مفتی ناصرالدین مظاہری
پہلے زمانے میں پانی کی اتنی فراوانی نہیں تھی ،تقویٰ کامعیاربھی بہت بڑھاہواتھا،اس لئے پیشاب خانوں میں خاص طورپراوربیت الخلوں میں عام طورپر مٹی کے ڈھیلے رکھے جاتے تھے ،استنجاسے پہلے مٹی کے ڈھیلے استعمال کئے جاتے تھے، اس کے بعدکفایت کے ساتھ پانی کااستعمال ہوتاتھا۔مستعمل ڈھیلے روزآنہ بھنگی لے جاتاتھا۔اب نہ تواتناتقویٰ رہانہ ہی ڈھیلوں کااستعمال اتناآسان ہے۔ حضرت مولاناسیدعبداللطیف پورقاضویؒ ناظم مظاہرعلوم سہارنپورکے زمانے میں کچھ خاص کسان ان ہی کاموں کے لئے مقررتھے جواستنجامیں استعمال کے لئے پہلے مٹی تیارکرتے تھے، کیونکہ ہرمٹی استنجاکے لئے استعمال نہیں ہوسکتی ہے۔تیارشدہ مٹی کی بگھی جب مدرسہ آتی تھی توحضرت مولاناسید عبداللطیف ؒاس مٹی کا معائینہ فرماتے تھے ،مٹی کی کمیت ، کیفیت ،معیارسب کچھ پرکھنے کے بعدوصول کی جاتی تھی۔اس زمانے میںچھوٹابڑا،عالم وعامی سبھی بڑے اہتمام سے مٹی کے ڈھیلے استعمال کرتے تھے ۔
عام طورپربچپن میں پیشاب سے فارغ ہونے کے بعدقطروں کے نکلنے کامرض نہیں ہوتاہے،جوں جوں عمرپختہ ہوتی جاتی ہے عضلات ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں تاآنکہ ایک وقت ایسابھی آتاہے کہ مٹی کے ٹھیلے یاٹشوپیپرکااستعمال نہایت ضروری ہوجاتاہے کیونکہ خودانسان کوپتہ ہی نہیں چل پاتاہے کہ پیشاب سے فارغ ہونے اوراٹھنے کے بعدقطرہ نکل چکاہے۔
مظاہرعلوم میں شروع ہی سے اکابرنے مٹی کے ڈھیلوں کااستعمال اپنے اوپرلازم رکھاہے چنانچہ مشہورصاحب قلم مولاناسیدمحمدشاہدسہارنپوری اپنی پہلی محراب کاواقعہ اپنی خودنوست سوانح’’حیات مستعار‘‘میں اپنے جدمحترم حضرت مولاناحکیم محمدایوب مظاہری سہارنپوریؒ کاواقعہ لکھتے ہیں :
’’میرے داداجان مرحوم جومیری اقتدامیں بہت اہتمام سے تراویح اداکرتے تھے ،ان کوکسی ذریعہ سے معلوم ہوگیا کہ شاہدچھوٹااستنجاکرنے کے بعدمٹی کاڈھیلااستعمال نہیں کرتا،انہوں نے مجھے بلاکرتحقیق کی،میرے اعتراف کرنے پراپنے جذبۂ پاکیزگی اورمزاج شریعت کے پیش نظرخوب ڈانٹااورباربارفرماتے رہے کہ تونے میری آج تک کی سب نمازتراویح خراب کردی اورپھرانہوں نے بڑے غصہ کے ساتھ بکس میں سے اپناذاتی پاجامہ نکال کرمجھے دیااورتاکیدکی کہ آج سے روزانہ تراویح کے وقت یہ پاجامہ پہن کرآیاکرو‘‘
اورسنئے حضرت مولاناباقرعلی لکھیم پوریؒ مظاہرعلوم کے ہی فارغ تھے، تجردکی زندگی بسرکی،مطبخ کے گیٹ سے متصل داہنی جانب جودکان ہے وہی دکان آپ نے کرائے پرلے رکھی تھی ،طلبہ کے کام آنے والی چیزیں،پوسٹ کارڈوغیرہ برائے فروخت رکھتے تھے ۔آپ کی شکل بالکل حضرت مولانامسیح اللہ خان جلال آبادیؒ سے مشابہ تھی،اول وہلہ میں اگرکوئی آپ کواچانک دیکھ لیتاتوسمجھتاکہ حضرت جلال آبادی ہی ہیں۔آپ کے تقویٰ اورتقدس کے بڑے واقعات اب بھی سہارنپورکے دیندارلوگوں کی زبانوں پرہیں ۔حالانکہ آپ مظاہرعلوم کے جوارمیں رہتے تھے جہاں بلامبالغہ کئی درجن مساجدہیں لیکن ؒہرنمازکے لئے دوکلومیٹرکے فاصلے پرمسجدکمنگران جاتے تھے ،کمنگران کی مسجدمیں ساری نمازیں اتنے اہتمام اورمشقت سے پڑھنے کی وجہ کسی نے معلوم کرلی توجواب دیاکہ کمنگران کی مسجدکے امام صاحب کے بارے میں مجھے تحقیق سے معلوم ہوا ہے وہ استنجے میں مٹی کے ڈھیلوں کااستعمال فرماتے ہیں ۔
اندازہ کیجئے عمرکےاُس مرحلہ میں ہیں،جب چلناپھرنادشوارہوجاتاہے،اٹھنابیٹھنامشکل ہوجاتاہے،آپ اتنی دورنمازپڑھنے کے لئے صرف اس وجہ سے تشریف لے جایاکرتے تھے ۔ایک ہم ہیں،ہماری حالت ہے،تقویٰ خودہم سے پریشان ہے،فتویٰ ہماری عادات اورہمارے معمولات پرحیران ہے،کیاطہارت اورکیاپاکیزگی،کیاسنت اورکیامستحبات،بس ایک روٹین ہے،ایک عادت ہے،ایک فرض ہے جس کوخواہی نخواہی انجام دینے کی مجبوری ہے ،کون ہے جس کادل نمازسے فارغ ہوکرمسجدمیں ہی اٹکارہے ،کون ہے جس کاجسم تومسجدسے نکل رہاہو اوراس کادل پھربھی مسجدمیں معلق رہے۔کون ہے جس کونمازکے آداب کی اس قدررعایت اورخیال ہو؟
یہاں بات صرف پانی سے استنجاکے جوازاورعدم جوازکی نہیں ہورہی ہے ،بات صرف احتیاط کی ہورہی ہے ،اوریہ صرف میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہاہوں دارالعلوم دیوبندکے دارالافتاسے کسی نے اس بابت سوال کیاتوانہوں نے بھی جواب کہ
’’ صرف پانی سے بھی استنجاء کرنا شرعاً جائز ہے؛ ہاں پانی استعمال کرنے سے پہلے کچھ دیر بیٹھ کر عضو کو حرکت دے کر، کھنکارکر اچھی طرح استبراء کرلینا چاہیے؛ تاکہ پیشاب کے قطرات اندر باقی نہ رہیں۔ لیکن بہرحال بہتر یہ ہے کہ اولاً مٹی کے ڈھیلے یا ٹشوپیپر وغیرہ کے ذریعے پیشاب (وغیرہ) کو اچھی طرح سکھالے (صاف کرلے) پھر پانی سے دھولے ثم الجمع بین الماء والحجر أفضل، ویلیہ فی الفضل الاقتصار علی الماء ویلیہ الاقتصار علی الحجر وتحصل السنة بالکل وإن تفات الفضل کما أفادہ في الإمداد وغیرہ (شامي: ۱/۵۵۰، ط: زکریا)
جب بات احتیاط اورمٹی کے ڈھیلوں کے استعمال کی چل ہی پڑی ہے تومیرے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ اورحضرت مولاناعبدالمالک مظاہری سہارنپوریؒکاذکرنہ کروں،یہ دونوں حضرات پابندی کے ساتھ مٹی کے ڈھیلے استعمال فرماتے تھے اوراگرکہیں کسی پروگرام یاکسی مدرسہ میں امتحان وغیرہ کے لئے سفرمیں جاناپڑاتواپنے تھیلے میں اپنے ذاتی ڈھیلے رکھ کرجاتے تھے کیونکہ ان حضرات کویہ بھی گوارا نہیں تھاکہ سفرمیں بغیرڈھیلوں کے استنجاکرلیاجائے اورنہ ہی یہ گوارا تھاکہ کسی کے کھیت سے بغیراس کے مالک کی اجازت کے مٹی استعمال کرلی جائے۔