دارالعلوم دیوبند کا سلسلہٴ سند و استناد

مولانا محمد اللہ قاسمی


برصغیر میں جب مسلمانوں کے کاروان شوکت پر برطانوی سامراج نے شب خوں مارا، تو حکیم مطلق جل شانہ نے اسلامی تعلیمات و احکام اور تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کی اولاد و احفاد کو آگے کردیا، ان بزرگوں کے سامنے دو منزلیں تھیں: ایک یہ کہ مسلمانوں کی لٹی شوکت کیسے واپس لی جائے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی تنزل کے اس دور میں اسلامی علوم و احکام کی گرتی دیوار کو کس طرح سہارا دیا جائے۔ پہلی منزل تک پہنچنے کے لیے محدث دہلوی نے معاشی انقلاب، صحابہ سے انتساب اور قوم کو جہد و جہاد کی راہ دکھائی، ان تینوں امور کو واضح کرنے کی غرض سے حجة اللہ البالغہ، مصفّی ومسویٰ اور ازالة الخفاء، جیسی بلند پایہ کتابیں لکھیں اور ان کے پوتے شاہ اسمٰعیل دہلوی نے حضرت سید احمد شہید دہلوی اور حضرت شاہ عبدالحئی بڈھانوی کے ساتھ عملاً جہاد میں شرکت کی۔
دوسری منزل تک پہنچنے کے لیے ان محدثین دہلی نے قرآن و حدیث کے درس اور اسلامی علوم و فنون کی اشاعت سے اسلامی اعمال و اخلاق کی متزلزل دیوار کو سہارا دیا؛ چناں چہ عین اس وقت میں جب کہ سید احمد شہید اپنے جاں باز رفقاء کے ساتھ میدان کارزار میں دادِ شجاعت دے رہے تھے، حضرت شاہ عبدالعزیز کے نواسے اور تلمیذ و جانشین دہلی کی مسندِ تدریس پر قال اللہ و قال الرسول کا غلغلہ بلند کیے ہوئے تھے۔دارالعلوم دیوبنداسی علم و فکر کا وارث اور محدثین دہلی کے اسی خاندان سے وابستہ ہے اور آج برصغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں اہل سنت والجماعت کا مرکز ثقل یہی دارالعلوم اور اس سے وابستہ علمائے دیوبند ہیں۔
مسلک دیوبند در حقیقت فکر و عمل کے اس طریقے کانام تھا جو دارالعلوم دیوبند کے بانیوں اور اس کے مستند اکابر نے اپنے مشائخ سے سند متصل کے ساتھ حاصل کیا تھا۔ جس کا سلسلہ حضرات صحابہ و تابعین سے ہوتا ہوا سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑاہوا ہے۔ یہ فکر و اعتقاد کا ایک مستند طرز تھا،یہ اعمال واخلاق کاایک مثالی نظام تھا۔ یہ ایک معتدل مزاج ومذاق تھا جو صرف کتاب پڑھنے یا سند حاصل کرنے سے نہیں بلکہ اس مزاج میں رنگے ہوئے حضرات کی صحبت سے ٹھیک اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے جس طرح صحابہٴ کرام نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے، تابعین نے حضرات صحابہ  سے اور ان کے مستندشاگردوں نے تابعین سے حاصل کیا تھا۔
دارالعلوم کا مکتب فکر
دارالعلوم دیوبندکا سلسلہٴ سند مسندِ ہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے گزرتا ہوا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے دارالعلوم اور جماعت دیوبندی کے مورثِ اعلیٰ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ہی ہیں جن کے علمی و فکری منہاج و طریق پر منتسبین دارالعلوم اور بالفاظ واضح دیوبندی مکتب فکر کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس لیے بحمد اللہ دیوبندی مکتب فکر کوئی نوپید جماعت نہیں بلکہ علمی، دینی اور سیاسی احکام و امور میں علمائے دیوبند مسند ہند شاہ ولی اللہ کے توسط سے سلف صالحین سے پوری طرح مربوط ہیں۔
حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے ولی اللہی سلسلہ کے تلمذ سے اس رنگ کو نہ صرف اپنایا جو انھیں ولی اللہی خاندان سے ورثہ میں ملا تھا بلکہ مزید تنور کے ساتھ اس کے نقش و نگار میں اور رنگ بھرا۔ اور وہی منقولات جو حکمت ولی اللہی میں معقولات کے لباس میں جلوہ گر تھے، حکمت قاسمیہ میں محسوسات کے لباس میں جلوہ گر ہوگئے۔ پھر آپ کے سہل ممتنع انداز بیان نے دین کی انتہائی گہری حقیقتوں کو جو بلاشبہ علم لدنی کے خزانہ سے ان پر بالہام غیب منکشف ہوئیں، استدلالی اور لمیاتی رنگ میں آج کی خوگر محسوس یا حس پرست دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ اور ساتھ ہی اس خاص مکتب فکر کو جو ایک خاص طبقہ کا سرمایہ اور خاص حلقہ تک محدود تھا،دارالعلوم دیوبند جیسے ہمہ گیر ادارہ کے ذریعہ ساری اسلامی دنیا میں پھیلادیا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ولی اللہی مکتب فکر کے تحت دیوبندیت در حقیقت ’قاسمیت‘ یا قاسمی طرز فکر کا نام ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کے انتقال کے بعد اس دارالعلوم کے سرپرست قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ نے قاسمی طرز فکر کے ساتھ دارالعلوم کی تعلیمات میں فقہی رنگ بھرا، جس سے اصول پسندی کے ساتھ فروع فقہیہ اور جزئیاتی تربیت کا قوام بھی پیدا ہوا۔ اور اس طرح فقہ اور فقہاء کے سرمایہ کا بھی اس میراث میں اضافہ ہوگیا۔ ان دونوں بزرگوں کے بعد دارالعلوم کے اولین صدر مدرس جامع العلوم اور شاہ عبد العزیز ثانی حضرت مولانا محمد یعقوب قدس سرہ نے جو حضرت نانوتوی سے سلسلہٴ تلمذ رکھتے تھے دارالعلوم کی تعلیمات میں عاشقانہ اور والہانہ جذبات کا رنگ بھرا، جس سے صہبائے دیانت دو آتشہ ہوگئی۔
پھر دارالعلوم دیوبند کے سرپرست ثالث اور حضرت نانوتوی کے تلمیذ خاص حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند ان تمام علوم و فیوض کے محافظ ہوئے۔ انھوں نے چالیس سال دارالعلوم کی صدارت تدریس کی مسند سے علوم و فنون کو تمام منطقہائے اسلامی میں پھیلایا اور ہزارہا تشنگان علوم ان کے دریائے علم سے سیراب ہوکر اطراف عالم میں پھیل گئے۔
اکابر دارالعلوم کا سلسلہٴ سند حدیث
تمام اکابرین دارالعلوم دیوبند کا سند حدیث کا سلسلہ خاندان ولی اللہی سے جڑا ہوا ہے ۔ اکابرین دارالعلوم دیوبند کے استاذ شاہ عبد الغنی المجددی رحمہ اللہ ہیں۔ جس کے بعد کی ترتیب اس طرح ہے: الشاہ عبد الغنی المجددی عن الشاہ محمد اسحاق الدہلوی عن الشاہ عبد العزیز محدث الدہلوی عن مسند الہند الشاہ ولی اللہ محدث الدہلوی رحمہم اللہ تعالی ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے اوپر کا سلسلہ تمام مشہور و متداول کتب حدیث کے مصنفین کرام تک پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے سندمتصل کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جا ملتا ہے۔ مثال کے طور پر بخاری کا سلسلہٴ سند اس طرح ہے:
(۱) الشاہ ولی اللہ محدث الدہلوی  (۲) الشیخ ابو طاہر المدنی  (۳)الشیخ ابراہیم الکردی (۴) الشیخ احمد القشاشی (۵) الشیخ احمد بن عبد القدوس الشناوی (۶) الشیخ شمس الدین محمد بن الرملی (۷) شیخ الاسلام زکریا بن محمد الانصاری (۸) الشیخ احمد بن حجر العسقلانی (۹) الشیخ ابراہیم بن احمد التنوخی (۱۰) الشیخ احمد بن ابی طالب الحجار (۱۱) الشیخ حسین بن مبارک الزبیدی (۱۲) الشیخ عبد الاول بن عیسی الہروی (۱۳) الشیخ عبد الرحمن بن مظفر الداؤدی (۱۴) الشیخ عبد اللہ بن احمد السرخسی (۱۵) الشیخ محمد بن یوسف الفربری (۱۶) الشیخ محمد بن اسماعیل البخاری (رحمہم اللہ )
اکابر دارالعلوم کا سلسلہٴ احسان و سلوک
علمائے دیوبند احسان و تصوف یا اہل اللہ اور اولیائے کرام کے سلاسل اورطرق تربیت منکر نہیں بلکہ وہ خود ان سلسلوں سے بندھے ہوئے ہیں، البتہ وہ بے بصر معتقدین کی غلوزدہ رسموں اور نقالیوں کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک سیدھا اور بے غل و غش راستہ سنت نبوی کا اتباع اور سلف صالحین صحابہ و تابعین ، ائمہ مجتہدین اور فقہائے دین کا تلقین کردہ راستہ ہی سلامتی کا طریق ہے جو مستند علمائے ربانیین سے معلوم ہوسکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کا طبقہ مسلک علمائے دیوبند کی رو سے امت کے لیے روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے جس سے امت کی باطنی حیات وابستہ ہے جو اصل حیات ہے۔
حضرات اکابر دیوبند احسان و تصوف کے چاروں سلاسل طیبہ ( چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ) کا یکساں احترام کرتے ہیں اوران سلاسل کے بزرگان کی محبت و عظمت کو تحفظ ایمان کے لیے مفید و ضروری سمجھتے ہیں، مگر غلو کے ساتھ اس محبت و عقیدت میں معاذ اللہ انھیں ربوبیت کا مقام نہیں دیتے۔ بلکہ حضرات اکابر دیوبند اپنی باطنی اصلاح اور ایمانی ترقی کے لیے ان سلاسل سے باضابطہ مربوط بھی ہیں ۔مثال کے طور پر اکابر دیوبند (حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی اور حضرت مولانارشید احمد گنگوہی)سلوک و تصوف میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے بیعت تھے جن کا چشتی سلسلہ درج ذیل ہے:
(۱) حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (۲) الشیخ نور محمد جھنجھانوی (۳) الشاہ عبد الرحیم شہید (۴) الشیخ عبد الباری امروہوی  (۵) الشیخ عبد الہادی امروہوی (۶) الشیخ عضد الدین امروہوی (۷) الشیخ محمد مکی  (۸) الشیخ الشاہ محمدی (۹) الشیخ محب اللہ الہ آبادی (۱۰) الشیخ ابو سعید گنگوہی (۱۱)الشیخ نظام الدین البلخی (۱۲) جلال الدین تھانیسری (۱۳) الشیخ عبد القدوس گنگوہی (۱۴) الشیخ محمد العارف ردولوی (۱۵) الشیخ احمد العارف ردولوی (۱۶) الشیخ عبد الحق ردولوی (۱۷) الشیخ جلال الدین پانی پتی (۱۸) الشیخ شمس الدین الترک پانی پتی (۱۹) الشیخ علاء الدین صابر کلیری (۲۰)الشیخ فرید الدین شکر گنجی (۲۱)الشیخ قطب الدین بختیار کاکی (۲۲) شیخ المشائخ معین الدین چشتی (۲۳)الشیخ عثمان الہارونی (۲۴)السید الشریف الزندانی (۲۵)الشیخ مودود الچشتی (۲۶)الشیخ ابو یوسف الچشتی (۲۷)الشیخ ابو محمد الچشتی (۲۸)الشیخ احمد الابدال الچشتی (۲۹)الشیخ ابو اسحاق الشامی (۳۰)الشیخ ممشاد علو الدینوری (۳۱)الشیخ ابو ہبیرة البصری (۳۲)الشیخ حذیفہ المرعشی (۳۳)الشیخ ابراہیم بن ادہم البلخی (۳۴)الشیخ فضیل بن عیاض  (۳۵)الشیخ عبد الواحد بن زید  (۳۶) الشیخ حسن البصری (۳۷) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۳۸) سیدنا و رسولنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
الغرض دارالعلوم اور بالفاظ دیگر علمائے دیوبند مکمل طور پر صحابہ کرام سے لے کر محدثین دہلی اور صوفیائے عظام تک اسناد اسلام کی ہر کڑی سے پورے وفادار رہے اور سلف صالحین کی اتباع کے اس حد تک پابند رہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدعت کو بھی دین نہ بننے دیا۔ تسلسل اسلام اور اسناد دین کو کمزور کرنے والے مختلف طبقوں سے دارالعلوم اور اس کے علماء نے اختلاف کیا، تو اس لیے نہیں کہ وہ اختلاف پسند تھے یا انھیں کسی طبقے سے ذاتی بغض تھا بلکہ محض اس لیے کہ اسلام جس مبارک و پاکیزہ سلسلے سے ہم تک پہنچا ہے اس سے پوری وفا کی جائے۔ ان کے الحادی یا بدعی نظریات کی تردید و تخریب اس لیے ضروری تھی کہ اس کے بغیر اسلام کی تعمیر وبقاء کی کوئی صورت نہیں تھی؛ لیکن ان کی یہ تردید بھی اصولی رہی اور انداز جدل احسن جس کی تعلیم خود قرآن نے دی ہے ”وجادلہم بالتی ہی أحسن“ (پ:۱۴)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے