ہندوستانی مسلمانوں کی نئی صبح کا آغاز کب اور کیسے؟

 بقلم: امدادالحق بختیار ([1])

ہندستان اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے ایک ایسا ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب، تہذیبوں اور الگ الگ زبان بولنے والے انسانی طبقات ہزاروں سال سے رہتے ہوئے آئے ہیں، یہ ایک چمن کی طرح ہے، جس میں بھانت بھانت کے پھول ہوتے ہیں، یہ رین بو کی طرح ہے، جس کی خوبصورتی مختلف رنگوں سے مل کی نمایاں ہوتی ہے، یہ ملک کثرت میں وحدت کا حسین منظر پیش کرتا ہے، یہاں مسجد کے میناروں سے اذان کی صدائیں بھی گونجتی ہیں اور مندر سے پوجا کے گیت بھی سنائی دیتے ہیں، یہاں چرچ بھی آباد ہیں اور گردوارے بھی شاداب ہیں۔ محبت، اخوت اور بھائی چارگی یہاں کی قوم میں قدر مشترک وصف پایا جاتا ہے۔

لیکن پچھلے چند سالوں سے اس امن و محبت کی فضاء میں نفرت کا زہر گھول دیا گیا ہے، ایک ہی رنگ میں پورے ملک کو زبردستی رنگنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں سے منسوب ایک ایک چیز کو مٹانے اور ان کی شبیہ خراب کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے، مسلمانوں کی تہذیب اور ان کا پرسنل لا کانٹے کی طرح ان کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے، کبھی طلاق پر، کبھی حجاب پر، کبھی اذان تو کبھی مساجد کے وجود پر ہی حملہ ہو رہا ہے، مسلمانوں کے ایک ایک امتیاز کو ختم کر کے انہیں ’’ ہندوانے ‘‘ کی منظم سازشیں ہو رہی ہیں۔

تعلیمی، اقتصادی اور معاشی طور پر مسلمانوں کی کمر توڑی جا چکی ہے، پورے پلان کے ساتھ انہیں حاشیے پر لانے اور بے قیمت شہری، دوسرے الفاظ میں غلام بنانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے، ایک شہری ہونےکی حیثیت سے ملک ہندوستان میں ان کے جتنے حقوق ہو سکتے ہیں، ایک ایک کر کے سب سے محروم کرنے اور مفلوج بنانے کی منصوبہ بندی (Planning)جاری ہے۔

ایسی تکلیف دہ صورت میں ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ ان بد ترین حالات سے کیسے نکلے ، یہ خوفناک اندھیرا کب ختم ہو گا اور ایک نئی صبح کا آغاز کب ہو گا ؟

اس اہم سوال کے جواب کے لیے مسلمانوں کو دو طرح سے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے: ایک یہ کہ انہوں نے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے تقاضوں کو کتنا پورا کیا اور اپنی اسلامی ذمہ داری کس حدتک ادا کی؟ دوسرے یہ کہ ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے آزادی کے بعد سے انہوں نے کس طرح کی زندگی گزاری؟

پہلے ہم دوسرے سوال پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے بتدریج ہمارے اندر لا پرواہی، بے شعوری اور غفلت بڑھتی چلی گئی ہے، ملک کے انتظامی شعبوں میں ہماری نمائندگی کم سے کم تر ہوتی گئی، تعلیم کی طرف ہم نے ایک رسم سے زیادہ توجہ نہیں دی، ہم نے ہمیشہ اپنے حقوق دوسروں کے سہارے  مانگنے کی کوشش کی ہے، کبھی خود اپنے آپ کو اس لائق بنانے کی طرف توجہ نہیں کی، آج صورت حال یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی انتظامی اور خدمت کے شعبہ میں ہماری نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، ہم اپنی بچیوں کو صرف شادی کے لیے مڈل اسکول تک پڑھاتے ہیں، اپنے بچوں سے وقت سے پہلے کمانے اور پیسے دینے کی خواہش اور طلب رکھتے ہیں، اہل ثروت کے کچھ بچے پڑھتے بھی ہیں تو وہ بھی قوم، ملت اور ملک کی خدمت کا جذبہ نہیں رکھتے، یا تو خاندانی روایات کے مطابق صرف تعلیم مقصود ہوتی ہے یا کوئی پرکشش جاب(Job)۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں منظم اور منصوبہ بند تعلیم کا کوئی سسٹم (System)نہیں ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر علاقہ سے کچھ بچے وکالت کی تعلیم حاصل کرتے، کچھ بچے جج بننے کی کوشش کرتے، کچھ بچے ڈاکٹر بنتے، کچھ سول سروسز میں جاتے، کچھ ڈیفنس میں داخل ہوتے، کچھ سیاست میں پنجہ آزمائی کرتے ، ایک منظم انداز سے ملک کے ہر شعبہ میں ہماری نمائندگی ہوتی ، ہمیں اپنے ہر معاملہ کے لیے دوسروں کا سہارا نہ لینا پڑتا؛ لیکن افسوس کہ ہماری طویل غفلت نے ایسا ہونے نہ دیااور افسوس بالائے افسوس یہ کہ ابھی بھی ہم اسی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

دوسرا سوال کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم نے اپنی ذمہ داری کتنی ادا کی؛ بلکہ خود اپنے آپ کو اسلام پر کتنا باقی رکھا، یہ پہلے سوال سے بھی زیادہ اہم ہے، اس پہلو کا اگر ہم محاسبہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہماری ایک بڑی تعداد صرف نام اور چند رسم ورواج کے اعتبار سے مسلمان ہیں، ان میں اسلام کی کوئی خوبی نہیں پائی جاتی، نہ اسلامی اخلاق ان میں نظر آتا ہے، نہ اسلامی معاملات کی ان کو ہوا لگی ہے، نہ ہی اسلامی معاشرت سے وہ واقف ہیں؛ بلکہ اسلامی عبادات اور عقائد میں بھی بڑی حد تک کمی اور کوتاہی پائی جارہی ہے،آج مسلمان کے اخلاق اور معاملات کی حالت یہ ہے کہ اگر اس کے اخلاق اور معاملات کو کسی کاغذپر لکھ دیا جائے اور اس کا نام نہ لکھا جائے تو شاید کوئی جان سکے کہ یہ کسی مسلمان کے حالات ہیں یا  غیر مسلم کے!

یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی سنگین صورت حال کے بڑے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہماری غفلت اور اسلامی نظام سے دوری کی وجہ سے ہمارے اوپر یہ برے حالات آرہے ہیں: قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ. (سورة الرعد/ 11)

بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی بہتر حالت کو اس وقت نہیں بدلتے، جب تک کہ وہ خود اپنے اعمال کو نہ بدل دیں، اور جب اللہ تعالی کسی قوم کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا، اور اللہ کے سوا اس قوم کا کوئی مدد گار نہیں ہوسکتا۔

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. (سورة الانفال/ 53)

اللہ تعالی نے کسی قوم کو جو نعمت عطا کی ہے، وہ اس نعمت کو اس وقت تک نہیں بند کرتا؛ جب تک کہ وہ قوم خود اپنے اعمال نہ بدل لے اور بے شک اللہ تعالی ہر بات سننے والا اور ہر حال کو جاننے والا ہے۔

ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسلام سے دوری اختیار کی ، اپنے اعمال بدل دیے تو اللہ تعالی نے بھی اپنا انعام روک لیا اور ہم برے حالات کے شکار ہوگئے۔

لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر ہم نے اپنے حالات سنوار لیے، ایک سنجیدہ، فکر مند شہری اور ذمہ دار مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی زندگی کی نئی شروعات کی تو یہ تمام برے حالات چھٹ جائیں گے، تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی، مسلمان اپنی زندگی کے خوش حال اور با وقار دور میں داخل ہو جائے گا، اللہ تعالی کی مدد آئے گی ،  ہمارے ساتھ خدائی طاقت ہوگی، دنیا کی تمام چیزیں ہمارے تابع ہوں گی ، ہم سر بلند اور سرخ رو ہوں گےاور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی؛ چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (55) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (56) لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ (سورة النور/ 57)

الله تعالی نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے ، یہ وعدہ کیا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ضرور زمین کی خلافت اور سیادت عطا کرے گا، جیسے پہلے بہت سوں کو عطا کی ہے، اور ان کے مذہب کو جو اللہ کا پسندیدہ مذہب ہے، دنیا میں غالب کرے گا، اور ان کے خوف اور دہشت کی حالت کو امن میں تبدیل کردے گا؛ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کریں، اس کے بعد بھی جو کفر کو اختیار کرے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہوں شمار ہوں گے، نیز نمازیں قائم کرو، زکات ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، یقیناً تم پر رحم کیا جائے گا، اور یہ ہر گز مت سمجھو کہ یہ کافر لوگ ہمیں دنیا میں مغلوب کر دیں گے ، خوب جان لو کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا انجام ہے۔

اس آیت کو غور سے پڑھنا چاہیے اس میں مسلمانوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنا چاہیے، ان شاء اللہ وہ وعدہ بھی پورا ہو گا جو اللہ تعالی نے اس آیت میں بیان کیا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی مسلمانوں کو خوش خبر سناتے ہوئے  فرماتے ہیں:

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ. (سورة آل عمران / 139)

نہ ہمت ہارو اور نہ غم کرو، تم ہی سر بلند رہو گے بس شرط یہ ہے کہ تم ایمان والے بن جاؤ۔

یہ آیت ہمیں صبح نو کا پتہ دیتی ہے، کس طرح یہ بد تر حالات ہم سےدور ہو سکتے ہیں اور کیسے ہم امن و امان اور عزت ووقار کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں ہمت اور طاقت کہاں سے مل سکتی ہے، ہمارے غم کیسے دور ہو سکتے ہیں، ہماری سر بلندی کا راز کیا ہے اور ہماری زندگی کی نئی صبح کا آغاز کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ آیت ہماری بہترین رہبری اور رہنمائی کر رہی ہے، بس نصیحت قبول کرنے والے دل کی ضرورت ہے۔


([1]) رئیس تحریر عربی مجلہ ’’ الصحوۃ الاسلامیۃ‘‘و استاذ حدیث وعربی ادب جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد – انڈیا،

Mob: +91 9032528208E-mail: ihbq1982@gmail.com

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے