*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*
*نام کتاب: تذکرۂ سید الملت* ( مجموعۂ مقالات )
*مرتب: ضیاء الحق خیرآبادی*
٢٠١٩ء میں جمعیة علماء ہند کے قیام کے سوسال پورے ہوگئے ،ملک وملت کی تعمیرو ترقی میں اس کی جو زرّیں خدمات رہی ہیں، وہ کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں ، جمعیة علماء ہند نے اپنی ان خدمات کے تعارف کے لئے صد سالہ تقریبات کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔ ان تقریبات کو یادگار بنانے اور ان کو نقش دوام بخشنے کے لئے اس نے اپنے بانیان ، اولین معماروں اور ممتاز قائدین ورہنماؤں کے سوانحی حالات اور ان کے کارناموں سے ملک وقوم کو روشناس کرانا ضروری خیال کیا۔ اس کے لئے اس نے سیمیناروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔
اس سلسلہ کا پہلا پروگرام ١٦/١٥ /دسمبر ٢٠١٨ء کو دارالحکومت دہلی میں منعقد ہوا ، یہ جمعیة علماء ہند کی دو اہم شخصیات مولانا ابوالمحاسن محمدسجاد اور مولانا سید محمد میاں پر ہوا۔ مولانا سید محمد میاں پر ہونے والے پروگرام کا کنوینر مجھے بنایا گیا زیر تعارف کتاب ” تذکرۂ سید الملت ” اسی سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔
”مولانا سید محمد میاں(ولادت:١٢ رجب ١٣٢١ھ مطابق ٤ اکتوبر ١٩٠٣ء/وفات:١٦/شوال المکرم١٣٩٥ھ مطابق ٢٢/اکتوبر ١٩٧٥ء ) ملت اسلامیہ ہندکے بیدار مغز قائد ، تحریک آزادی کے جانباز سپاہی ، اسلاف کی امانت کے پاسبان ، جمعیة علماء کے بے لوث ترجمان، حضرت شیخ الاسلام کے افکار ونظریات کے حامل ونگہبان ، حضرت مجاہد ملت کے معتمد علیہ معاون ومددگار ، تعمیرملت کے معمار اور میدان درس وتدریس کے شہ سوار تھے ۔ ایسے افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں کاکام سالوں میں کرجاتے ہیں ، انھوں نے اپنی حیات مستعارکو ملت اسلامیہ کی بقا وترقی کی راہ میں کھپادیا اور اپنے کارناموں کی ایک تاریخ چھوڑ گئے ، تصانیف کا بیش بہا ذخیرہ ہمیں دے گئے ، دینی تعلیمی تحریک کو ہندوستان کے گوشے گوشے اور گھر گھر میں پہنچانے کا کام کرگئے ۔وہ واقعی اقبال کے اس شعر کا مصداق تھے
نگہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
وہ ایک طویل عرصہ تک جمعیة علماء ہند کے ناظم رہے ، جمعیة کا تحریری سرمایہ زیادہ انھیں کے قلم کا رہین منت ہے۔اس کے علاوہ سیرت نبوی ، تاریخ اسلام ، صحابۂ کرام اور تاریخ وتذکرہ پر مولانا کی درجنوں کتابیں ہیں۔ وہ ایک بہترین مدرس ، فقیہ ، ادیب ، صحافی اور منتظم تھے، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مدرسہ حنفیہ آرہ میں تین سال ، مدرسہ شاہی میں ١٧ سال اور مدرسہ امینیہ میں ١٣ سال تدریسی خدمات انجام دیں۔
یہ مجموعۂ مقالات ١١٨٤ صفحات پر مشتمل ہے ،یہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلے حصہ میں وہ مقالات ہیں جو سیمینار میں پیش کئے گئے ۔ دوسرے حصہ میں مولانا کی وفات کے بعد سے سیمینار تک ان پر لکھے گئے قدیم مقالات ہیں۔۔تیسرا حصہ مولانا کی تحریروں کے انتخاب پر مشتمل ہے ۔ حصہ اول ابتداء سے ٨٧٥ صفحات تک ہے ، یعنی کل پونے نو سو صفحات ہیں ، حصہ دوم ٨٧٦ سے ١٠٩٠ تک اور حصہ سوم ١٠٩١ سے ١١٨٤ تک ہے ۔ سب سے پہلے پیش لفظ ہے جس میں اس سیمینار اور کتاب کی ترتیب کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد مولانا سید محمود مدنی کے کلمات تشکر وامتنان ، مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ کا پیغام اور ادیب شہیر مولانا نور عالم خلیل امینی کے تاثرات ہیں ۔
حصہ اول میں کل ٤٤ مقالات ہیں ،جن کو ٩ مرکزی عناوین کے تحت مرتب کیا گیا ہے ۔ پہلا عنوان” نقوش حیات سید الملت ” ہے ، جس میں ١١ مقالات ہیں ، جن میں دو تحریر خود مولانا سید محمد میاں کی ہے ، جس میں انھوں نے اپنے حالات لکھے ہیں ، اس کے علاوہ ان کے صاحبزادے مولانا ساجد میاں ، ان کے پوتے مولانا سید محمود میاں ( شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور) ، مولانا واضح رشید ندوی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا سالم جامعی اور مولانا زاہد الراشدی جیسے اہم لوگوں کے مقالات ہیں۔دوسرا عنوان ” سید الملت کی علمی خدمات ” ہے ، جس میں ان کی حدیثی وفقہی خدمات ، اور ان کی بعض علمی تحریروں کا جائزہ لیا گیا ہے ، مقالہ نگاروں میں مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری ، مولانا ندیم الواجدی اور مولانا فیصل احمد بھٹکلی ، مولانا عطاء اﷲ کوپاگنجی اور مولوی محمد طلحہ ادروی ہیں ۔ تیسرا عنوان ” ذکر تخصصات سید الملت ” ہے ، جس میں مولانا کی تعلیمی خدمات ، مورخانہ حیثیت اور تحریک آزادی میں علمی وعملی خدمات کا تذکرہ ہے ، اس کے مقالہ نگار بالترتیب یہ ہیں ؛ مفتی جمیل احمد نذیری، ضیاء الحق خیرآبادی، پروفیسر امجد علی شاکر ، مفتی شرف الدین اعظمی اور مفتی امانت علی قاسمی۔چوتھا عنوان ” سید الملت کی ملی وجمیعتی خدمات ” ہے ، اس میں جمعیة سے مولانا کا تعلق ، ان کے قلم سے جمعیة کا تعارف ، فتنۂ ارتداد میں مولانا کا کردار اور مکاتب دینیہ کا قیام اور اس کے استحکام میں مولانا کی خدمات جیسی موضوعات پر مقالات ہیں ، پہلا مقالہ مولانا امداد الحق بختیاری کا ہے ، اس کے علاوہ مولانا کلیم صفات اصلاحی دارالمصنفین اعظم گڈھ ، مولانا عمران اﷲ غازی آبادی اور مولانا تبریز عالم حلیمی کے مقالات ہیں ۔ پانچواں عنوان : ” سید الملت کی صحافتی خدمات ” ہے ، مولانا کا تعلق تین رسالوں سے بطور خاص رہا ہے ، ایک ماہنامہ قائد مرادآباد ، جس کے وہ رئیس التحریر تھے ۔ روزنامہ الجمعیة جس کے وہ نگراں تھے ، تیسرا ماہنامہ دارالعلوم جو ان کی مادر علمی کا ترجمان تھا ۔ماہنامہ قائد پر دومقالے ہیں جو مولانا عرفات اعجاز اعظمی کی کاوش قلم کا نتیجہ ہیں ، روزنامہ الجمعیة پر میں نے ٣٥ صفحات پر مشتمل مقالہ لکھا ، اور ماہنامہ دارالعلوم پر مولوی محمد شاہد جمشید پوری کا مقالہ ہے۔، چھٹا عنوان : ” سید الملت کی نثری جہات ” ہے ، جس میں مولانا ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی، مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی اور مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی کے مقالات ہیں ۔ساتواں عنوان : ” تعارف وتجزیہ تصنیفات وتالیفات سید الملت ” ہے ، جس میں مولانا کی متعدد تصانیف کا تعارف اور ان کا جائزہ لیا گیا ہے ، پہلا مقالہ مولانا محمد عابد استاذ جامعہ اشرفیہ لاہور کا ہے جس میں سید الملت کی جملہ تصانیف کا اجمالی تعارف ہے ، سید الملت کی صاحبزادے مولانا حامد میاں آزادی کے بعد لاہور چلے گئے اور وہاں جامعہ مدنیہ قائم کیا تھا ، آج یہ جامعہ ان کی اولاد واحفاد کے انتظام واہتمام میں ہے اس لئے وہاں کے لوگوں نے بھی اس سیمینار میں دلچسپی لی اور جن لوگوں کو ویزا مل سکا وہ اس میں شریک بھی ہوئے تھے ۔ اس میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کا مقالہ سیرة محمد رسول اﷲ ۖ پر ہے،مولانامحمد اسجد قاسمی ندوی نے صحابۂ کرام کا عہد زریں ، مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے علماء ہند کا شاندار ماضی، اس کتاب پر ڈاکٹر عبید اقبال عاصم اور قاری تنویر احمد شریفی کے مقالات بھی ہیں ، مولانا عبد العظیم قاسمی نے تاریخ اسلام اور مولانا ڈاکٹر محامد ہلال قاسمی نے بزرگان پانی پت پر مقالہ تحریر کیا ہے ۔ آٹھواں عنوان : ” تعلقات سید الملت ” ہے جس میں مدرسہ شاہی ، مدرسہ امینیہ اور میوات سے مولانا کی تدریسی ودعوتی وابستگی کا ذکر ہے ، مقالہ نگار مولانا بالترتیب مولانا مفتی محمد اجمل ، مولانا مفتی ذکاوت حسین اور مولانا ڈاکٹر مشتاق تجاروی قاسمی ہیں ۔ آخری عنوان ” ماتم گساران سید الملت ” ہے جس میں مولانا نوشاد احمد معروفی نے مولانا سید محمد میاں کے انتقال پر معاصر شخصیات اور اخبار ورسائل کے تاثرات کو یکجا کردیا ہے۔
حصہ دوم میں مولانا حامدمیاں بن مولانا سید محمد میاں بانی جامعہ مدنیہ لاہور،مولانا وحید الدین خاں،مولانا سعید احمد اکبرآبادی، جناب غوث محمد ایٹوی،پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ، ناز انصاری سابق ایڈیٹر روزنامہ الجمعیة، مولانا قاضی سجاد حسین ، مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی ، مولانا محمد سعید راندیر ، مولاناسید انظر شاہ کشمیری ،مولانا فاضل حبیب اﷲ رشیدی ،ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری،مولانا قاضی اطہر مبارکپوری،مولانا نور عالم خلیل امینی،مولانا بدرالدین الحافظ نئی دہلی ، اور مولانا معزالدین احمدقاسمی کی تحریریں ہیں ۔
حصہ سوم میں مولانا کی کچھ اہم تحریریں کے نمونے جو شخصیات ، مکاتیب ، تقریظات ،اور خطبات سے متعلق ہیں ،پیش کئے گئے ہیں ۔
یہ اس ضخیم مجلہ کا ایک اجمالی اور سرسری تعارف ہے ، بقول مولانا نور عالم خلیل امینی کہ یہ جمعیة کے ذ مہ ایک قرض تھا جس کی ادائیگی دیر سہی بہتر طور پر ہوئی ۔ یہ کتاب خود جمعیة علماء ہندنے شائع کی ہے ، اسے وہاں سے اور مکتبہ ضیاء الکتب سے طلب کیا جاسکتا ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
٢٨ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ٢٨ جولائی ٢٠٢٢ء جمعرات