1940 – 2010
محمد اللہ قاسمی
۸/ اکتوبر ۲۰۱۰ء بروز جمعہ بعد نماز عصرسوا پانچ بجے دارالعلوم دیوبند کے کارگزار مہتمم حضرت مولانا غلام رسول خاموش صاحب دارالعلوم کے مہمان خانہ میں اپنی رہائش گاہ پر انتقال فرماگئے۔ مولانا کچھ دنوں سے علیل تھے اور انھیں خون کی بے تحاشہ کمی کی وجہ سے ضعف و نقاہت کے ساتھ تنفس میں دشواری محسوس رہی تھی ۔ تاہم مولانا کی صحت اس درجہ خراب نہیں تھی کہ ہم خدام کو یہ خدشہ محسوس ہوتا کہ آپ جلد ہی ہم سے رخصت ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا کے انتقال پر ملال کی اچانک اور غیر متوقع خبر سے لوگ دم بخود رہ گئے۔
حضرت مولانا غلام رسول خاموش صاحب کو دارالعلوم کے بے لوث خادم، متقی و پرہیزگار، متین و سنجیدہ، متحمل و بردبار ،معمولات اور نظم و ضبط کے پابند، کشادہ دل اور محبوب و ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
مختصر حالات زندگی
حضرت مولانا صوبہ گجرات کے ضلع بناس کانٹھا کے مشہور قصبہ چھاپی کے قریب ایک گاؤں مہتہ کے باشندے تھے۔یہ ضلع گجرات کے شمال مشرق میں راجستھان کے بارڈر پر واقع ہے۔ پالن پور اسی ضلع کا صدر مقام ہے جو متعدد مشاہیر علمائے کرام کا وطن ہے اور گجرات میں مشہور علمی ومرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ ۱۹۴۰ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔آپ کے والد ماجد کا لقب خاموش تھا۔ آپ کے والد ہی سے آپ کا خاندانی نام ’خاموش‘ چل پڑا جو گجرات کے عام ماحول اور رواج کے مطابق اَب اس خاندان کے تمام افراد کا عرفی نام (surname)بن گیا ہے۔
آپ کی تمام تر تعلیم دارالعلوم چھاپی میں ہوئی۔ بعد میں آپ کو اپنے ماموں کے یہاں کراچی جانا ہوا جو وہاں تقسیم ہند و پاکستان کے وقت منتقل ہوگئے تھے اور انھیں کے توسط سے حضرت علامہ امام کشمیری کے شاگرد رشید حضرت مولانا علامہ یوسف بنوری کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا۔ آپ کے ماموں علامہ بنوری کے قریبی ارادتمندوں میں تھے ۔ تقسیم سے قبل علامہ بنوری ڈابھیل گجرات میں بہ حیثیت استاذ قیام کرچکے تھے اور گجرات کے اس علاقہ کے بہت سے علماء کو علامہ بنوری سے شاگردی و نیاز مندی کا تعلق تھا۔ چناں چہ اس شاندار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے ۱۳۷۷ھ (مطابق ۱۹۵۸ء ) میں حضرت علامہ بنوری کے مشہور زمانہ درس سے استفادہ کیا اور دورہٴ حدیث کی تکمیل کرکے ہندوستان واپس ہوئے۔
تعلیم و تربیت سے فراغت کے بعد مولانا تعلیم و تجارت سے جڑ گئے۔ ممبئی میں بہت دنوں تک مدرسہ میں پڑھاتے اور اپنی تجارت کو فروغ دیتے رہے۔ ساتھ ساتھ اکابر علماء اور جماعت تبلیغ کے اکابرین سے بھی منسلک رہے۔ آپ کی تجارت میں اللہ نے خوب برکت دی اور آج ممبئی کے قلب بھنڈی بازار میں مولانا کی رہائش گاہ کے علاوہ ٹی کمپنی کے کئی شو روم ہیں ۔ تجارت میں مولانا کی امانت و دیانت ، خوش معاملگی اور محنت سے آپ کی ٹی کمپنی کا ایک معیار قائم ہوا اور پروڈکٹ کی معتبریت کے لیے لیبرٹی ٹی کمپنی کا نام کافی ہوگیا۔
تجارت کے ساتھ مولانا مدارس ، تبلیغی جماعت اور علماء سے بھی برابر مربوط رہے۔ ادھر تقریباً کئی دہائیوں سے آپ غیر رسمی طور پر دارالعلوم چھاپی سے نہ صرف منسلک ہوگئے بلکہ اس وقت کے مہتمم مولانا حبیب اللہ صاحب اور مدرسہ کی انتظامیہ کا اتنا اعتبار و اعتماد حاصل کرچکے تھے کہ مہتمم کی موجودگی میں اہتمام و انصرام کے تمام امور مولانا ہی انجام دیتے تھے۔ مولانا خاموش کے خلوص و للہیت کا یہ عالم تھا سارا کا سارا کام آپ انجام دیتے اور نام مہتمم صاحب کا رہتا۔ دارالعلوم چھاپی کے مہتمم مولانا حبیب اللہ صاحب کے بعد بھی آپ بدستور بلا نام اور عہدہ کے للہ و فی اللہ خدمات انجام دیتے رہے ۔ جب ۱۴۰۹ھ میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کی رکنیت کے لیے ارباب دارالعلوم دیوبند کی نگاہ انتخاب آپ پر پڑی اور آپ کو اس باوقار اعزاز سے نوازا گیا، اس وقت دارالعلوم چھاپی کے ارباب حل و عقد نے مولانا کو دارالعلوم چھاپی کا مہتمم بنایا۔
مولانا ایک پڑھے لکھے اور دین دار گھرانے کے فرد تھے۔ مسلمانوں کی اصلاح اور دینی ترقی کی فکر ہمیشہ انھیں دامن گیر رہتی۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت تبلیغ سے آپ ہمیشہ وابستہ رہے اور بڑی پابندی میں سے اس میں شریک ہوتے تھے۔ آپ مرکز نظام الدین دہلی بالخصوص ممبئی کی جماعت تبلیغ کے اکابرعلماء و منتظمین میں تھے۔ مولانا کے علاقہ میں مقامی سطح پر دینی کام کے لیے اصلاحی کمیٹیاں قائم تھیں، مولانا اس تحریک و مشن کے سربراہ تھے ۔ دین و ایمان کی حفاظت، عقائد و افکارکی اصلاح اور سماجی و معاشرتی فلاح وبہبود کے سلسلے میں مولانا ہمیشہ کوشاں رہتے۔دینی مراکز و معاہد کی تعمیر و ترقی حصہ لیتے۔ آپ کے علاقہ میں گجرات کے دیگر علاقوں کے مقابلہ میں زیادہ دین داری اور اسلامی ماحول نظر آتا ہے جو مولانا جیسے مخلص اور غیور علماء و صلحاء کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔
مولانا تصوف و سلوک کے روشن شاہراہ سے بھی آشنا تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے ممبر کی حیثیت سے ملک کی چیدہ علمی و دینی شخصیات گویا آپ کے ہم منصب اور ہم مجلس تھے جن میں حضرت مولانا منظور احمد نعمانی، حضرت مولانا عبد الحلیم جون پوری ، حضرت قاری محمد صدیق صاحب باندوی ، حضرت مولانا اسعد مدنی (رحمہم اللہ) جیسے حضرات شامل تھے۔ باضابطہ طور پر مولانا خاموش صاحب کو محدث وقت حضرت مولانا یونس جون پوری مد ظلہ العالی سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔ مولانا کی ایک بڑی خصوصیت ان کی پرہیزگاری اور تقوی شعار زندگی تھی۔ رجوع الی اللہ اور تقوی و انابت کا خاص ذوق تھا۔پنج وقتہ نمازوں میں اذان کے فوراً بعد مسجد میں حاضر ہوجاتے اور نماز کے بعد دیر تک نوافل، تلاوت اور ذکر میں مشغول رہتے۔ ہمیشہ صف اول میں جگہ لیتے اور ساری نمازیں تکبیر اولی کے ساتھ ادا فرماتے۔ سفر و حضر میں ہمیشہ نماز با جماعت کا اہتمام کرتے۔ قرآن کریم کی تلاوت کا خاص شغف تھا۔ روزمرہ کے معمولات انتہائی پابندی کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر ادا کرتے۔ اللہ تعالی کی خاص عنایت سے تقریباً ہر سال آپ کو حج و عمرہ ادا کرنے کی سعادت ملتی ۔
حضرت مولانا اور دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند سے رسمی وابستگی مولانا کی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ ۱۴۰۹ھ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کی باوقار اور معزز رکنیت کے لیے منتخب کیاگیا ، جس کے توسط سے مولانا ہمیشہ دارالعلوم کی فلاح و ترقی کے لیے کوشاں رہے اور حضرات اکابرین کی حسن انتخاب کو سچ کردکھایا۔ مولانا کی دارالعلوم کے امور سے گہری دل چسپی اور تعلق خاطر سے متاثر ہو کر مجلس شوری نے ۱۴۲۴ھ میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے ضعف و پیرانہ سالی کی پیش نظر آپ کو دارالعلوم کے بااختیار کارگزار مہتمم کے عہدہٴ جلیلہ پر سرفراز فرمایا۔ گو مولانا دارالعلو م دیوبند سے رسمی طور پر فیض یافتہ نہیں تھے، مگر آپ کے اندر موجزن دارالعلوم کی بے پناہ محبت اور بے لوث جذبہٴ خدمت کی برکت تھی کہ درجنوں لائق و فائق ابنائے دارالعلوم دیوبند کی موجودگی میں بھی اللہ تعالی نے اس منصب کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا۔ دارالعلوم دیوبند سے قلبی وابستگی اور وارفتگی کا ہی یہ فیضان تھا کہ آپ کی حیات مستعار کے آخری لمحے اسی گلستان محبت میں گزرے اور اسی کی خدمت کرتے کرتے انھوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ من الموٴمنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ، منھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر۔ الآیة
جو تم بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کرچلے
اکثر کہتے کہ عزم کرو کہ ان شاء اللہ تاعمر دارالعلوم کی خدمت انجام دینی ہے اور یہیں مزار قاسمی میں دفن ہونا ہے۔
معلوم ہوا کہ عید کے بعد ہی سے دارالعلوم آنے کے لیے گھر والوں سے کہہ رہے تھے، مگر بابری مسجد معاملہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے قبل کے کشیدہ اور تشویشناک حالات کے بہانے اہل خانہ ٹالتے رہے۔ بالآخر ۳۰/ ستمبر کے بعد جب ملک کے حالات معمول پر آئے، تو مولانا نے دیوبند آنے کا پروگرام بنایا اور وفات سے تین چار دن پہلے دیوبند آگئے۔ کسے معلوم تھا کہ آپ کو مقبرہٴ قاسمی کی خاک بلاکر لائی ہے۔ آتے ہی حسب معمول دارالعلوم کے کاموں میں لگ گئے، لیکن کمزوری اور تنفس میں پریشانی کے سبب دفتر اہتمام میں تشریف لانے کے بجائے مہمان خانہ میں اپنے کمرہ سے سب کچھ انجام دیتے۔ بدستور تعلیمی و انتظامی مجلسوں میں شریک ہوتے اور دفتری کاروائیاں انجام دیتے رہے۔ آخری دن جمعہ کی نماز سے قبل مجلس تعلیمی کے اہم اجلاس میں بھی پورے تیقظ اور سرگرمی سے ڈھائی گھنٹے تک شریک رہے۔ کسے معلوم تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد دارالعلوم کا یہ بے لوث خادم ہمیں داغ فراق دے جائے گا۔
مولانا کی خصوصیت تھی کہ بڑی سے بڑی ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ خاموشی سے انجام دیا کرتے تھے ۔ دارالعلوم دیوبند کی ظاہری و معنوی ترقی کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے۔ انتظامی اصلاحات اور طلبہ کی تعلیم و سہولیات کو لے کر ہمیشہ کوشاں رہتے۔ طے شدہ معمول کے مطابق مہینے میں دس دن دیوبند میں گزارتے۔ مولانا کی آمد سے دارالعلوم میں ایک نئی ہلچل سی محسوس ہوتی ؛کیوں وہ آتے ہی شعبوں کا جائزہ لیتے، کارکردگی دیکھتے اور سب کو دارالعلوم کی پرخلوص خدمت کے جذبہ سے بھر دیتے۔ مولانا بڑوں چھوٹوں سب کا خیال رکھتے، ہر ایک کی ضروریات ، مسائل اور شکایتیں سنتے اور نہایت سنجیدگی سے ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ تمام معاملات میں صبر و تحمل ، وسعت نظری اور حکمت و مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھاتے اور کبھی کسی معاملہ میں جذباتی نہ ہوتے۔ستائش کی تمنا اور صلہ کے پرواہ کیے بغیر اپنے کاموں میں لگے رہتے۔ بڑے صاف گو تھے اور سیدھی سادی بات پسند بھی کرتے۔ چاپلوسی، تملق اور لاگ لپیٹ کو پسند نہ فرماتے۔بڑے متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ خودرائی و خود ستائی کے بالکل قائل نہ تھے۔ طبیعت میں بڑی نرمی اور ملاطفت ، آواز بھی ہلکی اور دلکش تھی۔ غلطیوں پر تنبہ اور گرفت بھی کرتے لیکن متانت اور نرمی سے پیش آتے، درشتی و تندی اورکرختگی سے گریز کرتے۔ طبیعت کے فیاض اور داد و دہش کا معاملہ کرنے والے تھے۔ اہل تعلق کی ضروریات کا خیال رکھتے اور جیب خاص سے ممکنہ حد تک مالی تعاون سے بھی دریغ نہ کرتے۔ اللہ نے آپ کو بڑی محبوبیت اور ہر دل عزیزی عطا فرمائی تھی۔ آج جب کہ آپ ہمارے بیچ نہیں رہے ہر شخص آپ کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہے۔ آپ کی یہ محبوبیت اور ہر دل عزیزی آپ کی عند اللہ مقبولیت کی روشن دلیل ہے۔
سانحہٴ وفات
حضرت مولانا خاموش صاحب کی وفات سے دارالعلوم دیوبند ، دارالعلوم چھاپی گجرات اور تبلیغی جماعت کے حلقہ اور متعلقہ اداروں میں غم و اندوہ کا ماحول چھا گیا۔ آپ کا انتقال دارالعلوم دیوبند کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، خصوصاً ایسے نازک وقت میں جب کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب صاحب فراش اور علیل ہیں۔ حضرت مولانا کے انتقال سے دیوبند حلقہ میں ایک خلا پیدا ہو گیا اور دارالعلوم اپنے ایک مخلص، محنتی اور بے لوث خادم سے محروم ہوگیا۔
۹/ اکتوبر ۲۰۱۰ء کی صبح دارالعلوم کے احاطہٴ مولسری میں آپ کے فرزند ارجمند مولانا نظام الدین صاحب کی امامت میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ہزاروں علماء و طلبہ کی جماعت نے اس امانت کو قبرستان قاسمی کے حوالے کردیا۔
عمر بھر جن کا مشن لے کر پریشاں تو ہوا
مرحبا ! ان اپنے محبوبوں کا ہم پہلو ہوا