سلسلہ تعارف کتب (33): علماء اور طلبہ کے لئے فکرانگیزاور کارآمد باتیں

*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*

*نام کتاب : علماء اور طلبہ کے لئے فکرانگیزاور کارآمد باتیں* (ترجمہ وتلخیص)

صفحات: ٣٤٤ قیمت : ٣٠٠

*مؤلف: شیخ محمد عوامہ حلبی*

*تلخیص وترجمانی: مولانامفتی محمد سلمان منصور پوری*

زیر نظرکتاب ”علماء اور طلبہ کے لئے فکرانگیزاور کارآمد باتیں” مشہور محدث ومحقق شیخ محمد عوامہ الحلبی کی معرکة الآرا تصنیف ” معالم ارشادیة لصناعةطالب العلم ” کے منتخب مضامین واقتباسات کی شستہ وشگفتہ اور رواں اسلوب میں تلخیص وترجمانی ہے ۔ فاضل مترجم مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری استاذ دارالعلوم دیوبند ملک کے ممتاز عالم وفقیہ ہیں ، اردو وعربی دونوں زبانوں کے ادیب ہیں ۔ انھوں نے اس کمال مہارت اور سلیقہ مندی سے ترجمانی کی ہے کہ اصل عربی عبارت کی پوری روح اردو پیکر میں قارئین کے سامنے آگئی ہے ،اور ترجمہ کے بجائے مستقل تصنیف کا گمان ہوتا ہے ۔

” معالم ارشادیة لصناعةطالب العلم ” کے مؤلف شیخ محمد عوامہ عصر حاضرکے ممتاز علماء ومحققین میں سے ہیں ، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ اور مولانا حبیب الرحمن الاعظمی جیسے اساطین علم سے شرف تلمذ رکھتے ہیں ، ہندوستانی علماء اور ان کی تصانیف سے خاص تعلق ہے ، چند سال قبل جب وہ ہندوستان تشریف لائے تھے تو مسجد رشید دارالعلوم دیوبند میں ان کی زیارت اور تقریر سننے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اپنے تاثرات میں مفتی محمد عفان منصور پوری نے اس کتاب کا بڑا جامع تعارف کرایا ہے :

” ….اس میں علم دین کی عظمت اور قدر ومنزلت ، علماء اور اساتذہ کی فضیلت اور ان کی مجالس علمیہ کی اہمیت وافادیت کا ذکر کرتے ہوئے دین اورعقیدے کے تحفظ اور اشاعت حق کی راہ میں ان کے قابل فخر کارناموں اور علمی مصروفیات میں انہماک کے قابل تقلید جذبات کوواقعات کے آئینہ میں اتار کر ایسے خوبصورت اور محقق انداز میں پیش کیا ہے ، جس کو پڑھ کر ذوق علم پروان چڑھتا ہے اور علم واصحاب علم کی عظمت کا سکہ دل پر بیٹھتا چلا جاتا ہے۔ ”

کتاب کے مترجم مولانا مفتی سلمان صاحب نے بطور خاص کتاب انھیں مضامین کو پیش کیا ہے جو طالبان علوم نبویہ اور علماء کرام کے لئے افادیت واہمیت کے حامل ہیں اور عصر حاضر میں جن کی بہت ضرورت ہے ۔ کتاب چار ابواب اور اختتامیہ پر مشتمل ہے ، کتاب کا آغاز مترجم کے پیش لفظ سے ہوتا ہے،اس کے بعد کتاب کی مکمل فہرست ہے ۔ فہرست کے بعد مولانا سید ارشدمدنی ،مولانا نعمت اﷲصاحب اعظمی، مولانا سید محمد رابع حسنی ، مفتی شبیر احمدصاحب اور مفتی محمد عفان منصورپوری کی تقریظات وتاثرات ہیں ۔

پہلا باب: علم دین کی اہمیت وفضیلت ( اس میں دو فصل ہے)۔

دوسرا باب: طلبہ عزیز کے لئے نشانِ راہ ( یہ کتاب کا نہایت اہم باب ہے ، اس میں تمہید اور ١٣ فصلیں ہیں) ۔

تیسرا باب : طالب کی تربیت میں استاذ کا کردار ( اس میں تمہید اور ١٥ فصلیں ہیں) ۔

چوتھا باب: طلبہ کی روحانی تربیت ( بے حد اہم باب ہے ، یہ ٦ فصلوں پر مشتمل ہے)۔

اختتامیہ اس کا عنوان ہے ” ایک اہم اور جامع وصیت نامہ ” اختتامیہ چار صفحات پر مشتمل ہے۔

پوری کتاب نادر ونایاب معلومات وواقعات کا خزینہ ہے ، خاص کر مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ آج کی ڈیجیٹل زندگی ، آن لائن تعلیم ، جدید ذرائع ووسائل کو من مانے انداز میں استعمال کرنا ، جیسے حساس بلکہ بعض اعتبار سے نوجوانان ملت کے لئے انتہائی سنگین نقصانات کے احتمالات پر شیخ محمد عوامہ نے بہت بصیرت افروز گفتگو کی ہے،یہ بالکل درست ہے کہ تعلیم وتعلم کا جو نبوی مزاج ہے اس سے ہٹ کر تعلیم سے معلومات تو حاصل ہوسکتی ہیں لیکن تربیت اور دینی مزاج کا حصول انتہائی دشوار ہے۔ شیخ نے سلف صالحین کی روش سے ہٹ کرمحض جدید تحقیقات پر اعتماد کرنے اور حوالہ دینے کو خطرناک رویہ قرار دیا ہے ،انھوں نے مدرسہ اور جدید تعلیمی اداروں کے درمیان فرق کو بھی واقعات کی روشنی میں ظاہر کیا ہے۔ کتاب کے مضامین کے ساتھ جگہ جگہ قوسین میں خود مفتی صاحب کی تعلیقات ہیں جو مختصر ہونے کے باوجود نہایت مفید ہیں ، مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں :

” اﷲ تعالیٰ نے اسباق کی حاضری میں بے مثال برکت رکھی ہے ، ہم نے دیکھا ہے کہ بسااوقات کم ذہن والا طالب علم سبق میں حاضری کی برکت سے آگے نکل جاتا ہے ، جب کہ بڑے بڑے ذہین طلبہ حاضری کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں ، اس لئے ہر طالب علم کو بہر حال حاضری کی پابندی کرنی چاہئے اور بلا شدید عذر کے ناغہ نہیں کرنا چاہئے۔ ”

خطیب بغدادی نے امام وکیع بن الجراح کا یہ قول نقل کیا ہے : لایکون الرجل عالماً حتیٰ یکتب عمن ھو فوقہ و عمن ھو دونہ و عمن ھو مثلہ ۔ آج کے اس دور میں جب کہ حوالوں میں دھاندلی کا عام رواج ہے، مفتی صاحب کی یہ بات دل کو بے حد اپیل کرتی ہے:

” یہ بہت بڑی نصیحت ہے ، کیونکہ بہت سے لوگ اپنی کتابوں وغیرہ میں اپنے ہم عصروں یا اپنے چھوٹے لوگوں کا حوالہ دینے میں اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ، اور ان کی تحریرات سے استفادہ کے باوجود ان کا ذکر نہیں کرتے ،تو یہ علماء کاملین کی شان نہیں ہے ۔ہونا یہ چاہئے کہ جو بات جہاں سے ملے اسی کے حوالے سے نقل کی جائے ، چاہے وہ لکھنے والا کسی بھی درجہ کا ہو ۔ اگر اس کا اہتمام کیا جائے تو ان شاء اﷲ علم میں برکت ہوگی ۔ ”

میرے لئے یہ کتاب

زفرق تا بہ قدم ہرکجا کہ می نگرم

کرشمہ دامن دل می کشد کہ جاینجااست

(سر سے پیر تک جہاں بھی دیکھتا ہوں ، اس کی ہر ہرخوبی دامن دل کواپنی طرف کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ تو یہ ہے)

کا مصداق ہے ، اس لئے اس مختصر تعارف میں اس سے زیادہ نقل واقتباس کی گنجائش نہیں ہے۔ قاری صدیق احمد صاحب کا مختصر رسالہ ” آداب المتعلمین ” جو نہ جانے کتنی بار پڑھا ہے ، اس کے بعد جب اس کتاب کو پڑھا تو اس میں وہی کشش محسوس ہوئی ، ایک بار پڑھ چکا ہوں ،اور بار بار پڑھنے کی آرزو ہے۔اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر میری خواہش ہے کہ یہ کتاب ہر طالب علم اور استاذ کے پاس ہو، بلکہ ہر گھر میں رکھنے اور روزانہ پڑھ کر سنانے کی چیز ہے ، کردار سازی اور شخصیت کی دینی واخلاقی نہج پر تشکیل میں یہ کتاب بہت اہم کردار ادا کرے گی ۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ

کتاب کی طباعت بھی نہایت اعلیٰ اور نفیس ذوق کی آئینہ دار ہے، اس کے باطن کی طرح ظاہر بھی بے حد جاذب نظر ہے ، طباعت دو کلر میں انتہائی اعلیٰ اور معیاری ہے، کاغذ بھی اعلیٰ کوالٹی کا ہے ، جلد ،ٹائٹل سب حسن ذوق کا نمونہ ہیں، اس معیار پر کم کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ مؤلف وناشر اس اعلیٰ ومعیاری طباعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کتاب مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد، فرید بک ڈپو دہلی اور دیوبند کے اکثر کتب خانوں پر دستیاب ہے۔

ضیاء الحق خیرآبادی

۲۶/ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۶/جولائی ۲۰۲۲ء منگل

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے