مفتی ناصرالدین مظاہری
خبرملی کہ دفترمظاہرعلوم وقف میں بہت سی قدیم کتابیں، نادر رسالے اورکہنہ وبوسیدہ کتابچے بغرض تقسیم آئے ہیں، بھاگا بھاگا دفترپہنچا،ایک گوشے میں تقریباً ایک چھوٹاٹرک کتابوں اوررسالوں کاانبارتھا،طلبہ من پسند چیزیں اس انبارسے نکال نکال کراپنے قبضے میں لے رہے تھے،میں بھی اس کام میں لگ گیا،بہت سے رسائل، کتابیں اور کتابچے ہاتھ آئے ، اس ذخیرہ میں کام کی کتابیں توکم ہی تھیں لیکن رسائل شایدمیں نے اتنی بڑی مقدارمیں پہلی باردیکھے تھے، صوفی، االاحسان، برہان، البرہان، الفرقان، آستانہ، نیادور، راہی، راہنما،رہ گزر، الاصلاح اورخدا جانے کتنے رسائل کا ذخیرہ کسی تازہ تازہ وارث نے لاکرطلبہ کے رحم وکرم پرمدرسہ میں لاچھوڑاتھا،کتابیں ہوتیں تومدرسہ خودہی اپنی تحویل میں لے لیتا لیکن رسائل وہ بھی بے تربیت،کتابچے وہ بھی کہنہ ، بھلاکتب خانہ کے اہل انتظام کب کسی ادارے میں اتنے باذوق رہے ہیں ۔
ہرکتاب اورکتابچہ،ہرمیگزین اوررسالہ پر’’ محمدصادق آفریدی‘‘ ضرورلکھا ہوا دیکھا،ہم طلبہ کواس نام سے کیامطلب تھا’’غواص کومطلب ہے صدف سے کہ گہرسے‘‘ کام کی کچھ ہی چیزیں لیں، زیادہ ترمحض اس لئے چھوڑدیں کہ کمرے میں رکھنے کے لئے اتنی جگہ ہی نہیں ملتی تھی ۔
ایک زمانے کے بعدکبھی حضرت مولانااطہرحسینؒ کی خدمت میں اورکبھی حضرت مولانامحمدسعیدی کی خدمت میں اُن کاذکرخیرسنتارہا۔یہ صاحب اصلاً پشاورکے رہنے تھے ، خداجانے یہاں کب سے تھے اوروفات کب ہوئی،اندازہ یہی ہے کہ جب کتابیں مدرسہ پہنچائی گئی تھیں اسی کے آس پاس انتقال ہواہوگا۔آپ حکیم تھے اورکوئی ایسے وایسے حکیم نہیں تھے بڑے اللہ والے،بڑے ذاکر و شاغل،بڑی خوبیوں اور کمالات کے مالک ،عامل کامل، صوفی مرتاض، آپ کوکیمیا کافن اورہنراللہ تعالیٰ نے بخشاتھا، عام طورپرجامع مسجد سہارنپورکے اس حجرہ میں رہتے تھے جو شرقی جانب واقع ہے اورجس میں آج کل موجودہ امام صاحب قیام فرماتے ہیں۔ ان کے پاس مؤکل بھی تھے، چنانچہ بارہا ایساہواکہ اچانک مہمان آگئے، کوئی خادم موجودنہیں ،مہمان سے فرمایاکہ کھانے پینے کے معاملہ میں جس چیزکی خواہش اورفرمائش ہوبتاؤاورآنکھیں بندکرلو، ادھرمہمان اپنی فرمائش رکھتا آنکھیں بندکرتا ادھرمطلوبہ چیزیں دسترخوان پر حاضر ہوجاتیں۔
بڑے اللہ والے تھے ،اس زمانے میں جب غربت کی حکومت تھی، آپ کیمیاکے ذریعہ سوناتیار کرتے تھے ،اس سونے کوفروخت کرکے مدارس اورغربائ کی خوب مددکرتے تھے ،خاص کرنعمت پورسہارنپورکے مدرسہ انوارالقرآن پرتوآپ کی کچھ زیادہ ہی عنایات اورتوجہات تھیں۔اس مدرسہ کی خوب مددکرتے ، آڑے وقتوں میں کام آتے، لالچ بالکل نہیں تھا،کتنے ہی لوگوں نے چاہاکہ انھیں کیمیا کا طریقہ اورنسخہ معلوم ہوجائے لیکن کسی کوبھی گویاگھاس نہیں ڈالی۔
بڑی نادراورنایاب کتابیں حکمت کی آپ کے پاس تھیں،بہت سے نسخے آپ ہی کے تیارکردہ دواؤں کی شکل میں رہتے تھے،مریضوں کوشفا بھی خوب ہوتی تھی ۔میں نے ابھی لکھاہے کہ آپ بہترین عامل بھی تھے چنانچہ آپ کوایک کتاب ’’ہفت ابواب‘‘ کی ضرورت تھی، ہفت ابواب کااس زمانے میںاصلی نسخہ کہیں نہیں مل رہاتھا،چنانچہ آپ نے ایک اورعمل کیا،جس کانام ’’صلوۃ معکوس ‘‘ بتایا، صلوۃ معکوس کاعمل کسی سنسان کنویں میں رات کی تاریکی میں الٹا لٹک کرکرنا پڑتاتھا،حکیم محمدصادق آفریدی نے یہ عمل کیا،عمل میں کامیاب ہوئے ،مؤکلوں کوہفت ابواب کی تلاش اورجستجو اورحاضر کرنے کاحکم دیا۔من جدوجد،کتاب حاصل ہوگئی ، خودہی کتاب کے اس حصول کاذکربڑے مزے سے کیا کرتے تھے۔
نیکی کااثردورتک ہوتاہے ،بلکہ باپ کی نیکیاں بیٹوں کے کام آجاتی ہیں چنانچہ آپ کی اولادیابعض اولادنے مملکت ہندکوخیربادکہا،قطرمیں سکونت پذیرہوئی ،اولادنے وہاں کچھ زمین خریدی،اللہ کی مرضی کہ ان کے کھیت میں سونابرآمد ہوگیا،قطری حکومت نے اس کھیت پرقبضہ کرناچاہا،کھیت کے مالکان مقدمہ جیت گئے اورگویااس طرح اللہ تعالیٰ نے نیکی کابدلہ اولادکوعطافرمادیاکہ جس کے والدماجدنے کبھی کیمیاکے ذریعہ عیش کوشی نہیں کی،صرف غرباء اور مدارس کی اعانت کی،جس نے اپنی اولادکوبھی اس فن سے محروم رکھاکہ کہیں اولاد مطلوبہ پابندیاں،حدبندیاں اورشرطیں پوری نہ کرسکے اورکسی خدائی آزمائش میں مبتلاہوجائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی اولاد کے لئے اسی کے کھیت سے سوناپیدافرمادیا۔
حکیم محمدصادق آفریدی نے حضرت مولاناسیدمحمدسلمان سہارنپوریؒ کوبھی گودمیں کھلایا تھا،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مطفرحسینؒ سے عمرمیں بہت بڑے تھے، حضرت مفتی صاحب کے پاس تشریف بھی لایاکرتے تھے اورایک دن حضرت ہی کے ہاتھوں پربیعت بھی ہوئے۔
اللہ تعالیٰ حکیم محمدصادق آفریدی پشاوری کوجنت الفردوس میں اعلی ٰ مقام نصیب فرمائے۔مزیدحالات معلوم ہوگئے توان شاء اللہ پیش کروں گا،آپ حضرات میں سے کسی کوان کے کچھ حالات معلوم ہوجائیں تومجھے ضرورمطلع فرمائیں۔