*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*
*نام کتاب: تذکرہ مولانا معزالدین احمد گونڈوی*
*مرتب: مولانا ڈاکٹر عبدالملک قاسمی* (واٹس اپ:9911743199)
مولانا معزالدین صاحب گونڈوی (وفات: ١٣ستمبر ٢٠٢٠ء)ایک خاموش طبع،گوشہ نشین ، عزلت پسندلیکن حالاتِ زمانہ پر گہری نظر رکھنے والے ، صاحب مطالعہ وصاحب علم وتحقیق اور ایک پالیسی سازو صائب الرائے انسان تھے ۔ مولاناکی یکسوئی اور گوشہ نشینی کی وجہ سے ان کے محاسن وکمالات اور امتیازات وخصوصیات سے بس ان سے انتہائی قریبی تعلق رکھنے والے حضرات ہی واقف تھے ، جب تک وہ زندہ تھے عام طور سے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ مولانا معزالدین صاحب کیا ہیں اور کس علمی حیثیت کے مالک ہیں؟ لیکن جب وہ اچانک ہم سے جدا ہوگئے اور ان کے قریبی احباب نے ان کے بارے میں اپنے تاثرات کوپیش کرنا شروع کیا تب لوگوں کو پتہ چلا کہ ہم نے کس غیر معمولی شخصیت کو کھودیا ہے۔ اس کے بعد سے اس کا تقاضا شروع ہوا کہ مولانا مرحوم پر لکھے گئے تمام مضامین کو کتابی شکل میں شائع کردیا جائے ۔اس کے لئے ابتدائی طور پر کچھ کوششیں بھی ہوئیں، لیکن کام تھوڑا سا ہوکر رک گیا ۔سولہویں فقہی سیمینار (منعقدہ:مارچ ۲۰۲۱ء)کے لئے میٹنگ ہوئی تو اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ مولانا مرحوم کی سوانح وخدمات پر ایک مجموعۂ مضامین مرتب کیا جائے ۔ اس کام کے لئے ایک متحرک وفعال شخصیت ، ہمارے رفیق درس مولانا عبدالملک صاحب رسولپوری ( اسسٹنٹ پروفیسر دہلی یونیورسٹی) کا انتخاب ہوا ، موصوف نے اپنے کارِ تدریس اور دیگر مصروفیات کے ساتھ ایک ماہ کی شبانہ روز محنت کے بعد ٨١٦ صفحات پر مشتمل یہ ضخیم نمبر مرتب کرکے پریس کے حوالہ کردیا ،جس پر وہ مولانا مرحوم کے تمام متعلقین ومتوسلین کی طرف سے شکرئیے اور دعاؤں کے مستحق ہیں ۔
مجلہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، حصہ اول میں مولانا مرحوم پر لکھے گئے مقالات ، تاثرات ، تعزیتی پیغامات اور منظومات شامل ہیں ۔ حصہ دوم میں مولانا مرحوم کی نگارشات شامل ہیں ، جن میں ان کے قلم سے نکلے ہوئے علمی مضامین ، سوانحی تذکرے، تنظیمی رپورٹیں اور چند کتابچے ہیں ۔اخیرکے ٤٥ صفحات میں تعزیتی پیغامات کے عکس ، اخباری تراشے اور تعلیمی کوائف کے عکس کو شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری،مولانا سید ارشد مدنی ، مفتی ابوالقاسم نعمانی اور مولانا محمود مدنی مدظلہم کے پیغامات وتاثرات ہیں ، جن میں ان بزرگوں نے مولانا مرحوم کے بارے میں بڑے بلیغ کلمات اور بلند خیالات کا اظہار فرمایا ہے ۔اس کے بعد مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری کا پیش لفظ اور مرتب کا عرض مرتب ہے ، جس میں مرتب موصوف نے ” داستان اس کتاب کی ” تفصیل سے بیان کی ہے ، اور اپنے تمام معاونین اور بطور خاص مفتی محمد سلمان منصورپوری کا شکریہ ادا کیا ہے جن کی خصوصی دلچسپی سے یہ کام ممکن ہوسکا ۔
صفحہ ٢٨ سے مقالات کا آغاز ہوتا ہے ،اس میں کل ١٩ مقالات ہیں ، پہلا مقالہ ملک کے نامور ادیب اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ مولانا نور عالم صاحب خلیل امینی کا ہے ، جو١١ صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں مولانا موصوف نے اپنے مخصوص اُسلوبِ نگارش میں مولانا معزالدین صاحب کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا ہے ۔ دیگر مقالہ نگار حضرات میں مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری ، مفتی محمد عفان منصورپوری ، مولانا عبد الحمید نعمانی ، مفتی ریاست علی قاسمی ، مولانا عبد اﷲ معروفی ، احقر ضیاء الحق خیرآبادی، مرتب مولاناعبدالملک رسول پوری، مولانا محمد شاہد اختر،مولانا محمد قاسم سعیدی ، مولانا محمد اﷲ خلیلی ، مولانا نجیب اﷲ قاسمی ، مولانا عظیم صدیقی ، مولانا اشرف علی قاسمی ، مفتی ذکات حسین قاسمی ، ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی ، مولانا عبد الباری قاسمی، مولانا محمد توصیف شاہ جہاں پوری اور مولانا ابوبکر منصورپوری ہیں ۔ان مقالات میں مولانا کی حیات کے مختلف گوشوں اور جہات پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔اس میں مولانا عبد الحمید نعمانی کے مضمون سے مولانا مرحوم کے ذوق ومزاج اور ان کے امتیازات وخصوصیات کا پتہ چلتا ہے ، کاش کہ مولانا نعمانی مزید تفصیل سے لکھتے ۔ مفتی محمد عفان صاحب کا مضمون بھی مولانا کی زندگی کے بہت سے گوشوں سے ہمیں واقف کراتا ہے۔مولانا عبد الملک صاحب نے اپنے مضمون ” حیات مولانا معزالدین احمد گونڈوی ” میں اجمالی طور پر مولانا کے تمام گوشہائے حیات پر گفتگو ہے اوران کا بہترین تعارف کرایا ہے، ٢٢ صفحات پر مشتمل یہ مضمون اس لائق ہے اسے الگ سے رسالہ کی شکل میں شائع کردیا جائے۔مولانا کے برادر نسبتی مولانا محمد قاسم سعیدی نے اپنے مقالہ میں مولانا کے خانوادہ کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔ مولانا محمد اﷲخلیلی نے ” مولانا معزالدین قاسمی اور دارالعلوم دیوبند ” کے عنوان پر مقالہ لکھا ، جس میں دارالعلوم میں مولانا کی تعلیمی زندگی کی تفصیلات، معین المدرسی کا دور ،اور مدنی دارالمطالعہ وغیرہ کی سرگرمیوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ مولانا نجیب اﷲ صاحب نے ”مولانا معزالدین احمد اور جمعیة علماء ہند” ۔مولانا عظیم اﷲ صدیقی نے” امارت شرعیہ ہند اورمولانا معزالدین احمد” اور مفتی ذکاوت حسین نے ” ادارة المباحث الفقہیہ اور مولانا معزالدین احمد”کے عنوان پر مقالے لکھے ہیں ، جس سے ان تینوں اداروں سے مولانا کی وابستگی پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے۔ مولانا مرحوم نے مدرسہ حسین بخش دہلی میں کئی سال تدریسی خدمات انجام دی ہیں ، اس پر مولانا محمد اشرف علی قاسمی کا مقالہ موجود ہے۔ مولانا معزالدین صاحب نے لکھا تو بہت کم ہے ، لیکن جو کچھ لکھا ہے خوب لکھا ہے ، وہ ایک بہترین نثرنگار تھے ، اس پر دو مقالے ہیں ، ایک ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی کا ”مولانا معزالدین قاسمی بحیثیت تذکرہ نگار” اور دوسرامولانا عبد الباری قاسمی کامقالہ ” مولانا معزالدین احمدکا اسلوب نگارش”۔
اس کے بعد ” جذبات ” کے عنوان سے ١٤ تاثراتی مضامین ہیں ، یہ سب مولانا مرحوم کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے حضرات کے ہیں ، جن میں ان کے والد ماجد ، ان کے سبھی برادران گرامی قدر، ان کی بیٹی ، بہن ، بھتیجی اور دیگر اعزا واقرباشامل ہیں۔
اس کے بعد ” تاثرات” کے عنوان سے ٣١ مضامین ہیں ، جن میں بیشتر مختصر اور چند ایک خاصے طویل ہیں۔لکھنے والوں میں مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی ،مولانا مجیب اﷲ صاحب گونڈوی، مولانا عتیق احمد بستوی ، ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی ،مولاناسالم جامعی جیسے حضرات شامل ہیں ، خود مرتب کا بھی ایک دلچسپ اور طویل مضمون اس میں شامل ہے، جس سے مولانا مرحوم کے عادات واطوار اور ان کے مجلسی احوال کا علم ہوتا ہے۔اس کے بعد تعزیتی پیغامات کا سلسلہ ہے ، جس میں ملک کی اہم شخصیات اور اداروں کے پیغامات ہیں ۔اس کے بعد ٨ تعزیتی نظمیں ہیں ، جن میں چار تو مولانا کے بھائیوں کی ہی ہیں ۔ باقی چار حضرات یہ ہیں : مولانا مودود احمد، مولانا محمد رحیق حنفی قاسمی ، مولانا رشید احمد قاسمی ، سید عزیزالرحمن عاجز۔
دوسرے حصہ میں صفحہ ٥٠٤ سے ٧٧١ تک یعنی تقریباًپونے تین سو صفحات پر مولانا کی قلمی کاوشیں یعنی ان کے مضامین ومقالات وغیرہ ہیں ، جو مختلف رسائل وجرائد میں منتشر تھے ، اب اس مجموعہ کے ذریعہ وہ محفوظ ہوجائیں گے ۔
اخیر میں مرتب کے ذوق تحقیق نے تعزیتی پیغامات ودیگر معلومات کی اصل کے فوٹو بھی دیدئے ہیں جن کی آج تو شاید زیادہ اہمیت نہ محسوس ہو لیکن یہ بعد میں محققین کے لئے خاصے کام کی چیز ثابت ہوں گے۔
یہ ہے اس مجموعہ کا ایک مختصر تعارف اور سرسری جائزہ! تاکہ ایک نظرمیں قاری مجموعہ کے مشمولات ومحتویات سے باخبر ہوجائے ، باقی اس کا تفصیلی تعارف وتنقیدی جائزہ بعد میں اہل نظر لیتے رہیں گے ۔ جیسا کہ میں نے ابتداء میں لکھا کہ مصروفیات کے ہجوم اور نہایت مختصر وقت میں یہ مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے اس لئے اس میں خامیوں اور کمیوں کا راہ پانا حیرت انگیز نہیں ہے ، کتابت کی ڈھیر ساری غلطیاں رہ گئی ہیں، کہیں کہیں ترتیب میں بھی گڑبڑی ہوگئی ہے ، اسی طرح مولانا مرحوم کی تاریخ ولادت کہیں ١٩٦١ء لکھی ہے تو کہیں ١٩٦٣ء ، جس کو جیسا علم ہوا لکھ دیا ،طبع ثانی میں اس کو درست کرلینا چاہئے ۔ مولانا مرحوم کے والدمحترم کی فراغت نور العلوم بہرائچ سے ہے ، جیسا کہ انھوں نے خود مجھ سے بیان کیا ہے ، ایک مضمون میں ان کو فاضل دارالعلوم لکھا گیا ہے ، اور دورۂ حدیث کے اساتذہ میں مولانا سیدفخر الدین صاحب وغیرہ کو بتایا گیا ہے، جو کہ خلافِ واقعہ ہے۔
یہ جو کچھ پیش کیا گیا ، نقش اول ہے ،اور انتہائی بنیادی کام ہے ، اب آگے مولانا مرحوم پر جو کچھ بھی کام ہوگا اس کی اساس وبنیاد یہی مجموعہ مضامین ہوگا ، اس کی ترتیب واشاعت پر مرتب موصوف کو ڈھیر ساری مبارکباد ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے فاضل دوست ” نقاش نقش ثانی بہتر کشد زاول ” کا مصداق بنتے ہوئے طبع ثانی کے موقع پرمذکورہ تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس مجموعہ کو خوب سے خوب تر بناکر پیش کریں گے۔ مرتب موصوف چونکہ خود طباعت کے کام سے منسلک ہیں اس لئے کتاب عمدہ کاغذ اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب مرتب موصوف اور مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
٢٧ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ٢٧ جولائی ٢٠٢٢ء بدھ