*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*
نام کتاب:گلستانِ قناعت
مصنف: علامہ محمد موسٰی روحانی بازی(وفات: ١٩ اکتوبر ١٩٩٨ئ)
دنیاوی زندگی چند روزہ اور فنا ہوجانے والی ہے،اس کا مقصود آخرت کی تیاری اور اﷲ کی خوشنودی کا حصول ہے،اس کے ذرائع زہد و قناعت ،تقویٰ وللٰہیت ،رضا بالقضا، حب اﷲ وحب الرسول وغیرہ ہیں،زیرنظر کتاب ”گلستانِ قناعت”میںقناعت وحب آخرت کے فوائد،زہد وتقویٰ کے ثمرات اور رضا بالقضا کی برکات تفصیل سے پیش کی گئی ہیں ۔قناعت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ انسان کو اﷲ کی طرف سے میسر آجائے اس پر مطمئن اور صابر وشاکر رہے،اس کے مقابلہ میں حرص وطمع ہے،کہ انسان کسی حال پر مطمئن نہ ہو۔
مؤلف کتاب اس کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ :یہ کتاب ایک استفتاء کا جواب ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے،”قناعت کے حکم شرعی ،معاملۂ رزق میں توکل علی اﷲ، رضا بتقسیم اﷲ کے فوائد دنیویہّ واخرویہ ّ ، حرص دنیا وترک قناعت کے تباہ کن نتائج کی ایسی تحقیق وتفصیل سے مطلع کیا جائے جو علمی تحقیقات کے ساتھ ساتھ اصلاحی ، تبلیغی، اخلاقی مواعظ و نصائح پر بھی مشتمل ہو،تاکہ اس جواب سے اہل علم ودانش کے علاوہ عوام بھی پوری طرح استفادہ کرسکیں۔”
یہ کتاب اسی مذکورہ موضوع سے متعلق آیات قرآنیہ ،احادیث ِ نبویہ ، اقوالِ صالحین،مواعظ عارفین، حکایات متقین، کراماتِ اولیاء کرام اور واقعات ائمۂ عظام کا نہایت مفید، روح پروروایمان افروز ذخیرہ وگنجینہ ہے۔
اس کتاب کے مصنف شیخ الحدیث حضرت مولانا موسیٰ روحانی بازی…جو ہندوستان میں زیادہ متعارف نہیں ہیں …پاکستان کے جلیل القدر علماء اور عبقری شخصیات میں سے تھے، علم وعمل دونوں کے جامع تھے ،میری ان سے ملاقات ان کی وفات سے چند ماہ قبل اگست ١٩٩٨ء میں ہو ئی تھی ،نہایت روشن ومنور چہرہ ،بڑے ہی خلیق ومتواضع ،دھیمے دھیمے لہجے میں دیر تک گفتگو فرماتے رہے، دل ان سے بہت متاثر ہوا،بلا شبہ وہ ان خاصان خدا میں سے تھے جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے ۔مولانا صوبہ سرحد کے ڈیرہ اسماعیل خاں کے ایک گاؤں کٹہ خیل میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی ، مزید تعلیم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں حاصل کی ، دورۂ تفسیر راولپنڈی میں مشہور مفسر مولانا غلام اﷲ خاں سے پڑھا ، تعلیم کی تکمیل مدرسہ قاسم العلوم ملتان سے کی ۔ مولانا موصوف کی قوت حفظ ، غیر معمولی ذہانت وطباعی اور حیرت انگیز علمی واقعات پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دورکے انسان نہیں تھے، صدرا ، شمس بازغہ اور خیالی جیسی مشکل کتابیں حفظ یاد تھیں ۔پاکستان کے متعدد مدارس میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد وہ جامعہ اشرفیہ لاہور آگئے ، یہاں ان کے اسباق میں بیضاوی اور ترمذی شریف کے درس کی بڑی شہرت تھی ، دور دور سے شائقین اس میں شریک ہوتے تھے۔ بیضاوی کی شرح ” ازہار التسہیل ” پچاس جلدوں میں لکھی ، جس کا مقدمہ ” اثمار التکمیل ” دو جلدوں میں لکھا ۔ اپنی ایک کتاب میں ان علوم کا ذکر کیا جن پر ان کو عبور حاصل تھا ، میں نے ان کو شمار کیا تو ان کی تعداد ٣٥ تھی ۔ ایک کتاب فتح الصمد بنظم اسماء الاسد ہے ، اس میں دو سو اشعار میں شیرکے ٦٠٠ نام استعمال کئے ہیں۔ فلکیات جدیدہ پر بھی مولانا کی کتابیں ہیں۔ ان کی بیشتر کتابیں عربی میں ہیں ۔ٹیلی گرام پر” مکتبہ مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی” سے ان کتابوں کو لوڈ کرکے مولانا کی جلالت علمی کا کسی قدر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
سفر لاہور کے موقع پر مولانا مرحوم نے یہ کتاب مولانا جمیل احمد سکروڈوی ( شارح ہدایہ )کو عنایت فرمائی اور مولانا نے اس کی اہمیت محسوس کرتے ہوتے ہوئے اسے اپنے ”مکتبہ البلاغ ” سے شائع کیا، کتاب ٦٠٠ صفحات پر مشتمل ہے ، اور مکتبہ البلاغ دیوبندسے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
٢٥ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ٢٥ جولائی ٢٠٢٢ء دوشنبہ