تک جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سارے کے سارے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور حضرت یعقوب کا لقب تھا "اسرائیل”۔ تھا. یہی بنو اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد "یہودی” کہلائے.
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے بارہ قبیلے وجود میں آئے انھیں کو” بنی اسرائیل” اور انھیں کو” یہودی "کہا جاتا ہے ۔
قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو فضیلت سے نوازے جانے کا ذکر باربار آیا ہے۔ اس فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں نبوت کا وہ سلسلہ جو دو پیغمبروں (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام) سے شروع ہوا‘ چودہ سو (1400) سال تک بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے جاری رہا۔ اس دوران ان کے یہاں پے در پے نبی آئے اور نبوت کی ہر کڑی دوسری کڑیوں کے ساتھ یوں جڑتی چلی گئی کہ ایک مسلسل زنجیر بن گئی۔ پھر جس طرح اس زنجیر کا آغاز دو پیغمبروں سے ہوا تھا؛ اسی طرح اس کا اختتام بھی دو پیغمبروں یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ہوا۔
بہر حال جتنے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف آئے‘ دنیا میں کسی اور قوم کی طرف اتنے انبیاء نہیں آئے۔ اقوامِ عالم پر بنی اسرائیل کی یہ فضیلت آج بھی قائم ہے۔
بنی اسرائیل جب بھی دین کے معاملے میں انحراف کا شکار ہوئے؛ اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے اپنے پیغمبر بھیجے۔ چنانچہ حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت دانیال، حضرت عزیر، حضرت یحیی، حضرت زکریا علیہم السلام سب بنی اسرائیل ہی کے نبی تھے اور یہودی ان سب انبیاء کو مانتے ہیں.
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ قرآن مجید میں بنو اسرائیل کا کثرت سے تذکرہ آیا ہے، اس کی وجہ کیا ہے.؟ اس کے متعدد اسباب ہیں…
(1) اول یہ کہ مدینہ منورہ میں ان کی بڑی آبادی تھی ان کے تین قبیلوں بنی قینقاع، بنو نضیر اور بنی قریضہ اور خیبر کے یہودیوں کا جزیرہ العرب میں بڑادبدبہ تھا.. اس طور پر من حیث القوم وہ لوگ بھی مشرکین عرب کی طرح قرآن کریم اولین مخاطب تھے، فرق یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں خطاب مشرکین سے تھا. جب کہ مدنی زندگی میں مخاطب اہل کتاب تھے . جس طرح مکی سورتوں میں مشرکین کا کثرت سے تذکرہ ہے؛ اسی طرح مدنی سورتوں میں بنو اسرائیل کو کثرت سے مخاطب بنایا گیا…
(2) بنو اسرائیل کے کثرت تذکرہ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہی وہ قوم تھی جو ایک زمانے میں "خیر امت” تھی، اللہ تعالیٰ ان اعمال خیر اور ان استقامت اور اخلاص سے اتنا خوش ہوا کہ ان پر آسمان سے ” من وسلوی” بھی نازل کیا، ان کو نجات دینے کے لیے فرعون جیسی دنیاوی سپر پاور کو بحر قلزم میں دفن کردیا، ان کی سہولت کے لیے پتھر سے چشمے جاری کیے. انھیں دھوپ کی تپش اور سورج کی تمازت سے بچانے کے لیے غمام اور بادل کو بطور سایہ و سائبان مقرر فرما دیا.
لیکن جب انھوں نے اللہ کے احکام کو نہیں مانا، اللہ کے نبیوں کی نافرمانی، انبیاء کی بے توقیری اور اہانت کی تو ان مجرموں کو بندر اور خنزیر بناکر انھیں نشان عبرت بنادیا. بعد کے زمانے میں انھیں پٹوانے کے لیے بخت نصر جیسے ظالم وجابر کو مسلط کردیا جس نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا کر یہودیوں کا بے تحاشا قتل کیاا وربدترین غارت گری مچائی، تاریخ کے زیادہ تر مراحل میں ذلت ورسوائی ان پر مسلط رہی ….. گویا اور اقوام کے مقابلے میں بنواسرائیل میں زیادہ عبرت کا سامان ہے،مثبت ومنفی دونوں صفات بدرجہ اتم ان میں موجود ہیں.
(3) ایک سبب یہ بھی ہے کہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مشرکین کی نظر میں بھی ان کی بڑی اہمیت تھی، کئی معاملات میں مشرکین مکہ اہل کتاب کو اتھارٹی اور سند سمجھتے تھے؛ اس لیے بھی ان کے احوال کو کثرت سے ذکر کیا گیا…
(4) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر اہل ایمان کے لیے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے احوال حوصلہ بخش تھے اس لیے بھی ان کا خاص طور پر باربار تذکرہ کیا گیا…
(5) ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عیسی علیہ السلام بھی نسبی طور پر بنو اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں… لہٰذا بنی اسرائیل کو مخاطب بنانا گویا زیادہ تر اہل کتاب کو مخاطب بنانا ہے.
(6) ایک سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپناکلام عطا فرمایا، انہیں اپنے واضح بینہ اور معجزات دکھائے ان سے نبی آخر الزماں کی تصدیق اور ان پر ایمان لائے کا عہد لیا گیا؛ لیکن ان سب کےباوجود انہوں نے حضرت محمدﷺ کی تکذیب کی. حالانکہ وہ آپ کو اسی طرح پہچانتےتھے‘ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے‘ لہذا قرآن مجید انہین زجر وتوبیخ کرتا ہے کہ انہوں نے علم کے باوجود عمل کیوں نہیں کیا اور حق کو پہچاننے کےباوجود اسے قبول کیوں نہ کیا؟! .. اور اسی وجہ سے ان پر اللہ کا غیظ و غضب نازل ہوا.. انھیں مغضوب علیہم بنادیا.. اوران پر ذلت و رسوائی مسلط کر دی..
بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمارے لیے اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جب دین کی طرف سے پیٹھ پھر کر‘ دنیا میں منہمک ہو گئے‘ عیاشیوں میں پڑ گئے اور آخرت کو بھول گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضیلت کی حامل اس قوم سے ان کے تمغۂ امتیاز کو واپس لے لیا گیا اور اس کے جگہ ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی گئی: {وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ } اس فیصلے کا اعلان قرآن میں دو مرتبہ( البقرۃ : ۶۱ اور آلِ عمران :۱۱۲) کیا گیا۔چنانچہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں آج ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل اور احسان فرمایا کہ ہمیں اس نے اپنے آخری رسولﷺ کی اُمت بنایا. ہمیں "خیر امت” ہونے کا تمغہ دیا گیا. ہمیں اپنی آخری کتاب قرآن کریم سے نوازا۔ مگر ہم بھی خیر امت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئے، جب ہم نے دین کی طرف سے پیٹھ پھیر لی اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا‘ بچھونا بنا لیا، تو ہمارے حصے میں بھی ویسی ہی ذلت و مسکنت آئی۔ چنانچہ آج دنیا میں تقریباً دو سو کروڑ مسلمان ہیں مگر اقوامِ عالم کے درمیان ان کی حیثیت یہ ہے کہ ؏ ’’کس نمی پر سد کہ بھیا! کیستی؟‘‘ آج بین الاقوامی معاملات کے بارے میں کسی بھی فورم پر مسلم ممالک کی رائے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی۔ بلکہ اب تو مسلمانوں کے اپنے معاملات کی باگ ڈوربھی غیروں کے ہاتھوں میں ہے… قرآن کریم نے کثرت سے بنو اسرائیل کا تذکرہ کرکے ہمیں ان کے عبرتناک انجام سے ڈرایا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ اگر تم بھی ان کے نقش قدم پر چلوگے تو تمہارا بھی انجام انھیں کی طرح ہوگا.
واللہ اعلم بالصواب.
بندہ خالد نیموی قاسمی
صدر جمعیت علماء بیگوسرائے

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے