*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*
*نام کتاب: ماہنامہ ضیاء الاسلام قاضی اطہر مبارکپوری نمبر( خصوصی اشاعت)*
*سرپرست: مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی*
*مدیر: ضیاء الحق خیرآبادی*
قاضی اطہر مبارکپوری دنیائے علم وتحقیق کی ایک مستند ومعتبر شخصیت تھے ،وہ آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب تھے ، جس کی تابانیوں نے نصف صدی تک علم وتحقیق کی وادی کو روشن وتابناک رکھا ، ان کا حال بقول مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی یہ تھا کہ” ……. وہ اصحاب تحقیق میں پہونچے ، تو انھیں پیشوامانا گیا ۔ اہل تدریس میں گئے ،تو بہترین مدرس سمجھے گئے ، شعروادب کی وادی میں گئے تو اسی دنیا کے محسوس ہوئے ، تالیف وتصنیف کے میدان میں قدم رکھا ، تو معلوم ہوا کہ ع: عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں”
قاضی صاحب مختلف انجمنوں ، اداروں اور رسالوں کے سرپرست تھے،انہی میں جہانا گنج اعظم گڈھ سے نکلنے والا رسالہ ” ماہنامہ انوار العلوم ” بھی تھا ،١٦ جولائی ١٩٩٦ء کو جب قاضی صاحب کا وصال ہوا تو لوگوں کو ان کے حالات اور علمی کارناموں کی جستجو ہوئی ، اس وقت مجلہ ترجمان الاسلام بنارس کے مدیر ، قاضی صاحب دوست مولانا اسیر ادروی اور ماہنامہ انوار العلوم کے مدیر مولانا عبد الرب اعظمی نے قاضی صاحب کی شخصیت اور کارنامے پر خصوصی اشاعت کا اعلان کیا ۔ ترجمان الاسلام کی خصوصی اشاعت بیاد قاضی اطہر مبارکپوری تو ١٩٩٧ء کے آغاز میں منظر عام پر آگئی ،لیکن ماہنامہ انوار العلوم کی خصوصی اشاعت مسلسل التواء کا شکار رہی ، یہاں تک کہ اس کی اشاعت کی امید ختم ہوگئی ، حالانکہ سو صفحات کے قریب اس کی کتابت بھی ہوچکی تھی ۔ ٢٠٠٠ء میں جب ماہنامہ ضیاء الاسلام نکلنا شروع ہوا تو اس کی ادارت میرے ذمہ آئی ، اسی وقت رسالہ کے سرپرست استاذی مولانا ااعجاز احمد صاحب اعظمی نے مجھ سے فرمایا کہ قاضی صاحب سے متعلق جو مضامین ہیں ان کو مولانا عبدا لرب صاحب کے یہاں سے منگوالو ، حسب سہولت ہم ان شاء اللہ قاضی صاحب پر خصوصی نمبر نکالیں گے ، چنانچہ آہستہ آہستہ اس کی تیاری شروع ہوگئی ، خود استاذ محترم نے متعدد مضامین لکھے ، مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے دو مضمون لکھا ، اسی طرح متعدد اہل قلم سے مضامین لکھوائے گئے ، اس کی ترتیب میں سب سے زیادہ تعاون قاضی صاحب کے بیٹے مولانا قاضی ظفر مسعود صاحب سے ملا ، جو خود بڑے باذوق انسان تھے ، اپنے والد مرحوم کے علمی ورثہ کو محفوظ رکھنے میں ان کا بڑا حصہ ہے ۔ انھوں نے میرے لئے اپنے کتب خانہ سے استفادہ کی عام اجازت دیدی اور ماہنامہ البلاغ کی تمام فائلیں میرے حوالہ کردیں۔اسی وقت میں نے البلاغ کی تمام فائلوں دیکھا تھا اور اس میں سے قاضی صاحب کے سفرناموں کو مرتب کرکے شائع بھی کردیا تھا۔
قاضی صاحب کے کتب خانہ میں ان کی وہ ڈائری بھی مل گئی جس میں انھوں نے اپنی مطبوعہ خود نوشت ” قاعدہ بغدادی سے صحیح بخاری تک ” کے بعد کے احوال لکھے ہیں ۔ مجھے یہ ڈائری پاکر بے حد خوشی ہوئی ، میں نے پوری ڈائری اپنے ہاتھ سے نقل کی ، اور یہ قیمتی دستاویز پہلی مرتبہ اسی خصوصی اشاعت کے ذریعہ منظر عام پر آئی ۔اس خصوصی اشاعت کو ماہنامہ ضیاء الاسلام کی اگست تا دسمبر ٢٠٠٣ء کی مشترکہ اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ۔
اس خصوصی نمبر میں ہماری اپنی سی کوشش یہی رہی کہ قاضی صاحب کی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرلیا جائے ، لیکن ہمیں خود اس کا احساس رہا کہ ہم اس میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکے ، پھربھی اتنا کچھ اس میں جمع کردیاگیا جس پر اب تک اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس نمبر پر قاضی صاحب کے دوست مولانا اسیر ادروی نے جو بصیرت افروز تبصرہ کیا تھا اس کا کچھ حصہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں، یہ تبصرہ ماہنامہ ضیاء الاسلام ،اپریل ٢٠٠۰ء میں شائع ہوا تھا :
اس خاص نمبر کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ قاضی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری جو انھوں نے ”کاروانِ حیات ” کے نام سے مرتب کی تھی اور ابھی تک طبع نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کو اس کی خبر تھی ، اس کو ادارہ نے ڈھونڈ نکالا ہے ، اس کا ابتدائی حصہ جو بہت محدود صفحات پر مشتمل ہے اس کو قاضی صاحب نے اپنی حیات میں شائع کردیا تھا ، لیکن وہ زندگی کے ابتدائی دور کے حالات پر مشتمل ہے ، ان کے احباب اس کو مکمل کرنے کا اصرار کرتے رہے لیکن انھوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور نہ اپنے ارادہ کا اظہار کیا وہ خاموشی سے اس کی تکمیل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کا وقتِ موعود آگیا اور یہ مسودہ ان کے مسودوں کے انبار میں دبا رہ گیا اور نگاہوں سے اوجھل رہا ، خود نوشت سوانح کا یہ حصہ خاص طور پر قابل مطالعہ ہے ، قاضی صاحب نے جو بھرپور علمی زندگی گذاری ، علم وتحقیق کے شاندار کارنامے انجام دیئے ، برصغیر ہند وپاک میں جو عزت وشہرت حاصل کی ، پاکستان وعرب ممالک میں جو ان کے اسفار ہوئے ، ان ملکوں میں جو ان کی شاندار پذیرائی ہوئی ، علمی دنیا کی عظیم اور مشہور شخصیتوں سے جو ذاتی ملاقاتیں ہوئیں ، تبادلہ ٔ خیال ہوا ، ان کے علمی کمالات ، تصنیفی و تحقیقی کارناموں کی وجہ سے جتنا بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے یہ ولولہ انگیز داستان اب تک ناگفتہ وناشنیدہ رہی، قاضی صاحب نے ”کاروانِ حیات” میں بہت تفصیل سے لکھا ہے ، اس میں نہ کہیں خود ستائی کی جھلک ہے اور نہ تعلّی کا شائبہ!بہت سے اہم ترین واقعات ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے چند ہی کی کسی زندگی میں پیش آجائیں تو اس کی عزت وشہرت کو بام ثریا تک پہنچاسکتے ہیں ، لیکن اتنی سادگی سے ان واقعات کو قلمبند کرجاتے ہیں جیسے کوئی روز مرہ کا واقعہ ہو ، یہ قاضی صاحب کی اعلیٰ ظرفی ہے ،غرضیکہ اس داستان کا حرف حرف دلچسپی سے پڑھے جانے کے لائق ہے ، یہ پوری خود نواشت ”کاروانِ حیات” اس خاص نمبر میں شائع کردی گئی ہے جو اس شمارے کا بہت ہی اہم قیمتی حصہ ہے کیوں کہ اس تحریر کو دستاویزی حیثیت حاصل ہے جو اس شمارے کی قدروقیمت کو بہت بڑھا دیتی ہے ۔
اس شمارے میں قاضی صاحب کی تین اہم ترین تصنیفات ”العقدالثمین ”۔”رجال السند والہند”اور ”دیارِ پورب میں علم اور علماء” کا گہرا مطالعہ کرکے ان کی تاریخی وتحقیقی حیثیت پر سیر حاصل کلام کیا گیا ہے ، قاضی صاحب کے بلند علمی وتحقیقی ذوق، ان کے وسعتِ مطالعہ ، ان کی نکتہ رسی اور ژرف بینی کے عظیم کارناموں کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیاگیا ہے ، تینوں مقالے قابل قدر اور خصوصیت سے قابل مطالعہ ہیں ۔
قاضی صاحب کے بہت سے تحقیقی مقالے جو مختلف رسالوں میں شائع ہوتے رہے وہ ندرت علم وتحقیق کا شاہکار ہیں ، ان مقالوں پر مجموعی طور سے کوئی مقالہ تو نہیں ہے جو قارئین کو ان کی قدروقیمت سے روشناس کرائے ، لیکن رسالہ البلاغ اور بعض دوسرے رسائل میں جو علمی جواہر پارے بکھرے ہوئے ہیں ان سے کئی مقالہ نگاروں نے روشناس کرایا ہے ، کئی مشہور اہل قلم کے تاثراتی مضامین اس شمارے میں شامل ہیں ، جن میں انھوں نے اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کی روشنی میں قاضی صاحب کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو بڑے دلکش انداز میں پیش کیا ہے اور ان میں قاضی صاحب کے ذہن ومزاج ، اخلاق ،ان کی سادگی اور سادگی میں پُر کاری کو خوبصورت لفظوں میں بیان کیا ہے ، یہ سارے مضامین قابل مطالعہ ہیں ۔
ضیاء الاسلام کا یہ قاضی اطہر نمبر اپنی خصوصیات کی وجہ سے ہر شخص کیلئے قابل مطالعہ ہے ، اس نے قاضی صاحب کے حالات زندگی ،ان کے علمی کمالات سے اہل علم کو روشناس کرانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ، اہل علم سے اس کے مطالعہ کی سفارش کرنے میں تبصرہ نگار خوشی محسوس کرتا ہے ۔
یہ نمبر ٤٤٦ صفحات پر مشتمل ہے ، اخیر میں ماہنامہ ضیاء الاسلام کی چار سالہ فہرست بھی دیدی گئی تھی کہ سابقہ شماروں میں شائع ہونے والے مضامین کی تلاش میں سہولت رہے ۔ یہ خصوصی نمبربلکہ قیمتی وتاریخی دستاویز مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد سے اب بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کی اشاعت کے ١٥ سال بعد میں نے اس پر از سر نو محنت کرکے دوبارہ مرتب کیا اور کئی مضامین کا اس میں اضافہ بھی کیا، ابھی اس کی اشاعت عمل میں نہیں آئی ہے ، لیکن افادۂ عام کے لئے اس کا برقی ایڈیشن نشر کردیا گیا ہے ، میں نے اس کی تمہید میں لکھا تھا:
آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے قاضی اطہر مبارکپوری نمبر شائع ہوا، اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ، معاصر رسائل ومجلات نے اس پر وقیع تبصرے شائع کئے۔ خصوصاً معروف صاحب قلم ادیب وانشاء پرداز ، قاضی صاحب کے دیرینہ رفیق مولانا اسیرادروی صاحب نے۔ ان کے تبصرے کو اس ”ای ایڈیشن ”میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا محسن عثمانی ندوی نے بھی بہت وقیع تبصرہ کیا جو ان کے تبصروں کے مجموعہ ” کتابوں کے درمیان” ( مطبوعہ خدا بخش لائبریری پٹنہ) میں شائع ہوچکا ہے۔ماہر شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا تبصرہ ”کتابیں ” جلد دوم میں شائع ہوچکا ہے۔ سب نے اس علمی خدمت کو بہت سراہا ، خصوصاً قاضی صاحب کی غیر مطبوعہ خود نوشت ”کاروانِ حیات” کی دریافت اور اس کی اشاعت پر سب نے مسرت کا اظہار کیا اور اس تحریر کو ”دستاویزی حیثیت” کی حامل قراردیا۔ ………… اس ایڈیشن میں تمام مضامین کو کمپوز کرواکے شامل کیاگیاہے ، اور ڈاکٹر نعیم صدیقی کا ایک بہت اچھا مضمون ]”وہ یاد آئے بہت ….”[ اور ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی کا مضمون] ”مورخ اسلام قاضی اطہر مبارک پوری…..” [ اس ایڈیشن میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ اخیر میں اس نمبر پر مولانا اسیر ادروی صاحب کا تبصرہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
٢٣ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ٢٣ جولائی ٢٠٢٢ء سنیچر
*اظہارِ تشکر: ٢٤ جون کو تعارف کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا ، الحمد ﷲ آج ٢٣ جولائی کو ایک ماہ پورے ہوگئے ، رب کریم کا شکر کس زبان سے ادا کروں کہ اس کی نصرت وتوفیق سے بغیر کسی ناغہ کے آج تیسواں تعارف پیش کررہا ہوں ، اور اس کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ وہ ذات کریم ایسی ہمت واستقامت نصیب کرے کہ بغیر کسی ناغہ کے یہ سلسلہ چلتا رہے ، آپ حضرات بھی اس پر آمین کہہ دیں۔*