دارالعلوم دیوبند: دینی تعلیمی تحریک کا بین الاقوامی مرکز
مولانا مفتی محمد اللہ قاسمی
برصغیر ہند میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے اپنے سیاسی مصالح کے پیش نظر اسلامی علوم و فنون کی قدیم درسگاہوں کو یکسر ختم کردیا تھا ۔علماء و اہل علم کی بڑی تعداد کو تہہ تیغ کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے مدارس کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ ہندوستان میں مسلم سلطنتوں کے زمانے میں مدارس کا نظام عموماً اوقاف کی آمدنیوں یا مسلم حکمرانوں، نوابوں اور امراء و روٴساء کی سرپرستی میں چلتا تھا۔ مسلم حکومت اور مسلم حکمرانوں کے جانے کے بعد برطانوی تسلط کے زمانے میں شدید ضرورت تھی کہ نہ صرف اسلامی علوم و فنون اور اسلامی تہذیب کی بقا کے لئے بلکہ مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے ایک دینی و تعلیمی تحریک شروع کی جائے جو مسلمانوں کو الحاد و بے دینی کے فتنہ عظیم سے محفوظ رکھ سکے۔ غیور اور باہمت علماء نے اس عظیم ضرورت کا بروقت ادراک کیا اور اسی کے نتیجہ میں دارالعلوم دیوبندکا قیام عمل میں آیا۔ بہت ہی قلیل مدت میں دارالعلوم کی شہرت بامِ عروج کو پہنچ گئی اور بہت جلد دارالعلوم نہ صرف ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش بلکہ افغانستان، وسط ایشیا، انڈونیشیا، ملیشیا، برما، تبت، سیلون اور مشرقی و جنوبی افریقہ، یورپ ، امریکہ و آسٹریلیا کے ممالک کے مسلمانوں کے لیے ایک بین الاقوامی دینی تعلیم کی تحریک کا مرکز بن گیا۔
دارالعلوم دیوبند صرف ایک دینی تعلیم کا مدرسہ نہیں تھا،بلکہ وہ ایک دینی و تعلیمی تحریک تھی۔ اس تحریک کے بنیادی عناصر ’اصول ہشت گانہ‘ میں وضع کیے گئے جن سے آئندہ ہندوستان میں مضبوط و مستحکم دینی تعلیمی نظام کی بنیاد پڑی۔ پہلا بنیادی اصول یہ تھاکہ مدارس کو حکومت و امراء کی سرپرستی سے نکال کر اسے جمہور اور عوام سے جوڑا گیا ۔ عوام کے چندوں سے چلنے والے اس نظام میں استحکام بھی تھا اور سماج کے ہر طبقہ سے بھر پور ربط،جس کی وجہ سے تعلیم سماج کے ہر حلقہ میں پہنچنے لگی۔ دوسرا بنیادی اصول یہ تھا کہ مدارس کا نظام شورائی بنیادوں پر قائم ہو تاکہ اس کی کارکردگی زیادہ بہتر ہواور اس کے نظام میں شفافیت ہو۔ گویا ہندوستان میں جمہوری سیاسی نظام شروع ہونے سے پون صدی قبل ہی دارالعلوم نے جمہوری اداروں کی بنیاد رکھ دی تھی۔
دارالعلوم دیوبند نے نصاب بھی ایسا مرتب کیا جو حالات زمانہ سے بالکل ہم آہنگ تھا اور اسلامی ہند کے تمام نظامہائے تعلیم کی خوبیوں کا جامع تھا۔ دارالعلوم نے ولی اللہی نصاب سے قرآن و حدیث، فرنگی محل کے نصاب سے فقہ اور خیرآباد کے نصاب سے معقولات کو لے کر ایسا جامع و حسین گلدستہ تیار کیا کہ جس کی دل آویز خوشبو کی کشش سے دیوبند میں ہند و بیرون ہند کے طالبان علوم اسلامیہ کا جمگھٹا لگ گیا۔
دارالعلوم کے طرز پر مدارس کا قیام
ہندوستان میں مدارس کا سابقہ نظام تیرہویں ہجری تک تقریباً ختم ہوچکا تھا، کہیں کہیں مقامی حیثیت کے حامل کچھ خزاں رسیدہ مدارس کا وجود برائے نام باقی تھا جن میں علوم معقولہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حدیث و تفسیر وغیرہ کی تعلیم کا بہت ہی کم رواج تھا، اس کے برعکس دارالعلوم کا قیام ولی اللّٰہی طرزِ فکر پر عمل میں آیا تھا، اس لئے یہاں علوم معقولہ کے بجائے زیادہ اہمیت علوم منقولہ تفسیر و حدیث اور فقہ کو دی گئی ۔ دارالعلوم کے قیام کے بعد بر صغیر میں جتنے بھی دینی مدارس جاری ہوئے ان میں بھی کم و بیش دارالعلوم کے اسی طریقہ کو پسند کیا گیا۔ قیام دارالعلوم کے چھ ماہ بعد رجب ۱۲۸۳ھ (نومبر۱۸۶۶ء) میں سہارنپور میں مدرسہ مظاہر علوم جاری ہوا تو اس میں بھی وہی نصاب جاری کیا گیا جو دارالعلوم میں جاری تھا، پھر رفتہ رفتہ دارالعلوم کے نقش قدم پر مختلف مقامات میں دینی مدارس جاری ہوگئے۔ ۱۲۸۵ھ/ ۱۸۶۶ء کی روداد میں تحریر ہے: ”ہم نہایت خوشی ظاہر کرتے اس امر پر کہ اکثر حضرات باہمت نے اجراء مدارس عربی کو توسیع دینے میں کوشش کرکے مدارس بمقامات مختلفہ دہلی، میرٹھ، خورجہ، بلند شہر و سہارنپور وغیرہ میں جاری فرمائے اور دوسری جگہ مثل علی گڑھ وغیرہ اس کار کی تجویزیں ہورہی ہیں“۔ (روداد: ص۷۰،۱۲۸۵ھ)
دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر اس وقت جومدارس جاری ہوئے دارالعلوم کی رودادوں میں تفصیل سے اس کے حالات لکھے گئے ہیں، ۱۲۹۷ھ/ ۱۸۸۰ء کی روداد میں تحریر ہے: ”ہم کمال خوشی سے یہ بات ظاہر کرتے ہیں اور منعم حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس سال میرٹھ، گلاوٴٹھی، دان پور میں مدارس اسلامی جدید جاری ہوئے اور ان کا تعلق کم و بیش اس مدرسہ (دارالعلوم دیوبند) سے ہوا اور ان مقامات کے باشندوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور خدائے عز وجل کی جناب میں دعا کرتے ہیں کہ ان مدارس کو قیام ہو اور روز بروز ترقی پکڑیں اور بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کے مسلمانوں کو اس کارِ خیر کی تقلید کی توفیق ہو، اے خدا پاک! وہ دن دکھلا کہ کوئی بستی اس دولت پائیدار سے خالی نہ رہے اور ہر گلی کوچے میں علم کا چرچہ ہو او رجہل عالم سے کافور ہو، آمین!“۔ (روداد ۱۲۹۷ھ: ص۶۳-۶۱)
مشہور شہر میرٹھ میں حضرت نانوتوی نے اپنے آخری زمانہٴ قیام میرٹھ میں ایک اسلامی مدرسہ قائم کیا تھا، یہ مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی شاخ تھا، اس کے اولین اساتذہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل فضلا ء تھے۔ مفتی عزیزالرحمن دیوبند اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی جو علی الترتیب بعد میں دارالعلوم کے مفتیٴ اعظم اور مہتمم ہوئے، اس مدرسہ کے مسند درس کو زینت دیتے رہے، مولانا قاضی زین العابدین سجاد اور مولانا سراج احمد میرٹھی جیسی مقتدر ہستیاں اس مدرسہ کے اولین طلبہ میں شامل تھے۔
مرادآباد مدرسہ کے قیام کے بارے میں ۱۲۹۷ھ کی روداد میں لکھا ہوا ہے: ”مرادآباد ایک مشہور و معروف شہر ہے وہاں کے غریب مسلمانوں نے حسب ایماء حضرت نانوتوی عرصہ دو تین سال سے ایک مدرسہ اسلامی جاری کیا، اگرچہ اوائل میں یہ کارخانہ مختصر تھامگر ماشاء اللہ یہ مدرسہ اچھے عروج پر ہے اور یوماً فیوماً امید ترقی ہے۔ واقعی اس مدرسہ کے جملہ کارپردازان نہایت زیرک اور امانت دار و دیانت دار ہیں، خداوند تعالیٰ ان کی سعی میں برکت عطا فرمائے اور اس کارخانہ کو قائم رکھے۔ اور زیادہ تر ترقی بخشے۔ آمین۔(روداد ۱۲۹۷ھ: ص۶۳-۶۱)
مرادآباد کا یہ مدرسہ جامعہ قاسمیہ کے نام مرادآباد کی شاہی مسجد میں قائم ہے ۔ دارالعلوم کے ابتدائی دور میں جو مدارس جاری ہوئے ان میں مظاہر علوم سہارن پور کے بعد جامعہ قاسمیہ نے سب سے زیادہ ترقی کی۔مشہور علمائے کرام کی کوششوں کے باعث اس مدرسہ کوبڑی شہرت حاصل رہی اور یہاں سے پڑھ کر مشہور علماء پیدا ہوئے۔
برصغیر ہند میں اسلامی مدارس کا جال
اس موقع پر یہ بات یاد رہے کہ آج مدارس کا قیام کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا مگر ڈیڑھ سو سال پہلے کا خیال کیا جائے جب اس طرح کے مدارس کا رواج نہیں تھا، اور لوگ قیامِ مدارس کے طریقے اور ان کی ضرورت سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ ان حالات میں حکومت کی امداد و اعانت کے بغیر صرف مسلمانوں کے چندہ کے بھروسے پر دینی مدارس جاری کرنا ایک زبردست کام تھا۔دارالعلوم دیوبند کا علمی فیضان محض عالم بنادینے تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ اس کے ہمہ گیر افراد سے ایسا ماحول بھی پیدا ہوگیا جس سے جابجا دینی مدارس قائم ہوتے چلے گئے، دارالعلوم کے قیام کے بعد ملک میں جس کثرت سے دینی مدارس قائم ہوئے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس وقت مسلمانوں میں دینی مدارس قائم کرنے کا شدید جذبہ موجود تھا؛ لیکن اجراء مدارس کے قدیم وسائل چوں کہ یکسر ختم ہوچکے تھے اس لیے ہمتیں پست ہوگئیں تھیں، مگر جب دارالعلوم دیوبند نے پہل کی تو مسلمانوں کے سامنے ایک نئی شاہ راہ کھل گئی اسی کے ساتھ بعض مدارس کے منتظمین نے دارالعلوم کی حیثیت کو مرکزی قرار دے کر مناسب سمجھا کہ اپنے اپنے مدرسوں کو دارالعلوم دیوبند کے زیر اثر ایک سلسلے میں منسلک کردیں۔
اس وقت سے لے کر اب تک برصغیر کے طول و عرض میں بحمداللہ بے شمار دینی مدارس جاری ہوچکے ہیں، اور روز بروز ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حتی کہ جو مدرسے دارالعلوم کے مزاج و مذاق سے ہٹے ہوئے ہیں یا دارالعلوم کے نصاب تعلیم کی اتباع نہیں کرتے ہیں ان کا نظام بھی دارالعلوم کے وضع کردہ بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج برصغیر میں جس قدر بھی دینی مدارس نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر وہی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر یا اس کے قائم کردہ اثرات سے جاری ہوئے ہیں؛ اس طرح دارالعلوم دیوبند کا وجود اسلام کی جدید تاریخ میں ایک عہد آفریں حیثیت رکھتا ہے، اور یہیں سے اس وقت پورے برصغیر میں دینی تعلیم گاہوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔دارالعلوم کے مزاج و منہاج پر اس وقت پورے ہندوستان کے طول و عرض میں بلاشبہہ ہزاروں مدارس قائم ہیں جن میں بہت سے مدرسوں کا دارالعلوم سے باقاعدہ الحاق بھی ہے۔ ہندوستان کے جملہ مدارس کو باہم مربوط کرنے کے لئے رابطہ مدارس عربیہ دارالعلوم دیوبند کا مرکزی دفتر سرگرم عمل ہے جس سے اس وقت ڈھائی ہزار سے زائد مدارس عربیہ مربوط ہوچکے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے ملک کے دینی مدارس کا یہ ارتباط جماعت دیوبند کی شیرازہ بندی ، علمی تنظیم، فکری اتحاد اور یگانگتِ باہمی کا ایک مفید اور موٴثر ذریعہ ہے۔
ہندوستان میں موجود مدارس کا کوئی حتمی اعدا و شمار موجود نہیں تاہم چھوٹے بڑے مدارس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد ہے۔ یہ تعداد ان لاکھوں مکاتب کے علاوہ ہے جو تقریباً ہر مسجد اور مسلم محلہ میں قائم ہوتے ہیں۔
ہندوستان کے علاوہ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے چپے چپے میں بھی اسی نہج پر ہزاروں مدرسے قائم ہیں جن کے بڑے مدرسوں میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان مدارس میں جن میں دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوریہ کراچی، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ کھٹک، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ فاروقیہ کراچی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پاکستان میں وفاق المدارس کے تحت دس ہزار کے قریب مدراس کا متحدہ پلیٹ فارم بھی قائم ہے جن میں اکثریت دیوبندی مدارس کی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی دینی مدارس ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جن میں دارالعلوم ہاٹ ہزاری سب سے زیادہ قدیم ہے۔ اس کے علاوہ چٹاگانک، دھاکہ، سلہٹ وغیرہ میں متعدد بڑے مدارس موجود ہیں۔
بیرون ممالک میں دارالعلوم کے طرز پر مدارس کا قیام
دارالعلوم کے قیام کے بعد ہی مکہ مکرمہ میں مشہور عالم دین حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مدرسہ صولتیہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ ۱۵ شعبان ۱۲۹۰ھ کو دارالعلوم کے ہی خطوط پر قائم کیا گیا تھا۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں ہی ایک دوسرا مدرسہ مولانا اسحاق امرتسری نے قائم کیا جو دارالعلوم کے فیض یافتہ تھے۔ مدینہ منورہ میں حضرت مولانا سید احمد فیض آبادی ( خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیو برادر اکبر حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ) نے ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء میں مدرسہ علوم شرعیہ قائم فرمایا۔ یہ مدرسہ اہل مدینہ کے بہت بافیض ثابت ہوا اور مدتوں تک ان مدرسہ کا شمار وہاں کے بڑے مدرسوں میں ہوتا تھا۔ مدرسہ صولتیہ اور مدرسہ شرعیہ کی پرانی عمارتیں حرم مکی اور حرم مدنی کے بہت قریب تھیں ، لیکن اب وہ حرم کی توسیع کے بعد حرمین شریفین کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ دونوں مدرسے اس وقت تک قائم ہیں۔
ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ برصغیر کے قریب دیگر ملکوں جیسے مشرق میں برما، شمال میں نیپال، مغرب میں افغانستان و ایران اور جنوب میں سری لنکاوغیرہ میں بھی کافی مدارس دارالعلوم کے طرز پر قائم ہیں۔ ان مدارس سے ہزاروں علماء ہر سال فارغ ہوکر معاشرہ میں علم کی روشنی پھیلاتے ہیں۔
براعظم افریقہ کے جنوبی ملکوں خصوصاً ساؤتھ افریقہ میں دارالعلوم کے طرز کے سیکڑوں چھوٹے بڑے مدارس قائم ہیں، جہاں پورے افریقہ، یورپ اور امریکہ تک کے طلبہ داخل رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ساؤتھ افریقہ کے ان مدارس میں دارالعلوم زکریا جوہانسبرگ، مدرسہ انعامیہ کیمپر ڈاوٴن، دارالعلوم آزاد ویل، دارالعلوم نیو کیسل، دارالعلوم ابو بکر پورٹ ایلزبتھ، جامعہ محمودیہ اسپرنگس، دارالعلوم العربیة الاسلامیة کیپ ٹاوٴن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح بر اعظم یورپ میں خصوصاً برطانیہ میں متعدد بڑے دارالعلوم اور مدارس قائم ہیں جہاں دارالعلوم کے طرز پر دینی تعلیم کا بہترین نظم موجود ہے۔برطانیہ کے بڑے دینی مدارس میں دارالعلوم بری، دارالعلوم لندن، دارالعلوم برمنگھم، دارالعلوم لیسٹر ، دارالعلوم بولٹن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
بحر انٹلانٹک کے اس پار امریکہ ، کناڈا اور ویسٹ انڈیز میں بھی دارالعلوم قائم ہوچکے ہیں اور دارالعلوم کے نہج پر علوم دینیہ کی تدریس و اشاعت میں مشغول ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں دارالعلوم نیو یارک، دارالعلوم المدنیہ بفیلو، دارالعلوم ٹورنٹو، دارالعلوم شکاگو، اسی طرح کناڈامیں دارالعلوم اونٹاریووغیرہ قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف مشرق میں آسٹریلیا،فیجی، نیوزی لینڈوغیرہ میں بھی الحمد للہ دارالعلوم دیوبند کے نہج پر مدارس قائم ہیں۔
اس طرح مطلع دیوبند سے پھوٹنے والی یہ علم کی یہ روشنی اس وقت الحمد للہ پورے عالم کو روشن کیے ہوئے ہے۔ ان مدارس سے استفادہ کرنے والے علماء و فضلاء پوری دنیا میں دینی علوم کی تدریس وتصنیف، دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت میں مشغول ہیں۔ قدیم روایت کے ان مدارس دینیہ نے اسلامی علوم کی حفاظت و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سلف صالحین کے نہج پر دینی علوم کی تعلیم کا یہ نظام اپنے اندر بہت ساری برکتیں رکھتا ہے جس سے دوسرے نظام خالی نظر آتے ہیں۔
مدارسِ دینیہ سے برصغیر کے مسلمانوں کو کیا نفع پہنچا اس سلسلے میں علامہ اقبال کے مشہور تاثر جو انھیں کے ایک عقیدت مند حکیم احمد شجاع سے منقول ہے مدارس اسلامیہ کو ایک اچھا خراج عقیدت ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: ”ان مدارس کو اس حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدرسوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا اسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سوبرس حکومت کے باوجود ہوا، آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈر اور الحمراکے نشانات کے سوا اسلام کے پیروٴں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا“۔ (خون بہا، از حکیم احمد شجاع حصہ اول: ص۴۳۹)