حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا انتقال

انتہائ افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ دارالعلوم وقف دیوبند کے مایہ ناز استاذ ادیب باکمال سید ازہر شاہ قیصر کے صاحبزادہ ، علامہ انور شاہ کشمیری کے پوتے، میرے استاذ محترم حضرت مولانا محمد نسیم اختر شاہ قیصر دار بقا کی طرف رحلت فرما گئے

انا للہ وانا الیہ راجعون

سید نسیم اختر شاہ قیصر کشمیری (پیدائش: 1960ء وفات: 2022) ایک ہندوستانی دیوبندی مضمون نگار، کالم نگار، خاکہ نگار، نقاد، خطیب، مصنف اور عالم ہیں۔ نیز دار العلوم وقف دیوبند کے استاذِ تفسیر ہیں

ولادت و خاندان

ان کی پیدائش 21 ربیع الاول 1382ھ بہ مطابق 25 اگست 1962ء کو دیوبند میں ہوئی، ان کے والد علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری کے فرزندِ اکبر سید محمد ازہر شاہ قیصر تھے اور ان کے چچا سید محمد انظر شاہ مسعودی تھے اور ان کے چچا زاد بھائی جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے موجودہ مہتمم اور دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث سید محمد خضر احمد شاہ مسعودی دامت برکاتہ ہیں..

تعلیم و فراغت

انھوں نے تعلیم کی ابتدا دار العلوم دیوبند سے کی، ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے اسلامیہ ہائی اسکول،دیوبند میں داخلہ لے لیا اور دسویں کا امتحان دیے بغیر 1976ء میں دوبارہ دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر 1981ء (بہ مطابق 1401ھ) میں درس نظامی کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے،
انھوں نے صحیح بخاری؛ مولانا نصیر احمد خان بلند شہری سے پڑھی، اسکولی تعلیم کے دوران میں 1973ء سے 1975ء تک انھوں نے ادیب، ادیبِ ماہر اور ادیبِ کامل کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ دینیات سے 1976ء سے 1978ء تک عالمِ دینیات، ماہرِ دینیات اور فاضلِ دینیات کی سند حاصل کی۔ پھر 1989ء – 1990ء کے دوران میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ (آگرہ یونیورسٹی) سے ایم اے اردو کیا،

تدریس

1987ء کو انھوں نے دار العلوم وقف دیوبند میں ملازمت اختیار کی اور 1989ء سے تاحال وہیں پر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں،

مضمون نگاری
ان کی مضمون نگاری کی ابتدا جنوری 1973ء میں تقریباً 13 سال کی عمر سے ہو چکی تھی، 1979ء سے 1985ء تک پندرہ روزہ اشاعت حق، دیوبند کے نائب مدیر اور 1985ء سے 1996ء تک اس کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ 1983ء میں اپنے والد سید محمد ازہر شاہ قیصر کی سرپرستی میں ماہنامہ طیب، دیوبند کے سب ایڈیٹر (معاون مدیر) ہوئے؛ بالآخر 1987ء میں جب ماہنامہ طیب بند ہونے لگا تو اپنے سابقہ پندرہ روزہ اشاعت پر توجہ دی، وہ بھی 1983ء میں بند ہو گیا، ایک عرصے تک ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے۔ اس کے علاوہ تقریباً چالیس سال سے ملک بھر کے پچاسوں ماہانہ، پندرہ روزہ اور ہفت روزہ رسائل و جرائد اور روزناموں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں، ان رسائل و جرائد میں ماہنامہ ندائے دار العلوم دیوبند، ماہنامہ طیب دیوبند، ماہنامہ محدث عصر دیوبند، ماہنامہ ترجمان دیوبند، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہنامہ اتباع سنت دیوبند، ماہنامہ اذان بلال آگرہ، ماہنامہ رگ سنگ کانپور، ماہنامہ صدائے حق گنگوہ، ماہنامہ حسن تدبیر دہلی، ماہنامہ الرشید ساہیوال پاکستان،
ماہنامہ النصیحہ چارسدہ پاکستان اور ماہنامہ المرشد چکوال پاکستان شامل ہیں،
پندرہ روزہ رسائل میں پندرہ روزہ دیوبند ٹائمز دیوبند، پندرہ روزہ یثرب دیوبند، پندرہ روزہ اشاعت حق دیوبند اور پندرہ روزہ فکر انقلاب دہلی شامل ہیں،
ہفت روزہ رسائل میں ہفت روزہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی، ہفت روزہ نئی دنیا دہلی، ہفت روزہ قومی آواز دہلی، ہفت روزہ ہمارا فیصلہ دہلی، ہفت روزہ چوتھی دنیا دہلی اور ہفت روزہ عقائد، سہارنپور شامل ہیں، اور روزناموں میں قومی آواز دہلی، عوام دہلی، مشرقی آواز دہلی، راشٹریہ سہارا دہلی، صحافت دہلی، ہمارا سماج دہلی اور انقلاب میرٹھ شامل ہیں،

کالم نگاری

روزنامہ ہندوستان ایکسپریس، دہلی میں مسلسل تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج، دہلی میں تقریباً دو سال تک کالم نگار رہے،

خاکہ نگاری

شاہ قیصر ایک خاکہ نگار بھی ہیں، ان کے قلم سے عالم اسلام کی گزشتہ و موجودہ کم و بیش سو لوگوں کے خاکوں پر مشتمل کتابیں آ چکی ہیں، جو تصانیف کے عنوان کے تحت درج ہیں۔

ان کی خاکہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو و عربی زبان کے مشہور ادیب و انشا پرداز پروفیسر محسن عثمانی ندوی رقم طراز ہیں

”بیسویں صدی کے نصف آخر میں بہت سے اچھے نمونے اور مجموعے خاکہ نگاری کے سامنے آئے ہیں، انھیں اچھی کتابوں میں نسیم اختر شاہ قیصر کی خاکہ نگاری کے نمونوں کو بھی رکھا جاسکتا ہے، اس سے پہلے مصنف کتاب کے دوسرے مجموعے ”میرے عہد کے لوگ“ اور ”جانے پہچانے لوگ“ شائع ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں، ہر مضمون نظر کو خیرہ کرتا ہے؛ لیکن اس میں جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری نہیں ہے، مصنف کا انداز بیان ہر جگہ شاداب اور نو دمیدہ گلاب کی طرح شگفتہ ہے، کہیں کہیں بعض جملے اتنے اچھے ملتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ نسیمِ سحر کا تازہ جھونکا آگیا، اور کبھی کبھی لگا تار عبارتیں ایسی حسین ملتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ شہابِ ثاقب کی بارش ہورہی ہے، جو شخص بھی ان کی تحریر کا مطالعہ کرے گا محسوس کرے گا کہ اس تعریف و توصیف میں سچائی ہے۔“

ریڈیائی نشریات

آل انڈیا ریڈیو دہلی کی اردو مجلس اور اردو سروس سے کافی ریڈیائی نشریات ہوئیں، حرفِ تابندہ اور خطبات شاہی نامی دو کتابیں؛ ان کی ریڈیائی تقاریر ہی کا مَظہَر ہیں،

مرکز نوائے قلم و شعبۂ صحافت دار العلوم وقف

انھوں نے دیوبند میں زیر تعلیم طلبہ و مقامی افراد کی تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انھیں صیقل کرنے کے لیے دیوبند ہی میں ’’مرکز نوائے قلم‘‘ کے نام سے ایک مرکز بھی قائم کیا، جہاں سے تربیت لے کر بہت سے طلبہ میدان صحافت میں اتر چکے ہیں، دار العلوم وقف دیوبند نے شعبۂ صحافت قائم کیا تو انھیں ہی اس کا ذمے دار بنایا گیا،

تصانیف

ان کی بائیس (22) کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں-

حرفِ تابندہ
خطبات شاہی
مقبول تقریری
سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، واقعات کے آئینے میں
میرے عہد کے لوگ
جانے پہچانے لوگ
خوشبو جیسے لوگ
اپنے لوگ
کیا ہوئے یہ لوگ
میرے عہد کا دار العلوم
دو گوہرِ آب دار
امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری: زندگی کے چند روشن اوراق
رئیس القلم مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر – زندگی کے چند روشن اوراق
فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ مسعودی – زندگی کے چند روشن اوراق
جانشینِ امام العصر
شیخ انظر: تاثرات و مشاہدات
اکابر کا اختصاصی پہلو
وہ قومیں جن پر عذاب آیا
اسلام اور ہمارے اعمال
اعمال صالحہ
اسلامی زندگی
اوراق شناسی

Source: WhatsApp

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے