تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی
*سلسلۂ تعارف کتب (۶۴)*
*تعارف نگار: ضیاء الحق خیرآبادی*
*مصنف:مولانا حبیب الرحمٰن ندوی ؒ*
*مرتب : مولانا عزیز الحسن ندوی*
وعظ و تقریر جب کہ وہ جو شش قلب اور جذ بۂ خلوص کے ساتھ ہو ، اور اس کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت سے بھی لبریز ہو ، تو اس کی اثر آفرینی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، دنیا کی ہر زبان میں اعلیٰ درجہ کے خطیب و مقرر ہوئے ہیں ، لیکن اس باب میں عربی زبان کو جو امتیاز حاصل ہے ، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ، پھر اہل عرب میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے جس ملکہ خطابت سے نوازاتھا، وہ ا یک معجز ہ ہے، آپ ﷺ نے عرب کے ان فصیح ترین اہل زبان کے سامنے جو اپنے آگے ساری دنیا کو گونگا سمجھتے تھے ، ایسے خطبے دیئے کہ وہ متحیر ہو کر رہ گئے ، اور صرف متحیر ہی نہیں ہوئے ، خلوص سے نکلنے والی بات جس کا ظہور زبان نبوت سے ہو رہا تھا، اس نے ان کے دل کی گہرائیوں میں جگہ بنالی، اور ان کی دنیا بدل ڈالی، یہ خطبات اور یہ مواعظ دین حق کی ندائے آسمانی تھے ، جن سے قلب وروح میں ایک انقلابی ہلچل مچ جاتی تھی، یہ خطبات اپنے اندر غضب کی تاثیر رکھتے ہیں، ان سے آپ کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا کسی قدر اندازه ہو تا ہے، یہی وہ تاثیر اور اثر آفرینی تھی کہ آپ کے دشمن اور مخالفین بھی آپ کی باتیں سنتے تھے ،اور اپنے آپ کو بدلتا ہوا محسوس کرتے تھے۔
آپ ﷺ کے یہ خطبات و مواعظ حدیث کی کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں ، اس امت کا یہ عظیم الشان کارنامہ ہے کہ اس نے پیغمبر کی زندگی کے ایک ایک گوشے کو رہتی دنیا تک کے لئے محفوظ کر دیا ہے،تاکہ آنے والی نسلیں انھیں نقوش پر اپنی راہ طے کرتی رہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی حدیث کی کتابوں میں بکھرے ہوئے ان شہ پاروں کو یکجا کر کے اردو زبان میں اس کی توضیح و تشریح کی جائے،یہ سعادت مولانا حبیب الرحمن ندوی علیہ الرحمہ کے حصہ میں آئی ۔
مولانا حبیب الرحمٰن ندویؒ ( و: ۱۹۳۲ء،م:۱۹۹۹ء) کا آبائی وطن ادری تھا ،بعد میں مئو منتقل ہوگئے۔وہ ندوہ کے قدیم فضلاء میں سے تھے،فراغت ۱۹۵۱ء کی ہے۔وہ ایک بر جستہ انشاء پرداز اور کہنہ مشق صاحب قلم و نثر نگار تھے۔ فراغت کے بعد تجارتی مصروفیات کے ساتھ قرطاس وتعلق سے ان کا تعلق استوار رہا ، اخبارات ورسائل میں برابر لکھتے رہتے تھے ۔ یہ کتاب پڑھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص جو اپنی کاروباری و تجارتی مصروفیات میں صبح سے شام تک گھرارہتا ہو ، نیز سماجی مشغولیات اور انتظامی امور بھی اس کے پاؤں کی زنجیر بنے رہتے ہوں، اس کے باوجود اس نے کیسے اپنے علمی ذوق کو بر قرار رکھا، اور ایسی قابل قدر کتاب تصنیف کی، جس کی زبان بھی نہایت معیاری اور ا سلوب بھی بڑا دلکش ہے ۔
یہ کل ۳۹ ؍خطبات کی توضیح وتشریح ہے۔اس میں سے بعض اخبارات ورسائل میں شائع ہوچکے تھے ، بعض مسودات کے شکل میں تھے ، جسے مولانا مرحوم کے صاحبزادگان نے ان کی وفات کے بعد مرتب کرواکے کتابی شکل میں شائع کیا،اس پر وہ لائق تحسین ہیں۔ کتاب کے مرتب مولانا عزیز الحسن ندوی (ولادت :۱۹۶۴ء) بہادر گنج کے رہنے والے ایک باذوق عالم ہیں، ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم مئو سے مولانا شیخ عبد الحق صاحب اعظمیؒ سے بخاری شریف پڑھ کر فضیلت کی تکمیل کی،پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عربی ادب میں تخصص کیا ، اس وقت مدرسۃ المساکین بہادر گنج میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس کا انداز تحر یر یہ ہے کہ اکثر خطبات میں پہلے اس کے پس منظر اور اسباب و علل کو بیان کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے ، پھر اس کی نہایت دلنشیں انداز اور عمدہ پیرایہ میں تشریح کی گئی ہے ، اور یہ خطبات ہمیں کیا پیغام اور سبق دیتے ہیں ، ہمارے موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اخیر میں اس کو اختصارکےسا تھ بیان کیا گیا ہے اور یہ تمام مضمون کا حاصل اور خلاصہ ہوتا ہے۔
ایک خطبہ کے اختتام پر مولانار قمطراز ہیں:
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا اونچا طبقہ اس قسم کی باتوں کا پڑھنا اور سننا اور بیان کرنا بھی گوارا نہیں کر تا ، اس کو دلچسپی ناول اور افسانے سے ہے ،یا بے مقصد شعر و شاعری سے ،یازیادہ سے زیادہ اختلافی نوعیت کے مذہبی مسائل سے …… بہر کیف یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ،اور اس پر جس قد رافسوس کیا جائے کم ہے ، ناول اور افسانے سے یاشعر و شاعری سے نہ زندگی کے مسائل حل ہوئے ہیں نہ ہو سکتے ہیں۔
ہمارے دکھ درد کا علاج تو کلام نبوت میں ، اور رسول اللہ ﷺ کےفرمان اور آپ ﷺ کی تعلیمات میں ہے ،کاش یہ حقیقت ہمارے دل کی گہرائیوں میں اتر سکتی، اور ہم سچے مسلمان بن کر ایک بار پھر دنیا کو اسلام کی صداقت کا نمونہ دکھا سکتے۔ ( مدینہ منورہ میں آ نحضرت ﷺ کا آخری خطبہ )
ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ قلم کا نوک چاہے تھر تھرارہاہو ، مگر حقیقت تو بہر حال اپنی جگہ سوفیصد درست ہے کہ مسلمان کہلانے والوں میں ایسے بھی ہیں جو مسجدوں میں جاتے تو ضرور ہیں مگر کس لئے؟ نماز پڑھنے کیلئے نہیں ! نعوذ باللہ صرف نہانے دھونے اور استنجا کرنے کیلئے اور اگر ان کو آرام کرنے یا سفر میں کہیں ٹھہرنے کی ضرورت پیش آئی تو مسجد کی تلاش ضرور کریں گے ، مگر زندگی میں شاید وباید کبھی یہ نوبت آئی ہو کہ انھوں نے نماز کیلئے مسجد کا رخ کیا ہو ، ظاہر ہے اتنی بڑی بد بختی کیلئے اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اللهم احفظنا منه (اے اللہ اس طرزعمل سے ہماری حفاظت فرمائیے۔ (مساجد کی عظمت اور ان کے آداب و حقوق)
اختصار کی بنا پر انھیں دو اقتباس پر اکتفا کیا جاتا ہےور نہ پوری کتاب اس لائق ہے کہ اس کا بار بار مطالعہ کیا جائے۔ مولانا ان خطبات کی اثر پذیری کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’کسی قسی القلب پر اگر یہ الفاظ اثر نہ کریں تو یہ اس کی غلطی ہے ور نہ نبی کریم ﷺ کے خطبے کے الفاظ تو ایسے ہیں جو تیر و نشتر سے بھی زیادہ کار گر میں بشر طیکہ انسان ان کو ٹھنڈے دل سے پڑھے اورسنجیدگی سے ان پر غور بھی کرے۔“
کتاب کا پیش لفظ مشہور صاحب قلم عالم وادیب مولانا اسیر ادروی کے قلم سے ہے ، جس میں مصنف اور موضوع کتاب کا اختصار سے تعارف کرایا گیا ہے ۔کتاب ۲۸۲؍ صفحات پر مشتمل ہے، یہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے ، پہلا ایڈیشن ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا، اور یہ ایڈیشن ۲۰۱۹ء میں، جس طرح یہ باطنی محاسن سے مرصع و مزین ہے ، اسی طرح ظاہری خوبیوں سے بھی آراستہ و پیراستہ ہے۔ طبع دوم میں مصنف کے دوست اور عالم اسلام کے نامور محدث ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی نے مراجعہ ونظر ثانی فرمائی ہے، ان کے مشورے سے اس ایڈیشن میں خطبات کا عربی متن بااعراب شامل کیا گیا ہے۔ یہ مکتبہ الفہیم مئو اور مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
27؍محرم الحرام 1444ھ مطابق26؍اگست 2022ء یوم الجمعۃ