*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*
*نام کتاب: داستانِ ناتمام* ( خود نوشت سوانح)
*مصنف: مولانا اسیر ادروی*
*”داستان ناتمام” مولانا اسیر ادروی* کی خود نوشت سوانح ہے۔ مولانااسیر ادروی بھی اپنے دوست مولانا قاضی اطہر صاحب کی طرح اپنے نام کے بجائے تخلص سے ہی علمی دنیا میں شہرت رکھتے ہیں ۔ نام نظام الدین بن عبدالکریم ہے ۔ ضلع مئو کا مشہور گاؤں ادری آپ کا مولد ومسکن ہے، ١٩٢٦ء میں پیدا ہوئے ۔ مکتب کی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ، اس کے بعد جامعہ مفتاح العلوم مئو میں محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی ، مولانا عبد اللطیف صاحب نعمانی اور مولانا محمد ایوب صاحب اعظمی علیہم الرحمہ جیسے اساتذۂ فن سے تعلیم حاصل کی ۔ شرح جامی کے سال بعض طلبہ کے بہکاوے میں آکر درمیان سال میں مدرسہ حنفیہ جون پور چلے گئے ، جہاں بقول ان کے ” یہ نوابوں کا مدرسہ تھا ، اور ہم نے بھی پڑھائی کے بجائے نوابی ہی کی ۔” سال مکمل ہونے کے بعد مشرقی یوپی کی ممتاز درسگاہ جامعہ احیاء العلوم مبارکپور میں داخلہ لیا اور دوسال یہاں رہے ، کتاب میں اس ادارہ اور اس سے استفاد ہ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ اس کے بعد مشکوٰة کی تعلیم دارالعلوم مئو میں حاصل کی ۔ دورۂ حدیث مدرسہ شاہی مرادآباد میں پڑھا ۔ ١٩٤٢ء میں یہاں سے فراغت حاصل کی ۔ اپنے وقت کے ممتاز طلباء میں شمار ہوتا تھا ، زمانۂ طالب علمی میں ہی شعر وشاعری اور مضمون نگاری شروع کردی تھی ، جس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
فراغت کے بعد گھریلو کاموں اور سیاسیات کی مشغولی کی وجہ سے علمی وتدریسی زندگی سے بالکلیہ انقطاع ہوگیا ۔ اور اس پر کامل ٣٦ سال گزر گئے ، اسیر صاحب کی خوبیاں اور محاسن وکمالات بہت ہیں ، لیکن ان کی سب سے اہم خوبی اور کمال میرے نزدیک یہ ہے کہ جب ١٩٧٨ء میں حافظ عبدالکبیر صاحب نے ان کو جامعہ اسلامیہ بنارس میں تدریس کے لئے دعوت دی تو کامل ٣٦ سال کے انقطاع کے بعد وہ مسند تدریس پر آئے تو اسے اس شان سے آباد کیا کہ ابتدائی کتابوں سے لے کر ابوداؤد شریف جیسی کتابوں کا درس پوری شان اور خود اعتمادی کے ساتھ دیا ، ان کا یہ تدریسی دورانیہ تقریباً ٢٥ سالوں پر محیط ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے ، اس لئے کہ لوگ چند سال تدریس سے الگ ہونے کے بعد پڑھانے کی ہمت نہیں کرپاتے ۔
یہ کتاب اسیر صاحب نے اپنی حیات کے اخیر دور میں لکھی ، ١٩٩٦ء میں اس کی تکمیل ہوئی ، جب اس کا مسودہ میرے پاس آیا تو انھوں نے ٢٠٠٥ء میں ایک صفحے کا ابتدائیہ لکھ کر مجھے اشاعت کی اجازت دیدی۔کتاب دو حصوں میں ہے، حصہ اول میں ولادت سے لے کر جامعہ اسلامیہ بنارس آنے تک کی داستان ہے، حصہ دوم تمام تر بنارس آنے کے بعد کے احوال پر مشتمل ہے۔ کل صفحات ٣٣٨ ہیں۔ میں نے کتب خانہ حسینیہ دیوبند والوں سے کہا کہ آپ لوگوں نے اسیر صاحب کی بہت ساری کتابیں شائع کی ہیں اور ان سے مستفید ہورہے ہیں ، ایک کتاب یہ بھی شائع کردیں ۔چنانچہ کمپوز کرکے کتاب ان کے حوالے کردی، کئی سال کے بعد نومبر ٢٠٠٩ء میں کتاب شائع ہوئی ، مجھے خوشی ہوئی کہ مصنف کی حیات میں ہی یہ منظر عام پر آگئی اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے اسے مطبوعہ شکل میں دیکھ لیا اور مجھے دعائیں دیں۔
مصنف نے خودکتاب کا بہترین تعارف کرایا ہے،اسے پڑھئے اور اسیر صاحب کے حسنِ انشا اور نثر میں کی شاعری کی داد دیجئے :
*” یہ تاریخ کی کتاب ہے اور نہ کسی واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ ، یہ ایک عام آدمی کی کہانی ہے جس نے نہ کوئی محیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں ، نہ علم وفضل کا عظیم الشان مظاہرہ ، اس کو پھولوں کے چمن زاروں سے بھی گذرنا پڑا ہے اور خارزار وادیوں سے بھی ، وہ آدمی حساس بھی ہے اور کسی زمانہ میں شعروادب سے بھی اس کا گہرا واسطہ رہا ہے ، اس لئے اس کتاب میں گفتنی اور ناگفتنی دونوں طرح کی باتیں آگئی ہیں ، اس میں بچپن کی شوخیاں بھی ہیں اور نادانیاں بھی ، عہد شباب کا جوش* *وخروش بھی ہے ، رنگ وبو برستے ہوئے موسم کی بہار بھی ، اس میں بڑھاپے کی سنجیدگی ومتانت بھی ہے ، اور حقیقت شناسی بھی ، اس لئے ہر دور کی کہانی کو اسی دور کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر پڑھنا چاہئے تبھی مطالعہ کا حق ادا ہوسکتا ہے ، اس آپ بیتی سے نہ کسی کی توہین مقصود ہے اور نہ تنقیص، بلکہ مصنف کے حاشیہ خیال میں دور دور تک اس کا شائبہ بھی نہیں رہا ، اس اظہارِ صداقت کے باوجود* *اگر کسی نازک دل کو ذہنی اذیت محسوس ہوتو میں پوری صدق دلی سے معافی چاہتا ہوں اور خدا سے بھی دعا کرتا ہوں کہ میری اس نادانستہ خطا اور غلطی سے درگذر فرمائے ، یہ حقیقت تو بہر حال اپنی جگہ ہے*
*غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے*
*ایسا وہ کون ہے کہ سب اچھا کہیں جسے*
یہ داستان ، داستانِ ناتمام کیوں ہے ،مصنف کے سحر آفریں قلم سے پڑھئے :
*لوگ شہروں اور ملکوں کے سفر نامے لکھتے ہیں ، میں خود زندگی کا سفرنامہ لکھ رہا ہوں لیکن یہ سفر نامہ نامکمل ہوگا ، یہ داستان تشنۂ تکمیل رہ جائے گی کیونکہ اس کا آخری باب میں خود نہیں لکھ سکوں گا ، میں نے یہ کام کلکِ قدرت کو سپرد کردیا ہے اور جب قدرت کا قلم اس باب کو لکھے گا تو اسے آ پ* *پڑھیں گے ، آپ کے ساتھ اوردوسرے بہت سے لوگ پڑھیں گے لیکن مجھے خود اس کتاب کے اس آخری باب کو پڑھنے کا موقعہ نہیں ملے گا اور نہ اس باب میں ایک حرف کی کمی بیشی کا مجاز رہوں گا کیونکہ جب یہ باب مکمل ہوگا تو میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر گر چکا ہوگا ، روشنائی خشک ہوچکی ہوگی ، حتیٰ کہ میں اس کے مطالعہ سے بھی محروم رہ جاؤں گا کیونکہ جب یہ لکھا جائے گا تو مری آنکھوں کی روشنی رُخصت ہوچکی ہوگی اور میراوجود ایک گہرے اندھیرے میں ڈوب چکا ہوگا ۔*
پوری کتاب اس طرح کی سحرکاریوں سے بھری پڑی ہے۔ایک دو اقتباس نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں، اپنی شادی کے متعلق لکھتے ہیں:
*ایک لڑکی شریک زندگی بن کر میرے گھر آگئی وہ تن تنہا نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ خوشیوں اور مسرتوں کا انبار لیکر آئی ۔ وہ باد صبا تھی اور بہاروں کا پورا ایک قافلہ لے کر آئی ۔ تمناؤں اور آرزوؤں کے رنگ برنگ پھولوں کی تیز خوشبو دل و دماغ پر چھا گئی، کہ تین برسوں کی اذیت ناک تنہائی کا سارا درد و کرب میں بھول گیا۔……شب و روز دل و دماغ پر ایک نشہ سا چھایا رہتا تھا ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گھر کے ہر درودیوار سے خوشی پھوٹی پڑ رہی ہے ۔ ہر طرف مسرت کی پریاں رقص کر رہی ہیں اور چمن زندگی ایک نئی بہار کی آمد سے لہلہا اٹھا ،* *مرے کچے گھر کے نیم تاریک کمروں سے جیسے آسمان سے کہکشاں اتر آئی ہے ۔ مگر میرے گھر کا کونا کونا رنگ و نور سے بھر گیا۔ یہ ایک ایسی بہار تازہ کی آمد تھی جس کی تیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی محسوس ہوتی تھی، حسن و شباب ، شرافت ونجابت ،دلدہی و دلداری، پھڑکتے ہوئے ہونٹ ، مسکراتی ہوئی آنکھیں ، لب و لہجہ کی حلاوت سے میری رگ رگ میں ایک نشہ سا گھول دیا تھا۔ میں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔*
قیام لکھنؤ کے دوران غریب الوطنی کی عید کا حال سنئے:
*اپنے اہل و عیال میں عید کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ فجر سے پہلے ہی بچے جاگ جاتے ہیں ۔ باورچی خانے میں برتن کھنکنے لگتے ہیں ۔ سیویاں پکائی جارہی ہیں ۔ شاہی ٹکڑے بنائے جا رہے ہیں ،بچے اودھم مچائے ہوئے ہیں ،ملکہ نورجہاں چولہے پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ اور بچوں کو بھی ہنس ہنسا کر بہلا رہی ہیں ۔ دن نکلتے نکلتے بچوں کو نہلایا جا رہا ہے ۔ ایک ساتھ کئی بچوں کو نہلانے کا منظر بھی بڑا ہنگامہ خیز ہوتا ہے ۔ ایک کے بدن پر صابن لگا ملا جارہا ہے کہ دوسرے نے صابن اٹھا کر چہرے پر رگڑ لیا* *جب آنکھوں میں صابن جانے لگا تو وہ ہنگامہ مچائے جا رہا ہے ۔ خداخدا کرکے غسل سے فراغت ہوتی تو سارے بچے اپنے اپنے نئے جوڑے ، جوتے موزے لیکر ضد کر رہے ہیں پہلے مجھے پہلے مجھے ۔ باری باری کرکے سارے بچوں کو نئے جوڑے پہنا کر سجایا سنوارا گیا اور ان کے ہاتھوں میں عیدی کے پیسے دیکر جب فرصت ملی تو اپنے سراپا پر نظر گئی ۔ ایک گھنٹہ کی محنت کے بعد زرق برق ریشمی لباس میں وہ سج سنور کر تیار ہوگئیں ۔ ایک دن پہلے سارے زیورات صابن اور ریٹھے سے دھوئے گئے تھے ۔ اور ان میں نئی آب و تاب آگئی تھی ۔ ناک کی لونگ اور سنہری نتھ جگمگ کر رہی رہی ہے ۔ پیشانی پر چودہویں رات کے چاند کی طرح مانگ ٹیکا کا ڈائمنڈ جھلمل جھلمل کر رہاہے ۔ پاؤں کی پازیب نئی چمک دمک کے ساتھ نئی سینڈل اور ریشمی موزے پر بہاروں کے پھول برسا رہی ہے ۔ کل چوڑی فروش عورت نے آکر سنہری چوڑیوں سے کلائی بھردی تھی ۔ رات میں ہتھیلیوں پرمہندی لگائی گئی تھی اب اس کا رنگ خوب نکھر گیا تھا۔ سر کا آنچل خلاف معمول آج پیشانی پر زیادہ جھکا ہوا تھا بچوں کی نظر بچا کر آہستہ سے کہا سج دھج پر تو جی چاہتا ہے کہ ……… انہوں نے جھٹ سے مہندی لگا ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا کہ بچے کچھ نہ سن لیں ۔ ہماری عید تو اسی وقت ہوجاتی تھی، صرف دو رکعت عیدگاہ میں پڑھنی رہ جاتی تھی ۔*
یہ کتاب اپنے دلنشیں اسلوب اور دلکش نثر کی وجہ سے خوب پڑھی گئی ، مصنف کے انتقال کے بعد تو اس کی طلب اتنی بڑھی کہ ایک ایک نسخے ختم ہوگئے ، اس وقت تلاش کے باوجود نہیں مل پارہی ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
٢٢ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ٢٢ جولائی ٢٠٢٢ء یوم الجمعة