حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسارپوریؒ اورمظاہرعلوم سے مربوط کچھ یادیں

مفتی ناصرالدین مظاہری

عارف باللہ حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنسارپوریؒ نے کل ۲۲؍ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ کوبعد نمازجمعہ آخری سانس لی۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

آعندلیب!مل کے کریں آہ وزاریاں

توہائے گل پکارمیں چلاؤں ہائے دل

آپ ؒکی رحلت سے ایسامحسوس ہوا کہ سہارنپورگویا یتیم ہوگیاہے۔

شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم

دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم

تاریکیاں پہلے ہی کیا کم تھیں کہ اس میں مزید اضافہ ہوگیاہے:

ضرورت جتنی جتنی بڑھ رہی ہے صبح روشن کی

اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتاجاتاہے

۲۰۰۳ء میں جب فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کاوصال ہوااورمظاہرعلوم (وقف) سہارنپورکے ترجمان ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کاخصوصی نمبرشائع کرنے کافیصلہ ہواتوحضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسینؒ نے ایک خوبصورت مضمون مفتی صاحبؒ کے بارے میں تحریرفرمایا،یہ مضمون کیاہے حق رفاقت اداکردیا ہے، اپنادل کھول کررکھ دیا ہے، حکیم صاحبؒ درجہ ناظرہ قرآن پاک سے دورۂ حدیث شریف تک مفتی صاحبؒ کے رفیق درس تھے اسی لئے اپنے مضمون میں مفتی صاحب کورفیق درس کے ساتھ ساتھ ’’رفیق الغار‘‘بھی تحریرفرمایاہے اورلکھا کہ

’’رفیق محترم حضر ت الحاج مفتی مظفر حسین صاحبؒ رفیق درس اوررفیق الغار جن کی رفاقت پر فخر محسوس کرتا ہوں عجیب مرد صالح ومکمل بلکہ اگر کہاجائے کہ ماوراء الظاہرانسان تھے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ‘‘۔

حضرت نے اپنے اس مضمون میں جویاد داشتیں قلم بندفرمائی ہیں وہ تاریخ کابہت اہم حصہ ہیں اورممکن ہے تاریخ نویسوں کی نظروں سے وہ گوشے مخفی ومستوررہ جائیں اس لئے میں چاہتاہوں کہ خودحکیم صاحب ؒکی اس تحریرگرامی کے دوایک اقتباسات آپ یہاں اِن صفحات میں بھی پڑھتے چلیں جس سے خودحکیم صاحب کی حیات مستعار کاایک اہم باب متعلق اورمعلق ہے،فرماتے ہیں:

’’بچپن کے ساتھی حتیٰ کہ قرآن پا ک پڑھنے کے زمانہ میں دفتر مدرسہ قدیم میں ہمارے یہاں کے استاذ حضرت حافظ مقصود احمد خان صاحب سنسارپوری ؒ درجہ حفظ میں حضرت مولانا سیدعبد اللطیف ؒ کے زمانہ نظامت میں پڑھاتے تھے چونکہ حضرت مولاناعبدالطیف پورقاضویؒ ہمارے عزیزوں میں سے ہوتے ہیں ،قرآن پڑھنے کے زمانہ میں حضرت والد صاحب مرحوم کی علالت کی وجہ سے ڈاکٹر برکت علی صاحب کے علاج کے سلسلہ میں تقریباً ۶؍ماہ سہارنپورحضرت ناظم صاحب کے مکان پر ہی قیام رہا تو اس زمانہ میں حضرت مفتی صاحبؒ کے درس قرآن کاساتھی ہونے کا فخر حاصل ہے اس کے بعد بھی درس نظامی کی کتابوں میں بھی( بقول حضرت مفتی صاحب )ہم سبق ہونے کا شرف حاصل ہے‘‘ ۔

حضرت حکیم صاحب نے مفتی صاحبؒ سے اپنے تعلق اور دیرینہ مراسم کاذکرکرنے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے اپنے بھائی مولانا مظفرحسینؒ سنسارپوری کاذکربھی کیاہے چنانچہ فرماتے ہیں:

’’ قلبی لگاؤ اوروالہانہ تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرے بڑے بھائی جن کا نام بھی مظفر حسین ہی تھا جو بعینہٖ حضرت مفتی صاحبؒ کے ہم شکل حتی کہ چال وڈھال ،وضع وقطع،سنجیدگی و متانت اور تقویٰ وطہارت میں یکساں تھے درس نظامی سے میرے ساتھ ہی فراغت حاصل کی تھی جو الہ آباد میڈیکل سے ایف ایم بی ایس کی ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی تھی افسوس نوجوانی کے عالم میں شادی سے پہلے ایک قلبی مرض میں گرفتارہوکر بارگاہ الٰہی میں پہنچ گئے۔

بہرحال حق تعالیٰ شانہ نے آپ کو بڑی خصوصیات عطا فرمائی تھی جن کے بارے میں حضرت والد صاحب جو حضرت اقدس رائے پوری کے اجل خلفاء میں سے تھے بھائی صاحب کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ مظفر حسین بڑا مخلص ہے اوراپنے اور میرے بارے میں فرماتے تھے کہ ہم لوگوں میں ریاکاری ہے ‘‘۔

عام طورپرمعاصرین اپنے کسی معاصرکا ذکر کرنے میں الفاظ اورتعبیرات کااستعمال بہت ناپ تول کرکرتے ہیں،ألمعاصرۃ أصل المنافرۃ مشہورمقولہ ہے لیکن حضرت مولاناحکیم سیدمکرم حسینؒ نے اپنے قول وعمل اور تحریر وتقریرسے اس قول کوغلط کردکھایاچنانچہ خوداپنے رفیق وزمیل اورساتھی ومعاصرکی خوبیوں ،خصوصیتوں اورکمالات کاذکرکرتے ہوئے دیکھئے کس قدراترکراورنزول فرماکراپنادل کھول کررکھ دیاہے:

’’حضرت مفتی صاحب کا تذکرہ بلکہ ان کی کن کن خصوصیات کا تذکرہ لکھا جاوے یا کہاجاوے کہ پیدائشی ولی تھے تو بیجا نہ ہو گا ،علوم ومعرفت ،محدث ومفسر ،فقیہ الامت تو تھے ہی ،حق تعالیٰ شانہٗ نے ان کو علو م ومعرفت کا ایک بحر بیکراں بنایاتھا اس کے بعد بھی ان کے اندر بے نفسی، تواضع، انکساری ،ہمدردی ، دلداری ودل جوئی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا ،باوجود اپنی گوناگوں بیماریوں اورمختلف عوارضات کسی کو محروم نہ فرماتے اوردور دراز سفر کے لئے تیار ہوجاتے،آخر زمانہ میں تو بیحد اسفار اورمشغولیات بڑھ گئی تھیں ،میری رمضان المبار ک سے قبل حاضری ہوئی تو میں مسجد میں تھا ،نماز سے فراغت کے بعد مسجد کے باہر صحن میں ٹہل رہے تھے تو بڑے بے تکلفانہ انداز سے میرا ہاتھ پکڑکر اپنے ساتھ اپنی مسند پر برابر بٹھایا میں نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے مولانا بشیر احمد صاحب مرحوم کی یاد تازہ کردی۔‘‘

۱۹۸۷ء میں مظاہرعلوم میں حالات بہت خراب ہوئے، تبصرہ بازی سے تبرابازی تک،الزام تراشی سے مقدمہ بازی تک کیاکچھ نہیں ہوا،ایسے مشکل اورکٹھن صبرآزماحالات سے حضرت مفتی مظفرحسینؒ کس قدرکبیدہ اوربددل تھے اس کااظہارکوئی ہم جیساچھوٹاموٹاشخص کرے توصحیح اندازہ نہیں ہوسکتا اس لئے میں چاہتاہوں کہ ایک چھوٹاسااقتباس حضرت مولاناحکیم مکرم حسینؒ کے قلم حقیقت رقم سے پیش کرتاچلوں :

’’ مظاہر علوم کے فتنہ کے دوران اکثروبیشتر حضرت مفتی صاحب شیخ الحدیث حضرت مولاناوسیم احمد صاحب کو ساتھ لے کر سنسارپور تشریف لے آتے اورفرماتے کہ جب اِن حالات سے تکلیف محسوس ہوتی ہے تو میں رائے پور یا سنسارپورآجاتا ہو ں اوریہ بھی فرماتے کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے تو میں چھوڑچھاڑکر سنسارپورآجاؤں گا بہرحال اس فتنہ سے بڑے فکر مند اوربڑے پریشان رہتے تھے جس نے مظاہر علوم کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا‘‘۔

(فقیہ الاسلام نمبر)

نہ صرف یہ کہ حضرت مفتی مظفرحسینؒ کاحضرت سنسارپوریؒ سے نہایت تعلق تھابلکہ مظاہرعلوم کے اکابرواسلاف بالخصوص حضرت مولانا حافظ عبد اللطیف پورقاضویؒ اورحضرت مفتی محمودحسن گنگوہی ؒ، حضرت مولانا ظریف احمدؒپورقاضویؒ، حضرت مولانا ظہور الحق دیوبندیؒ وغیرہ اکابرحضرت کے مدرسہ فیض رحمانی سنسارپورمیں مستقل امتحانات لینے کے لئے تشریف لے جایاکرتے تھے۔

اِن خدارسیدہ اسلاف کے بعد جب تک قویٰ کمزورنہیں ہوگئے حضرت مفتی صاحبؒ مدرسہ فیض رحمانی سنسارپور میں امتحانات لینے کے لئے تشریف لے جاتے رہے اورجب ضعف بڑھ گیا،اعذاروموانع درپیش ہوگئے، ہجوم کاراورمشغولیات مانع ہوگئیں تومظاہرعلوم کے دوسرے مدرسین کوبھیجناشروع فرمادیا۔

حضرت مولاناسیدمکرم حسین ؒسے مفتی صاحب کے تعلق اورمحبت کااس واقعہ سے بھی اندازہ کیاجاسکتاہے جوقاری مرغوب الرحمن آدم پوری نے فقیہ الاسلام نمبرمیں موجود ہے،قاری صاحب لکھتے ہیں:

’’۱۴۰۳ھ میں احقر نے حضرت والا اورعلامہ محمد یامین صاحب ناظم تعلیمات مظاہر علوم کی غریب خانہ پردعوت کی ، حضرت والا اورعلامہ صاحبؒ بذریعہ رکشہ آدم پورتشریف لائے ،آدم پورمیںحضرت والا کی یہ پہلی آمد تھی حضرت سے احقر نے عرض کیا کہ مسجد میں کچھ لوگ آپ سے ملاقات کیلئے بیٹھے ہیں ،کھانے سے فارغ ہوکر کچھ دیر کیلئے مسجد میں تشریف لے چلیں حضرت والا نے فرمایاٹھیک ہے ، جب حضرت والاؒ مسجد میں داخل ہوئے تو فرمایاماشاء اللہ جامع مسجد ہے ، اس پر گاؤں کے ایک صاحب محمد عارف نے کہا حضرت جامع مسجد کہاں ہے یہاں بستی بھی چھوٹی ہے اس لئے یہاں جمعہ نہیں ہوتا حضرت والا نے فرمایا کہ یہا ں تو جمعہ ہوسکتا ہے ہم سہارنپور سے بذریعہ رکشہ آئے ہیں شہر سے بستی تک کی کیفیت سے تو یہ ہی محسوس ہوا ہے معلوم کیا کتنی آبادی ہے اورفرمایا کہ اس میں ہندو مسلم اورایک دن کا بچہ بھی ہوسب کی تعداد بتائیں یہ کیفیات لکھ کر آپ لوگ یہ فتویٰ لکھ کر مدرسہ لے آئیں، معائنہ تو میں نے کرلیا، حضرت والا کی اس بات سے لوگوں کو نماز جمعہ کا اشتیاق ہوگیا ۔

اب لوگوں کے درمیان جمعہ کا مسئلہ موضوع بحث بن گیا دوچاردن بعداستفتاء لکھ کر احقر اورکچھ احباب حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے،حضرت نے وہ استفتاء حضرت مولانا مفتی عبد القیوم صاحب کو سونپ دیا اورفرمایاکہ میں اس بستی میں گیا تھا اس کا جواب تحریر فرمادیں کچھ معلوم کرنا ہوکرلیجئے تین دن بعد یہ فتویٰ مل گیا جس میں نماز جمعہ کی اجازت ہوگئی۔

حضرت والاؒ سے درخواست کی گئی کہ آدم پورمیں نماز جمعہ کے آغاز کے موقع پر آپ تشریف لائیں،اہل بستی کی خواہش ہے کہ جمعہ کی پہلی نماز آپ کی اقتداء میں ادا کریں حضرت والا نے اہل بستی کی دعوت کو بخوشی منظور فرمالیا، اہل بستی نے اس کے لئے انتظامات کرلئے ، قریبی گاؤں میگ چھپر،ایگھری ،بھاؤپورکے کچھ لوگ آدم پورآئے اورکہنے لگے یہاں جمعہ کا فتویٰ جو ملا ہے دکھاؤ،فتویٰ دکھایا،فتویٰ میں لکھا تھا کہ گاؤں شہرسے اتنی دورہے شہرکی اذانیں وغیرہ سنائی دیتی ہیں تقریباً بارہ سو لوگوں کی آبادی ہے یہ گاؤں میونسپلٹی کی حد میں ہے ان لوگوں نے کہاکہ یہ فتویٰ غلط ہے ،میونسپلٹی کی حد چنگی کے اندر اندر ہے اوریہ گاؤں چنگی کی حد سے باہر ہے ،اس لئے فتویٰ غلط ہے ،یہاں جمعہ ہوہی نہیں سکتا۔

اب آدم پورکے بھی کچھ لوگ ان کے ساتھ لگ گئے گاؤں ے لوگ اس مسئلہ کو لے کرپھر حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہاکہ حضرت اس طرح کی بات ہورہی ہے اورگاؤںتو چنگی کی حد سے واقعی باہر ہے اب کیا کریںحضرت والا نے ہنس کر فرمایاکہ ہم نے میونسپلٹی کی شرط پر فتویٰ نہیں دیا ہے ہم نے صرف فنائے مصرہونے کی بنیاد پر جمعہ کا فتویٰ دیا ہے ان سے کہہ دواورمزید کسی کو معلومات کرنی ہوتو کہہ دو کہ پرسوں کو مظفرآکر نماز جمعہ پڑھائے گا جس کو اشکال ہومیرے سے بات کریں۔

اب لوگوں میں ایک طرح سے جان آئی اورآکر یہ بات ان لوگوں سے بتائی اب حضرت والا نماز جمعہ کیلئے تشریف لائے آپ کے ہمراہ حضرت مولانا علامہ محمد یامین صاحب ناظم تعلیمات مظاہر علوم (وقف) سہارنپور، حضرت مولانا مکرم حسین صاحب مدظلہ سنسارپوری خلیفہ حضرت رائے پوری ، حضرت مولانا بشیر احمد صاحب امام مسجد مبارک شاہ ،حضرت مولانا عبد الحمید صاحب مرزاپوریؒ تشریف لائے حضرت اقدس مفتی صاحب نے نماز جمعہ پڑھائی اس کے بعد حضرت مولانا بشیر احمد صاحب نے ایک گھنٹہ بیان فرمایا،حضرت مفتی صاحب نے پھر دعا فرمائی بہت لوگ لائن لگاکر سلام اورمصافحہ سے مستفید ہوئے اورحضرت والا کی ضیافت کیلئے ملا محمد یٰسین کے مکان پر تشریف لائے ، کھانے سے فارغ ہونے پر وہ لوگ آگئے جو فتویٰ کو غلط بتارہے تھے ،انہوں نے ایک کتاب ہاتھ میں لے رکھی تھی حضرت سے کہایہاں جمعہ کی اجازت کس بنیادپر ہے ،چھوٹا سا گاؤں ہے اوراستفتاء میں لکھا ہے کہ گاؤں میونسپلٹی کی حد میں ہے یہ غلط ہے ، میونسپلٹی چنگی کے اندر ہے اورگاؤں اس سے باہر ہے حضرت مولانا مکرم حسین صاحب نے فرمایاکہ حضرت والا مفتی اعظم ہیں معائنہ خود کیا ہے ،نماز جمعہ خود پڑھائی ہے اس کے بعد اشکا ل کی گنجائش ہی نہیں ،رہی بات میونسپلٹی کی، ہمیں کہیں اس میں نوکری کرنا ہے کہ اس کا ہونا ضروری ہے، مجھے معلوم بھی نہیں تھاکہ آدم پور کہاں ہے ،پہلی بار حاضر ہوا ہوں، جب یہاں کے لوگ یہ دعوت لے کرمیرے پاس آئے میں نے کہا کس کا فتویٰ ہے ،کون جمعہ پڑھائے گا؟ جب معلوم ہو ا کہ مظاہر علوم کا فتویٰ ہے اورحضرت مفتی صاحب نماز جمعہ پڑھائیں گے ،یہ نام سنتے ہی مزید کچھ معلوم کرنے کی گنجائش نہ رہی فوراً یہاں آنے کی دعوت قبول کرلی اس وقت حضرت والا ہی ہمارے مقتدا ء ہیں،علمی کارواں آپ کی قیادت پر فخر کرتا ہے ،آپ کے فتاویٰ علمی حلقوں میں وقعت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

حضرت والا ؒ نے فرمایامیں نے اس گاؤں کا معائنہ کیا اور آج نماز جمعہ پڑھائی ہے میں فنائے مصر ہونے کی بنیاد پرفتوی دیا ہے یہ بستی فنائے مصر میں داخل ہے اور یہ شرط تما م شرطوں پر غالب ہے آپ کو جو مفتی بلانا ہو بلاکر معائنہ کرالیں اورمجھے بھی بلالیں اس کے بعدیہ لوگ ایک دو جگہ اس مسئلہ کو لیکر گئے جس مفتی کو معلوم ہوتا کہ حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب نے معائنہ کیا ہے ،نمازبھی آپ نے پڑھائی ہے تو سبھی علماء یہی کہتے کہ اگر حضرت والانے نماز جمعہ پڑھائی اورمعائنہ کیا ہے تو پھر اس مسئلہ پر کچھ لکھنے کی مزید گنجائش نہیں رہ گئی ۔ (فقیہ الاسلام نمبر)

ایک دفعہ مدرسہ احیاء العلوم پٹلوکرضلع سہارنپورمیں مدرسہ کے مہتمم مکرم مولانا محمد طاہر صاحب کی دعوت پرامتحان لینے کے لئے پہنچا،امتحان سے فارغ ہوکرمیں نے مولانامحمدطاہرصاحب سے عرض کیاکہ مجھے حضرت سنسارپوری سے ملاقات کرنی ہے چنانچہ مولانانے مدرسہ کے ایک استاذ کو میرے ساتھ کردیا،میں حضرت کی خدمت میں اس وقت پہنچاجب عصرکے بعدمجلس جاری تھی ،مشہورعالم مولانامحمدسلیمان خوش حال پوری کوئی کتاب پڑھ رہے تھے ، لوگوں کااچھاخاصا ہجوم تھااس لئے بالکل اخیرمیں بیٹھ گیا،حضرت کی پوری توجہ کتاب پرتھی لیکن خداجانے کیسے مجھ پرنظرپڑگئی ،سراٹھایااورفرمایاآگے آئیے!میں حضرت کے دائیں جانب پہنچا،کتاب کی قراء ت رک گئی،حضرت نے مجھے اپنے قریب بلایا،سرپردست شفقت رکھا،مصافحہ کی سعادت بخشی ، مولاناسلیمان قاسمی خوشحال پوریؒ مجھ سے پہلے سے واقف اوربے تکلف تھے انہوں نے صرف میرانام ہی لیاتھاکہ حضرت نے شفقت آمیز اندازمیں پھرمجھے اپنی طرف کھینچ لیا،میرے سرکوتقریباًاپنے سینے سے لگالیااوردوایک تعریفی کلمات میری تحریرکی بابت ارشادفرمائے ۔پھرحضرت نے مدرسہ کے ایک استاذکوحکم فرمایاکہ مولانا کو دارجدید دکھاکرلاؤ،میں نے دارجدیدکی زیارت کی ،تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ ساتھی نے مجھ سے چلنے کے لئے کہاکہ حضرت انتظار فرمارہے ہوں گے میں نے کہاکہ اتنی بھیڑمیں کہاں یادرہے گاکہ کون آیاہے ،جواب ملاکہ حضرت سب کویادرکھتے ہیں اورواقعی ایساہی ہوا،جب دوبارہ حضرت کی خدمت میں پہنچاتو ناشتہ تیارتھا،خودحضرت بھی دسترخوان پرموجودرہے اور شفقت وتوجہ فرماتے رہے۔میں نے عرض کیاکہ حضرت میری یہاں حاضری کی وجہ مولانا محمد طاہر کے مدرسہ کاامتحان بناہے۔مسکرائے اورفرمایاکہ وہ بھی اپناہی مدرسہ ہے ۔آتے رہنا۔

یہ حضرت سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی جس کانقش ونقشہ اب تک قائم ہے اس کے بعدبھی ملاقات وزیارت کی توفیق ملتی رہی، ایک آدھ بارفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے ساتھ جاناہوا اور بار بارجانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ کے ساتھ جانے کی سعادت ملی۔اخیرسفرمیں حضرت کافی ضعیف ہوچکے تھے، شاید یادداشت کافی متأثرتھی لیکن پھربھی نہ صرف مولانامحمدسعیدی مدظلہ کوپہچانابلکہ کئی قیمتی باتیں بھی کیں۔

ایک واقعہ اوریاد آگیا سنتے چلئے!جس زمانے میں آپ یہاں مظاہرعلوم میں زیرتعلیم تھے اسی زمانے میں آپ نے ایک طالب علم کودیکھاجوبہت ہی افسردہ وپژ مردہ تھا،ضعف اس کے چہرے سے ظاہر اور ہویداتھا،لگتاتھاکہ اس طالب علم نے کئی دن سے کھانانہیں کھایاہے ،حضرت مولانامکرم حسین ؒنے اس طالب علم سے افسردگی کی وجہ معلوم کی؟اس نے جواب دیاکہ میں سیدہوں، اولادرسول ہوں،میں مدرسہ کاکھانانہیں کھاسکتاکیونکہ زکوۃ اورصدقات سادات کے لئے جائزنہیں اورمیری غیرت بھی گوارانہیں کرتی۔سیدکے درد اورکرب کوسیدسے زیادہ کون سمجھے گا،حضرت مولانامکرم حسین نے اپنے کھانے میں اس طالب علم کوشریک کرلیا اورعرصہ تک دونوں طالب علم ایک ہی خوراک سے اپناکام چلاتے رہے ،نہ تومولانامکرم حسین نے کسی سے اظہارکیاکہ یہ ان کی شرافت نسبی ،تربیت خاندانی اورغیرت دینی کے خلاف تھا،نہ اس طالب علم نے کسی سے اس کااظہارکیا۔آہ !کیسے کیسے آفتاب وماہتاب غروب ہوگئے۔

ایسی خدارسیدہ شخصیت کاہمارے درمیان سے اٹھ جانابلاشبہ ایک ملی سانحہ ہے ۔ہم اس سانحہ پرنہ شکوہ کرسکتے ہیں ،نہ گریہ وبکاسے آسمان سرپراٹھاسکتے ہیں البتہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادسراپارشاداذکروامحاسن موتاکم پران شاء اللہ عمل پیرارہیں گے، دعائیں،ایصال ثواب ،ان کی تعلیمات پرعمل ،ان کے اقوال وملفوظات کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرنے کی سعی وکوشش کرتے رہنے کاعہدکرتے ہیں اوردعاگوہیں کہ خدایا!حضرت والاکوآپ نے اس سنسارمیں جس طرح قبولیت ومحبوبیت عطافرمائی تھی بالکل اسی طرح اُس سنسارمیں بھی نیکوں اورنیکوکاروں کامعاملہ فرما۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے