سلسلہ تعارف کتب (70): دارالمصنفین کی عربی خدمات

تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی

*نام کتاب:دارالمصنفین کی عربی خدمات*

*مصنف:مولانا ڈاکٹر محمد عارف عمری*

کتاب کے نام سے اس کا موضوع ظاہر ہے ۔ یہ مولانا ڈاکٹر محمد عارف عمری کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ، جس پر لکھنؤ یونیورسٹی نے ان کو سن 2002 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی ہے ۔

دارالمصنفین اعظم گڑھ برصغیر کا وہ ممتاز علمی وتحقیقی ادارہ ہے جس نے اپنے سو سالہ قیام کے دوران علم وفن کی وہ بے نظیر خدمت کی ہے جس کی مثال کوئی دوسرا ادارہ شاید ہی پیش کرسکے ۔ سلسلہ سیرۃ النبی ﷺ، سلسلہ سیر الصحابہ والتابعین ، سلسلہ تاریخ اسلام وتاریخ ہند، تذکرہ وسوانح ، فلسفہ وکلام اوردیگر علوم وفنون پر اس نے تقریباً ڈھائی سو کتابیں اپنے رفقاء سے لکھوا کر شائع کی ہیں ، اور اس کا علمی و تحقیقی ترجمان ماہنامہ’’ معارف‘‘ ایک صدی سے زائد عرصہ سے پوری آب وتاب کے ساتھ بلا کسی انقطاع کے جاری ہے۔

دارالمصنفین کی علمی وتاریخی خدمات پر کئی کتابی لکھی جاچکی ہیں ، جن میں پروفیسر خورشید نعمانی کی کتاب ’’ دارالمصنفین کی تاریخ اور علمی خدمات ‘‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’ دارالمصنفین کی تاریخی خدمات ‘‘ اور مولانا کلیم صفات اصلاحی کی کتاب ’’دارالمصنفین کے سو سال ‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن اب تک کوئی ایسی کتاب نہیں تھی جس میں دارالمصنفین کی عربی خدمات کو موضوع بناکر لکھا گیا ہو۔اسی بنا پر مولانا محمد عارف عمری نے اپنے تحقیقی مقالہ کے لئے اس موضوع کو منتخب کیا اور پرفیسر عبید اللہ فراہی سابق صدر شعبہ عربی لکھنؤ یونیورسٹی کے اشراف ونگرانی میں اسے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔

یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول ’’ دارالمصنفین کا مختصر تعارف ‘‘ ہے جس میں ادارہ کے قیام کے اسبا ب ومحرکات ، اغراض ومقاصد، مختصر تاریخ اور اہم علمی کارناموں کا اجمالی ذکر ہے ۔ باب دوم ’’ دارالمصنفین کی عربی مطبوعات ‘‘ ہے ، یہ باب سوا سو صفحات پر مشتمل ہے اورکتاب کا سب سے طویل باب ہے۔ اس میں دو فصلیں ہیں ، فصل اول میں دارالمصنفین کی قرآنی مطبوعات کا ذکر ہے ، جس میں مجموعۂ تفاسیر ابو مسلم اصفہانی ، مولانا حمید الدین فراہی کی تفسیری کاوش ’’ اجزاء تفسیر نظام القرآن کے دو جز ’’ تفسیر سورہ ذاریات ‘‘ اور ’’سورہ فیل ‘‘ اور ’’ امعان فی اقسام القرآن ‘‘ کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ابو مسلم اصفہانی نے ایک ضخیم تفسیر لکھی تھی جو اب ناپید ہے ، امام رازی نے اس تفسیر کے اقتباسات کو اپنی تفسیر کبیر میں بکثرت نقل کیا ہے ، اس کی اہمیت کے پیش نظر علامہ سید سلیمان ندوی نے رفیق دارالمصنفین مولانا سعید انصاری سے ان اقتباسات کو تفسیر کبیر سے یکجا کرواکے اس پر مقدمہ لکھ کر دارالمصنفین سے شائع کرایا۔ اس کتاب کا ایک ہی ایڈیشن شائع ہوا۔

دوسری فصل میں تاریخی وادبی مطبوعات کا ذکر ہے ، جس میں سب سے پہلےعلامہ شبلی نعمانی کی مشہور زمانہ تصنیف ــ’’ الانتقاد علی تاریخ التمدن الاسلامی ‘‘کا تعارف پیش کیا گیا ہے ، یہ بیروت نژاد مصری عیسائی ادیب جرجی زیدان کی کتاب ’’تاریخ التمدن الاسلامی ‘‘ کا شاندار علمی محاسبہ ہے ۔ اس کے علاوہ عربی زبان کے مشہور ادیب وناقد علامہ عبد العزیزمیمن کی کتاب ’’ابوالعلاء وماالیہ ‘‘ مولانا فیض الحسن سہارنپور ی کے عربی دیوان ’’ دیوان الفیض ‘‘ اورعلامہ سید سلیمان ندوی کی ’’ دروس الادب ‘‘کا تعارف کرایا گیا ہے۔

باب سوم ’’ دارالمصنفین کی کتابوں کے عربی ترجمے ‘‘ پر ہے ، اس میں چار کتابوں کے عربی ترجمہ کا ذکر ہے جس میں سے دو شائع ہوئیں اور دو شائع نہ ہوسکیں ۔ پہلی کتاب ’’ الرسالۃ المحمدیۃ ‘‘ ہے جو علامہ سید سلیمان ندوی کی مشہور کتاب ’’ خطبات مدراس ‘‘ کا عربی ترجمہ ہے ، اس کے مترجم مولانا محمد ناظم ندوی ہیں ۔ دوسری کتاب ’’ سیرۃ النبی ‘‘ ہے جس کی جلد اول کا ترجمہ مولانا محمد اسماعیل مدراسی نے کیا ہے ، لیکن نہ تواس کا اصل مسودہ دار المصنفین میں ہے اور نہ ہی اس کی اشاعت ہوسکی ہے ۔ اس ترجمہ کی افسوسناک داستان کتاب میں موجود ہے۔ تیسری کتاب سیرت عائشہ ہے ، جس کا ترجمہ مولانا محمد ناظم ندوی نے کیا ،اور اس کی تہذیب وتکمیل مصنف کتاب مولانا عارف عمری نے کی ، لیکن اس کتاب کی اشاعت تک وہ شائع نہیں ہوسکا تھا ۔ چوتھی کتاب ’’ الاسلام والمستشرقون ہے ، یہ وہ عربی مقالات ہیں جو ۱۹۸۲ء کے مستشرقین پر منعقدہ سیمینار میں پیش کئے گئے تھے ، اور بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے ۔

چوتھا باب ’’ خاکہ شعر العرب ‘‘ ہے ۔ علامہ شبلی نعمانی کے ذہن میں شعر العجم کی طرح شعر العرب کا خاکہ بھی تھا ، چنانچہ انھوں نے شعر العجم کی تالیف کے بعد لکھا بھی کہ’’ مجھے شعر العجم سے پہلے شعر العرب لکھنا چاہئے تھا ۔‘‘ بعد میں مولانا عبد السلام ندوی نے استاذ کے اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی کوشش کی ، لیکن ان کی یہ کوشش بھی ناتمام رہی ۔ اس باب میں شعر العرب کے سلسلہ میں علامہ شبلی ومولانا عبدا لسلام ندوی کی تحریروں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ پانچواں باب ’’عربی کتابوں کے اردو ترجمے اور عربی تصنیفات کا اشاعتی منصوبہ ‘‘ ہے ۔ اس میں درج ذیل پانچ کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے جو عربی سے اردو میں منتقل کی گئی ہیں :

۱۔ ہندوستان عربوں کی نظر میں ، ۲۔ تاریخ فقہ اسلامی ، ۳۔ ابن خلدون ، ۴۔ انقلاب الامم ، ۵۔ اسلام اور عربی تمدن ۔ اس میں بطور ضمیمہ ان عربی کتب کا ذکر کیا گیا ہے جو دارالمصنفین کے اشاعتی منصوبہ میں شامل ہیں ۔ وہ یہ ہیں : ۱۔ تاریخ بد ء الاسلام ،ابھی حال میں ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی کی تحقیق وتعلیق سے اس کا نہایت عمدہ ایڈیشن دارالمصنفین سے شائع ہوا ہے ، جس میں اس کا اردو وفارسی ترجمہ بھی شامل ہے۔ ۲۔ کتاب الجزیہ، ۳۔ اسکات المعتدی ،۴۔ لغات جدیدہ۔ یہ اس تحقیقی مقالے کا اجمالی تعارف ہے۔

اس کا دیباچہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے قلم سے ہے ، وہ لکھتے ہیں :

’’ یہ مقالہ اگر چہ عربی خدمات کے عنوان سے لکھا گیا ہے لیکن دراصل یہ دارالمصنفین کی قرآنی، تفسیری اور تاریخ اسلام سے متعلق خدمات کی تفصیلات پرمشتمل ہے ۔ اس میں دارالمصنفین کے قیام کے اسباب ومحرکات کے ساتھ اس کی اجمالی تاریخ بھی آ گئی ہے، نیز علامہ شبلی اورمولا نا حمیدالدین فراہی کے عربی رسائل و تفاسیر کا بھی تجزیہ شامل ہے۔ یہ وقیع مقالہ اس لحاظ سے بھی بڑا اہم ہے کہ اس میں شبلی کے علمی منصوبوں اور ان کے عزائم کی داستان بھی کسی قد رآ گئی ہے، دارالمصنفین کے بعض نا تمام تصنیفی سلسلوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ــ۔۔ اس کی اشاعت سے ہماری علمی تاریخ کے سرمائے میں ایک اہم کتاب کا اضافہ ہوگا ۔‘‘ (ص:۱۳)

کتاب کے مصنف مولانامحمد عارف عمری بن مولانا مستقیم احسن اعظمی (ولادت : 13؍ جنوری 1961ء) شیخوپور کے رہنے والے ایک ذہین وفطین صاحب قلم عالم ہیں ۔ ابتدائی تعلیم بمہور میں ہوئی جو ان کا نانیہال ہے ، مشہور عالم مولانا داؤد اکبر اصلاحی ان کے نانا تھے۔ اس کے بعد مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اور مولانا آزاد تعلیمی مرکز، اسرہٹہ، جونپور میں تعلیم حاصل کی ۔جامعہ دار السلام عمرآباد سے 1980میں فضیلت کی تکمیل کی ۔1985 میں جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے کلیۃ اللغۃ میں لیسانس(بی اے) اور لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔دار المصنفین اعظم گڑھ سے تقریباً ۱۸؍سال بحیثیت رفیق وابستگی رہی، اس دوران جامعۃ الرشاد میں درس وتدریس اور مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کی نظامت کی ذمہ داری بھی سرانجام دیتے رہے ، نطامت کا دورانیہ ۱۶؍ سال پر مشتمل ہے، یہی دور مدرسہ کے عروج وترقی کا عہد شباب تھا۔ شیخوپور کے قیام کے دوران آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کے اعلیٰ اخلاق، منکسر المزاجی اور برجستہ لکھنے وبولنے کی صلاحیت کا معترف سارا مدرسہ تھا ۔ عربی ، اردو اور انگلش تینوں زبان سے واقف ہیں۔

اب تقریباًبیس سال سے ممبئی میں مقیم ہیں،ایک دینی درس گاہ دار العلوم عزیزیہ، میرا روڈ میں تفسیر وحدیث کا درس متعلق ہے، اس کے علاوہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے بینر تلے متعدد رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں، مختلف اداروں کے ممبر وسرپرست ہیں ۔ تصنیفات میں اس کتاب کے علاوہ ’’تذکرہ مفسرین ہند ( جلد اول مشتمل بر دو حصے ) اسلام اور مستشرقین جلد ہفتم ( مرتبہ) اور شیخ مخدوم علی مہائمی ؒکے عربی رسالہ’’ اجلۃ التائید فی شرح ادلۃ التوحید ‘‘ کا اردوترجمہ ہےجو عنقریب شائع ہونے والا ہے۔

یہ کتاب ۲۷۲؍ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اخیر کے ۲۲؍ صفحات اشاریہ پر مشتمل ہیں ، جسے مولانا کلیم صفات اصلاحی نے مرتب کیا ہے ۔ یہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے ادارہ ’’ ادبی دائرہ اعظم گڑھ ‘‘ سے اپریل ۲۰۱۳ء میں شائع ہوئی ہے ۔

ضیاء الحق خیرآبادی

۳ ؍ صفر 1444ھ مطابق یکم؍ستمبر2022ء جمعرات

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے