عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
مدیر تحریر ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور
Email:abdullahkhalid59@gmail.com
تاریخ عالم میں ہندوستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس کی ہمیشہ سے یہ خصوصیت اور امتیاز رہا ہے کہ یہاں مختلف تہذیب و ثقافت اورادیان و مذاہب کے ماننے والے موجود رہے ہیں،اور ہمیشہ سے ہر مذہب و ملت کے پیروکاروں کو اپنے اپنے شعائرو ارکان ادا کرنے کی مکمل آزادی رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان مشترک تہذیب و معاشرت کا ایک حسین گلدستہ بنا رہا ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک خاص ذہنیت ہمیشہ سے اس ملک پر اجارہ داری کا خواب دیکھتی رہی ہے، اور اس سرزمین پر صرف اپنی مذہبی تہذیب کو ہی پروان چڑھتا دیکھنا چاہتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ سیاسی استحکام اور مصلحت خداوندی سے کئی صدیاں ایسی بھی گزری ہیں جب کہ زمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی، تعمیر ملک ووطن کے بڑے بڑے کام بھی انجام دئیے گئے لیکن منفی ذہنیت رکھنے والا وہ گروہ ہمیشہ سے مسلمانوں سے برگشتہ رہا ہے، اور اب بھی ہے، آزادی ہند کے بعد سے زمامِ اقتدار ایک طرح سے انہیں منفی ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھوں میں پہنچ گئی اور وہ ہر طرح سے اپنی تہذیب ، اپنا اقتدار اور اپنی مذہبی بالا دستی پورے ملک پر مسلط کرکے یہاں کی منفرد تاریخ اوریہاں کے معاشرتی امن وامان کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی بازی گری اور سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔
ان دنوں ہندو انتہا پسند تنظیموں بی جے پی اور بجرنگ دل کی جانب سے مسلم خاندانوں کے دوسو سے زائد افراد کو زبردستی ہندو بنانے کی خبروں سے ہر منصف مزاج ہندوستانی سخت اذیت محسوس کررہا ہے،خبروں کے مطابق ہندوستان کے شہر آگرہ میں بعض مسلمان ہندووں کی مذہبی تقریب میں شریک ہوئے اورانہوں نے دین اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب قبول کر لیا، آگرہ شہر میں ہندووں کی گھر واپسی کے نام پر منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے والے مسلمانوں نے جھوٹ کا پول کھول دیا اور بتایاکہ آگرہ کے مدھونگر کی گندی بستی کے دو سو سے زائد مسلمان جو انتہائی غریب ہیں اور خط افلاس سے بھی نیچے زندگی بسر کرر ہے ہیں انہیں ہندووں کی جانب سے یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ انہیں راشن کارڈ اور پلاٹ دیے جائیں گے وہ صرف ہماری اس تقریب میں شریک ہوں اورگروپ فوٹو بنوائیں تاکہ مسلم ہندو اتحاد کا مظاہرہ کیا جا سکے تاہم جب وہ وہاں پہنچے تو ہندو انتہا پسندوں کی بڑی تعداد نے انہیں گھیر لیا، زبردستی پوجا کروائی گئی اور انکی تصویریں بنوا کر واپس بھیج دیا گیا، متاثرہ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ انہیں خود اخبارات دیکھ کر پتہ چلا ہے کہ ان کے ساتھ کس طرح دھوکہ کیا گیا ہے، ہم حقیقی معنوں میں مسلمان تھے، ہیں اور رہیں گے، ہم نے دین اسلام کو ترک نہیں کیا اور نا ہی ایسا کرنے کا کبھی سوچ سکتے ہیں، متاثرہ مسلمانوں نے ہندووں کے پروپیگنڈا کا توڑ کرنے کیلئے نمازیں اداکیں اور ہر گھر میں قرآن پاک کی بلند آواز میں تلاوت کی گئی تاکہ سب کو اس بات کا علم ہو سکے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں ۔
آگرہ میں جو حالیہ واقعہ پیش آیا ہے اس میں مسلمانوں کی غربت سے فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا، ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے انتہائی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ان کا اگلا ٹارگٹ علی گڑھ ہے اور وہاں سے پانچ ہزار مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنایا جائے گا، آگرہ میں ہندو انتہا پسندوں کی غنڈہ گردی پر راجیہ سبھا میں کانگریس اور دیگر تنظیموں نے سخت احتجاج کیا اور اسے سیکولرازم کے منہ پر بدترین طمانچہ قرار دیا ہے،مسلمانوں کی طرف سے بھی اس واقعہ کے خلاف آگرہ میں اور پورے ملک میں احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیاگیا۔
مال و دولت اور حرص و ہوس کا سنہرا خواب دیکھا کر مسلمانوں کو ہندووتو میں ڈھالا جارہا ہے، اسی طرح ۱۹۲۳ء میں بھی شدھی کرن تحریک کے ذریعے پانچ لاکھ مسلمانوں کو شدھی کرن آریائی تحریک کے ذریعے ہندو بنائے جانے کی سازش رچی گئی تھی، ہوا یوں کہ:
انگریزوں کی ایک خاص پالیسی کے سبب ایک کانگریسی ہندو لیڈر شردھانند نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ہندوستان کے مسلمان باپ دادا کے زمانہ سے ہندو تھے فقیروں کے جھانسے اور بادشاہوں کے دباو میں آکر یہ لوگ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر اشدھ ہوگئے ہیں ان کو پھر سے سمجھا بجھا کر اور دباو ڈال کر شدھ (پاک) بنانا چاہئے اس طرح ایک (ناپاک) تحریک شدھی کی چلائی گئی جس نے اس زمانہ کے علما کو بے چین کردیا اور اس مذہب بیزاری سے متفکر بنادیا بہت سی انجمنوں نے اپنے اپنے مبلغین کو اس فتنہ کے انسداد کے لئے بھیجنا شروع کیا، مدرسہ مظاہرعلوم میں انجمن ہدایت الرشید پہلے سے بنی ہوئی تھی اس کے ماتحت مبلغین کے وفود علاقوں علاقوں میں بھیجے گئے اور نہایت کامیابی کے ساتھ مرتد ہونے والوں کو دوبارہ اسلام میں داخل کیا،اس زمانہ میں مدرسہ کے ناظم حضرت مولانا عبداللطیف صاحب علیہ الرحمہ تھے مدرسہ کی جانب سے ایک وفد حضرت مولانا اسعداللہ صاحب رحم اللہ علیہ (جو اس وقت مدرس تھے) کی سرکردگی میں متھرا بھیجا گیا ،اسی زمانہ میں مدرسہ مظاہرعلوم کے مبلغین نے چودہ دینی مکاتب قائم کئے یہ چودہ مکاتب صرف علی گڑھ اور متھرا کے علاقوں میں قائم ہوئے جس میں بہ یک وقت مجموعی طور سے ساڑھے تین سو لڑکوں نے قرآن پاک کی تعلیم اور مذہبی امور سے واقفیت حاصل کرنا شروع کیا، حضرت مولانا اسعداللہ صاحب علیہ الرحمہ۳/ اپریل۱۹۲۳ء کو مبلغین کا وفد لے کر گئے تھے۔
۱۹۲۳ء میں میں مدرسہ مظاہرعلوم سے ۱۶ طلبہ فارغ ہوئے تھے ان میں سے اکثر کو فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے آگرہ، متھرا، بلندشہر وغیرہ کے اطراف میں بھیجا گیا ان کے علاوہ مولانا عبدالشکور صاحب کامل پوری اور مولوی ہدایت علی صاحب بستوی بھی (جوایک سال قبل مدرسہ سے فارغ ہوئے تھے) اس وفد میں شامل تھے، ان حضرات کی مساعی سے الحمدللہ بہت سے ڈگمگاتے قدم اپنی جگہ پر جمے اور بہت سی سعید روحوں کو ثبات واستقلال نصیب ہوا۔
دین اسلام اور حامیان مذہب اسلام نے ہمیشہ ہی کائنات عالم میں امن و مان کو فروغ دینے کی عمدہ مساعی کی اور فرقہ پرستی، دہشت گردی اور تعصب پر مبنی طرز عمل کی بیخ کنی کی، اسی دین حنیف کے داعی اور علمبرداربن کر ا للہ تعالی کے آخری پیغمبر محمد عربی ﷺ اور آپ کے اصحاب اور ان کے نقوش پا پر گامزن اولیا کرام نے پوری دنیا میں امن و سلامتی کا پیغام عام کیا، تمام مخلوق کے حقوق کی حفاظت کی اور تمام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ بھید بھاو ختم کرکے تمام انسانوں کوادب و احترام کا سبق سکھایا ،دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔
موجودہ واقعہ جو آگرہ میں رونما ہوا اس سے ملک کی سالمیت اورامن و سلامتی کو کس قدر خطرہ ہے اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے ،سیاسی فریب اور مذہبی منافرت کی آڑ میں کس انداز سے مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق پر ڈاکہ زنی ہے ؟ اس کو ہر انصاف پسند طبیعت صاف طور پر محسوس کر سکتی ہے ،ایسے حالات میں ہم کس طرح اپنے بھائیوں تک اسلام اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے اسباب مہیا کریں تا کہ انہیں کوئی اسلام دشمن ان کی غربت و افلاس کا رونا رو کر انہیں اپنے دین سے جدا کرنے کی سازش میں کامیاب نہ ہو سکے،اب مسلمانوں کو اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک منصوبہ بند حکمت عملی بنانی ہوگی ،اولا مسلمانوں کو اپنے عمل و کردار سے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مذہبی منافرت کی جو فضا بنائی جارہی ہے وہ ختم ہو سکے،اسی طرح مساجد ، مدارس اور درسگاہوں سے اپنے لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح لالچ دے کر کچھ گروہ مسلمانوں کو تبدیلی مذہب کی طرف راغب کررہے ہیں ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سب سے پہلے دینی تعلیم کی طرف دھیان دینا ہوگا، یہ کام باقاعدہ منظم بیداری،اور تعلیمی تحریک کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے ، پھر اسلام کی وہ بنیادی قدریں جو مسلمان کو اخوت ، انسانی حقوق اورمعاشرتی امن و امان کی بحالی اور تعمیر ملک و ملت کی تعلیم دیتی ہیں ، ان کو شدت سے اجاگر کرنا ہوگا ،بالفاظ دیگر مسلم معاشرے کودین ، دینی تعلیم اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔