بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مختصرتعارف ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ ‘‘
بقلم: مصعب نعمانی
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ارشاد فرمودہ مواعظ اور تحریر کردہ تصانیف میں علوم و معارف کے وہ ناپیدا کنار سمندر موج زن ہیں جن کی نظیر تلاشِ بسیار کے باوجود نظر نہیں آتی، ان میں تفسیری نکات و لطائف، حدیثی تشریحات، فقہی دقائق، احسانی ارشادات اور دیگر علوم و معارف پر مشتمل زریں اقوال، نادر تحقیقات اور قیمتی افادات کا ایک جہان آباد ہے ؛ دین کی صحیح فہم، اس کی حدود و قیود کی پہچان، نفسِ انسانی کی معرفت اور اس کو اصلاح کی راہ پر گامزن کرنے کی جو تدبیریں اُن میں نظر آتی ہیں؛ وہ اک رمز ہے اور اپنی نظیر آپ ہے۔
آج کل عوام میں افکارِ زمانہ اور رائج فلسفہ سے مرعوب ہو کر اسلامی عقائد اور شرعی احکام و عقائد میں اسرار و رموز اور مصالح و حِکَم دریافت کرنے کی عام روش چل پڑی ہے، اس سے طمانیتِ قلبی اور قوتِ ایمانی رخصت یا کم از کم مغلوب ہو گئی ہے؛ کیوں کہ احکامِ شرعیہ میں بلا استفسارِ حِکَم عمل کرنے میں عبدیت، یک سوئی اور راحت ہوتی ہے اور حکمت کی تلاش میں یہ صفات فوت یا کم ہو جاتی ہیں۔
(بندہ نے مذکورہ بالا فکر حضرت تھانویؒ کے افاداتِ ذہبیہ اور دادا جان حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی متعنا اللہ بطول حیاتہ کے مقولاتِ علمیہ سے اخذ کی ہے)
زمانۂ موجودہ میں اہل شبہات کے طبقے چند کتب پر سرسری نظر ڈال کر اسلامی احکام پر اعتراض کرنے کی جسارت کر بیٹھتے ہیں؛ کیوں کہ کثرتِ اعتراض قلتِ علم و فہم کی دلیل ہے اور معرفت کے لیے فہم کی ضرورت ہے۔ بد فہم لوگ شب و روز اعتراض کرتے رہتے ہیں، بینائی اپنی کمزور ہے اور انگشت نمائی کی جارہی ہے آفتابِ عالم تاب پر۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت حکیم الامت ؒکی یہ تصنیف بے مثال اور لاجواب ہے۔
مغربی افکار و نظریات سے جو گم راہیاں اور غلط فہمیاں ہمارے دور میں پیدا ہوئی ہیں، اُن کی اصل بنیاد پر جتنی مضبوط گرفت، جامع تبصرہ اور ناقابلِ رد تردید حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے اپنی بے نظیر کتاب ”الانتباہات المفیدہ“ اور اس کی شرح ”حل الانتباہات“ میں فرمائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
حضرتؒ نے اس رسالہ میں عقائدِ اسلام اور احکامِ شرعیہ سے متعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کو پیش آنے والے شبہات و وساوس کے دفعیہ اور ازالے کے لیے مفیداصول اور تنبیہات بیان کر کے اُن شبہات کو دور فرمایا ہے۔ اُنہیں مفید تنبیہات کو ”الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ“ سے موسوم کیا گیا۔
تصنیف کا پس منظر:
ایک مرتبہ حضرتؒ اپنے بھائی سے ملنے علی گڑھ گئے،وہاں کالج کے بعض طلبہ کو اطلاع ہو گئی، تو وہ ملنے آئے اور طلبہ کی ایک جماعت نے علی گڑھ کے سیکریٹری نواب وقار الملک مولانا مشتاق حسین صاحبؒکو حضرتؒ کی آمد کی اطلاع دی اور ساتھ میں سفارشِ وعظ پیش کرنے کی درخواست کی؛ نواب صاحبؒ کی درخواست پر حضرت کا بیان ہوا، طلبہ نے شبہات و خلجان پیش کیے اور حضرتؒ نے ان شبہات کا ازالہ کیا؛ چوں کہ انہوں نے ایسا قریب الفہم اور عقل لگتا جواب کبھی سنا نہیں تھا، اس لیے اُن لوگوں پر حضرت کی علمی شخصیت کا بے حد اثر ہوا۔ (اگر خیر خواہی مدِ نظر ہو اور تعصب نہ ہو تو اس کا اثر بھی ہوتا ہے) تمام طلبہ نے وعظ کے بعد کہا کہ ہم کو ایسےہی وعظ کی ضرورت ہے، نیز طلبہ نے خواہش ظاہر کی کہ حضرتؒ کالج میں آتے رہیں تا کہ ہماری اصلاح ہو، مگر کالج کے حامی ڈر گئے کہ اگر حضرت تھانوی جیسا شخص ایک دو دفعہ اور آ گیا تو تمام کالج کی کایا ہی پلٹ جائے گی؛ چناں چہ حضرتؒ کا دوبارہ جانا نہیں ہوا۔ البتہ حضرت نے ایک سہل تجویز یہ پیش کی کہ مسجد میں ایک رجسٹر رکھ لیا جائے اور ہر اتوار کو جہاں بہت سے اور کام ہوتے ہیں، ایک یا دو سوال اس رجسٹر میں لکھ دیا کریں، پھر جب ایک معتدبہ تعداد ہو جایا کرے تو اُن سوالات کی نقل یا اس رجسٹر کو ہی میرے پاس بھیج دیا کریں؛ میں ان سوالات کا جواب لکھ دیا کروں گا؛ لیکن باوجود اتنے بڑے مدعی ہونے کے ایک بھی خط نہیں آیا۔
غرض بقول حضرت تھانویؒ کے ان ”جینٹل مینوں“ سے تو مجھے کوئی مدد ملی نہیں؛ لیکن میں نے بطور خود ہی ان کے بعض ایسے شبہات کے جن کا مجھ کو علم تھا، جواب لکھ کر ”الانتباہات المفيدۃ عن الاشتبابات الجدیدۃ“ کے نام سے شائع کر دیا ۔
کتاب کی اہمیت و افادیت خودحضرت تھانویؒ نے اس طرح ذکر کی ہے:
متکلمین کے مقرر کردہ اصولوں پر سارے شبہات جدیدہ کا بھی جواب دیا جاسکتا ہے اور اس ذخیرہ سے علم کلام جدید کی بھی بآسانی تدوین ہوسکتی ہے… اور اس میں میں نے ایسے اصولِ موضوعہ قائم کر دیے ہیں، جن سے میرے نزدیک اس قسم کے جتنے شبہات پیدا ہوں بسہولت رفع کیے جاسکتے ہیں۔
حضرت العلامؒ کا یہ رسالہ وجادلہم بالتي ہي أحسن کا عمدہ مصداق ہے؛ جس میں علمِ کلام(۱) کے ذریعہ شبہاتِ جدیدہ و اعتراضاتِ رکیکہ کا جواب نہایت وضاحت و متانت کے ساتھ دیا گیا ہے۔
رب کریم حضرت رحمہ اللہ پر اپنی رحمتِ خاصہ نازل فرمائے جس کی شخصیت اس پر فتن دور میں مجھ جیسے زندگی کی پر پیچ راہوں میں بھٹکنے والوں کے لیے رہبری کا ذریعہ ہے۔ آمین
اصل کتاب اردو زبان میں ہے، نیز حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کی زیرِ سرپرستی عربی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
عربی مترجم کا نام: الانتباهات المفیدة في حل الاشتباهات الجديدة ہے،
انگریزی مترجم کا نام: Answer to modernism ہے۔
یہ کتاب ۱۴۴؍ صفحات پر مشتمل ہے ،یہ دیوبند کے مشہور کتب خانوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
(۱) علم کلام اس فن کا نام ہے جس میں مخالفین مذہب کے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دیا جاتا ہے اور عقائد حقہ کو عقلی و نقلی دلیلوں سے ثابت کیا جاتا ہے۔ – مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ
مصعب نعمانی
25 محرم الحرام 1444ھ
24 اگست 2022ء