محمد اللہ خلیلی قاسمی، دارالعلوم دیوبند
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ایک عظیم انسان تھے۔ وہ سچ مچ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک تحریک تھے۔خدا نے انھیں مختلف خصوصیات و کمالات اور اوصاف و محاسن سے نوازاتھا۔ اگر وہ ایک طرف عالم ربانی اور مرشد روحانی تھے تو دوسری طرف زبردست اسلامی مفکر اور مشہور دانشور و ادیب تھے۔ایک جانب وہ اخلاق وانسانیت اور معصومیت و مقبولیت کے پیکر تھے تو دوسری جانب زہد و استغناء ، اعتدال و توازن، خلوص وہمت، عزیمت و استقلال اور غیرت و حمیت اسلامی کی مکمل تصویر تھے۔ آپ کی علمی ، دینی، اور فکری زندگی پورے پون صدی پر محیط ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عہد ساز اور انقلاب آفریں انسان تھے۔بیسویں صدی کی علمی و فکری تاریخ آپ کے تذکرے کے بغیر سونی رہے گی۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی خاک ہند کے مجاہد اعظم سید احمد شہیدقدس سرہ کے چمنستان علم و عزیمت کے گل سر سبد تھے۔ حضرت سید احمد شہید نے تیرہویں صدی کے نصف اول میں اپنے رفقاء کے ساتھ دعوت جہادکی غرض سے پورے ہندوستان کادورہ کیا تھا جس کے دوران وہ دیوبندبھی کئی دنوں تک مقیم رہے تھے۔ حضرت مولانانے دارالعلوم دیوبند میں اپنی ایک تقریر میں اس درسگاہ کے ساتھ اپنے قدیمی تعلق کوبڑے اچھے انداز سے بیان فرمایاہے۔ ( ملاحظہ ہو:پاجا سراغِ زندگی، ص ۱۲۶) حضرت مولانا کے والد محترم مولانا حکیم سید عبد الحئی صاحب (سابق ناظم ندوة العلماء) ایک بلند پایہ عالم ومحقق تھے ۔ آپ کی مشہور آفاق کتاب ”نزہة الخواطر “ سے معلو م ہو تا ہے کہ حکیم عبدالحئی صاحب کے اکابر دیوبند سے گہرے روابط تھے۔ حضرت مولانا اپنی کتاب ’پرانے چراغ‘ میں لکھتے ہیں: ”راقم سطور حضرت سید احمد شہید کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جن سے حضرت مولانا نانوتوی اور حضرت مولانا گنگوہی کا تعلق عقیدت کا نہیں بلکہ عشق کا تھا۔اور اس کا اندازہ راقم سطور کے والد ماجد حکیم عبد الحئی صاحب کی کتاب ’دہلی اور اس کے اطراف ‘ سے ہوسکتاہے، جس میں مولانا نے اپنی دیوبند اور گنگوہ کی حاضری اور وہاں کے بزرگوں اور قابل احترام ہستیوں کے سید صاحب کے ساتھ اظہار عقیدت و محبت کا تفصیل سے تذکرہ کیاہے۔“ (پرانے چراغ، ج ۳، ص ۱۴۴)
حضرت مولانا کی کمسنی ہی میں آپ کے والد حکیم سید عبدالحئی صاحب کاانتقال ہوگیا تھا۔ آپ کی والدہ محترمہ اور آپ کے برادر اکبر ڈاکٹر عبدالعلی صاحب (سابق ناظم ندوة العلماء لکھنوٴ) کی زیر تربیت آپ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔ڈاکٹر عبد العلی صاحب نے آپ کی تعلیم ، اصلاح اور تربیت پر بھرپور توجہ دی ، جس کا اعتراف مولانا نے جابجا اپنی تحریروں میں کیا ہے،انھیں ہمیشہ برادر معظم، مرشد و مربی اور ولی نعمت کے القاب سے یاد فرمایا ہے۔ڈاکٹر عبدالعلی صاحب دارالعلوم دیوبند کے فاضل، حضرت شیخ الہند کے فیض یافتہ اور حضرت شیخ الاسلام مدنی کے عاشق زار و مسترشد خاص تھے۔(پرانے چراغ، جلد اول، ص ۹۶)
آپ کی والدہ محترمہ (جن کا آپ کی تربیت میں بڑا ہاتھ تھا) اور حتی کی گھر کی عورتیں حضرت مدنی سے اصلاحی تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کے گھرانے کا ماحول یہ تھا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ دن حضرت مدنی کی صحبت میں گذارنا اور آپ کے درس حدیث میں شریک ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا(ہفت روزہ الجمعیة، مولانا علی میاں نمبر،ص ۱۲، ۲۵/فروری تا ۲ مارچ ۲۰۰۰ء)
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند و پاک کے ہنگامہ خیز موقع پر حضرت مدنی کی رائے اور سیاسی بصیرت عام مسلمانوں کی خواہش و جذبات اور جذباتی قیادت کی سیاسی فکر سے بالکل مختلف تھی۔عام مسلمان تو کیا، بڑے بڑے علماء و اکابر قیام پاکستان کے جذباتی نعروں کی رو میں بہہ گئے تھے اور وطن عزیز کو چھوڑ کر پاکستان جارہے تھے۔یہ بڑا نازک اور پیچیدہ موقع تھا۔اس وقت حضرت مدنی کی سیاسی فکر کی اتباع بجائے خود ایک آزمائش تھی، خصوصاً ایسی جگہوں پر جہاں لیگیوں کا زور تھا۔لکھنوٴ بھی ایک ایسی جگہ تھی جہاں مسلم لیگ کے جھنڈے قدرے تیزی کے ساتھ لہرا رہے تھے، لیکن ان سب کے باوجود سیاسی خیالات میں حضرت مولانا کے خاندان و ماحول کا رجحان حضرت مدنی کی طرف تھا۔ (پرانے چراغ، جلد اول، ۱۰۳ و ۱۳۴)
حضرت مولانا کی دارالعلوم دیوبند حاضری
حضرت مولانا علی میاں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب (ناظم ندوة العلماء) کے حکم سے ۱۳۵۱ھ میں دیوبند تشریف لائے۔اور حضرت مدنی کے حلقہٴ درس میں بیٹھ کر چار ماہ بخاری و ترمذی پڑھی۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے فقہ اور قاری اصغر علی صاحب سے روایت حفص کے مطابق تجوید کا درس لیا۔ مولانا ایک موقع پر اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: ”میں اس سعادت و توفیق پر اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے دارالعلوم دیوبند، حضرت شیخ الاسلام مدنی کی زندگی میں طالب علمانہ اور نیاز مندانہ حاضری اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں اس کو اپنے لیے سرمایہٴ سعادت سمجھتا ہوں اور اس سے اللہ تعالی کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا ہوں۔میں اس بات پر جتنا فخر کروں کم ہے۔“ (۱۰) پاجا سراغ ِ زندگی، ص ۱۲۶)
حضرت مولا نا نے اکابر دیوبند سے کیا حاصل کیا؟
حضرت مولانا کے علم و ادب کی تاریخ تو سراسر ندوة العلماء سے وابستہ ہے۔ لیکن آپ کی روحانی ، فکری، اور اخلاقی تاریخ کا سہرا اکابر دیوبند کے سر ہے۔ اسی لیے یہ بات پورے وثوق اور اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ حضرت مولانا کی تاریخ اکابر دیوبند کے ذکر کے بغیر ادھوری در ادھوری ہے۔آپ کی فکر میں انقلابی سوز وساز، قلم میں زبردست تسخیری طاقت اور مزاج میں عزیمت و استقلال اور توازن و اعتدال پیداکرنے میں اکابر دیوبند کا ہاتھ ہے، جس سے آپ مقبول عام اور مشہور آفاق ہوئے؛ کیوں کہ شہرت و مقبولیت کی بنیاد زبان و ادب سے کہیں زیادہ فکر کی گہرائی ، نگاہ کی بلندی اور خیالات کی پرواز پر ہوتی ہے۔ خود حضرت مولانا نے پوری اخلاقی جرأت کے ساتھ اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے: ”میری زندگی میں وہ بڑا مبارک دن اور بڑی سعید گھڑی تھی جب مولانا احمد علی صاحب لاہوری امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ لاہور سے نیاز حاصل ہوا۔ میری زندگی کے دو بڑے موڑ ہیں جہاں سے زندگی نے نیا راستہ (اور جہاں تک میرا خیال ہے بہتر اور مبارک راستہ) اختیار کیا۔ پہلا موڑ جب مولانا احمد علی صاحب سے تعلق پیدا ہوا۔ دوسرا موڑ اس وقت آیا جب خدا نے مولانا محمد الیاس صاحب کے پاس پہنچایا ۔ اگر مولانا احمد علی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو میری زندگی اچھی یا بری ، بہر حال موجودہ زندگی سے بہت مختلف ہوتی، اور شاید اس میں ادب و تاریخ اور تصنیف و تالیف کے سوا کوئی ذوق اور رجحان نہ پایا جاتا۔ “ (پرانے چراغ، جلد اول، ۱۳۴)
حضرت مولانا احمد علی لاہوری حضرت شیخ الہند کے شاگرد حدیث اور دارالعلوم دیوبند کے مجاہد جلیل مولانا عبیداللہ سندھی کے انقلابی افکار کے سب سے بڑے وارث وامین تھے۔اسی طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحب خوانِ شیخ الہند کے خوشہ چیں اور قاسم العلوم ولخیرات حضرت نانوتوی کی بے چین روح کی زندہ تصویر تھے۔حضرت مولانا علی میاں نے دونوں سے بھرپور استفادہ کیا اور خود مولانا ہی کے بقول آپ کی زندگی میں یہیں سے انقلاب برپا ہوا۔
ہندوستان پر برطانوی سامراج کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبد العزیز قدس سرہما کی مجاہدانہ روح سید احمد شہید اور ان کے رفقاء میں منتقل ہوئی تھی۔ جہاد ۱۸۵۷ء کے جاں باز ، حوصلہ مند اور غیور مجاہدین میں بھی وہی روح کارفرما تھی جس نے آگے چل کر ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کی داغ بیل ڈالی اور جہاد آزادی ٴ ہند کے لیے شیخ الہند کو کھڑا کیا جو سراپا ولی اللہی و قاسمی مشن کے علم بردار تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان سے وابستہ رہنے والے ایک ایک فرد میں یہ چنگاری پھیلی جن میں حضرت مولانا عبید اللہ سندھی اور شیخ الاسلام حضرت مدنی قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا علی میاں نے شیخ الہند کی وہی آفاقی روح ایک طرف حضرت مولانا احمد علی صاحب سے حاصل کی جو براہ راست حضرت شیخ الہند کے شاگرد ہونے کے علاوہ مولانا عبید اللہ سندھی کے جلیل القدر شاگرد تھے۔ دوسری طرف آپ نے حضرت شیخ الاسلام مدنی کے ہاتھوں اپنے جد امجد سید احمد شہید کی قیمتی وراثت پائی جو سچ پوچھیے ان کی زندگی کا اصل سرمایہ تھی۔ وہی عزم و حوصلہ، وہی فخامت و شہامت، وہی جہد وعزیمت، وہی قیادت و خود اعتمادی اور وہی استقلال و ثبات قدمی کا جوہر جو سید احمد شہید کی تلوار میں سمایا ہواتھا حضرت مولانا علی میاں کے قلم کی روشنائی میں جذب ہوگیاتھا۔وقت اور حالات کے بدلتے ہوئے تناظر میں اس مرد مجاہد کا اسلحہ بھی بدلتا رہا۔ مگر دونوں میں ایک ہی شان تھی؛ انقلاب انگیز اور عہد ساز شان، اللہ اکبر!یہ اسی روح کا تسلسل تھا جو کاروان ولی اللہی کے ایک ایک فرد میں پائی جاتی تھی۔ حضرت مولانا علی میاں صاحب نے یہ وراثت تو پہلے لاہور میں حاصل کی ، اور پھر دیوبند میں حضرت شیخ الاسلام مدنی کے در اقدس پر۔ (پرانے چراغ، جلداول ،ص ۹۱)
مذکورہ اکابر دیوبند کے علاوہ حضرت مولانا کا تعلق حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ، شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب سے بھی تھا۔ ان حضرات میں خاص طور سے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے جذبہٴ دعوت ، سوزدروں اور دل دردمند نے آپ کو بہت متاثر کیا، جیسا کہ مولانا کی کتاب ’مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔حضرت مولانا نے اسی میخانے سے عرفان محبت کا جام پیا اور پوری ملت کا درد وغم اور پوری امت کی اصلاح کی فکر کولے کر نکلے اور جذبہٴ دعوت و اصلاح سے سرشار ہو کر مشرق و مغرب اور عرب و عجم کی حد بندیوں کو توڑتے ہوئے پوری پوری امت میں دعوت کا صور پھونک دیا اور مادیت و لادینیت سے نبرد آزما ہوگئے۔ عالم گیر دعوت، مادیت و لادینیت سے پنجہ آزمائی اور اسلامی غیرت و حمیت حضرت مولانا کی زندگی کا امتیازی وصف تھا جس کا بیج اکابر دیوبند نے ڈالاتھا۔
حضرت مولانا اور اکابر دیوبند
حضرت مولانا نے اپنی مختلف تحریروں میں علمائے دیوبند کی علمی و دینی خدمات اور ان کے تجدید و احیائے دین کے عظیم الشان کارناموں کا جو اعتراف فرمایا ہے وہ اس مختصر مضمون کے دائرہ سے باہر ہے۔حضرت شیخ الاسلام مدنی، مولانا احمد علی لاہوری، اور مولانا محمد الیاس، حضرت مولانا عبد القادر رائپوری کے علاوہ علمائے دیوبند کی ایک طویل فہرست ہے جن سے مولانا مرحوم کے انتہائی قریبی، نیازمندانہ و ارادتمندانہ یا محبانہ و دوستانہ تعلقات تھے۔حضرت مولانا نے جن حضرات سے اپنے تعلق و محبت اور نیاز مندی و ارادت کا کھل کر تذکرہ کیا ہے ان میں حکیم الامت حضرت تھانوی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب، سلطان القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی،مصلح الامت حضرت مولانا وصی اللہ ،حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی ، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب اور مولانا سعید احمد اکبرابادی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز فرزند حضرت مولانا منظور احمد نعمانی سے آپ کے قدیمی محبانہ و مخلصانہ تعلقات تو کسی ایسے شخص سے مخفی نہ ہوں گے جسے آپ کی شب و روز کی سرگرمیوں کا قدرے بھی علم ہوگا۔مولانا نعمانی آپ کے یار غار تھے، جذبہ و فکر کے اتحاد اور دعوتی مزاج و مذاق نے آپ دونوں کو باہم اس طرح وابستہ کردیا تھا جیسے گلاب کے ساتھ خوشبو۔(تفصیل کے لیے دیکھیں: سوانح حضرت مولانا شاہ عبد القادر، پرانے چراغ، جلد اول، ص ۱۰۵، ۱۱۹، ۶۲،۹۳،پرانے چراغ سوم ۱۳۱،۱۴۳)
دار العلوم دیوبند اور ندوة العلماء لکھنوٴ
اب علمائے دیوبند سے قطع نظر تحریک دیوبند کے متعلق حضرت مولانا کے خیالات کیا تھے ؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھی انتہائی اختصار کے ساتھ سپرد قلم کردیاجائے ۔حضرت مولانا ایک جگہ رقمطراز ہیں : ” دارالعلوم دیوبند محض ایک دینی درسگاہ ہی نہیں جس کو ازہر ہندکہنا ہر طرح درست ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے وہ جامعہ ازہر مصر سے بھی فائق ہے۔ اصلاح عقائد اور اشاعت کتاب وسنت کی تاریخ سازدعوت ہے ،وہ درحقیقت خاندان ولی اللہی کے تجدید ی کارنامے کاامتداد او رتسلسل ہے“۔ (کاروان زندگی،جلد دوم ، ۳۰۰)
حضرت مو لانا نے اپنی ایک کتاب میں ہندوستان کی دینی تحریکوں اور تجدیدی کارگاہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے نمبر پر دارالعلوم دیوبند کا تعارف کر اتے ہوئے لکھا ہے : ”اس تحریک او راس کے قائدین نے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر دین کی محبت شریعت کے مقابلے میں زبردست استقامت وصلابت پیداکر دی (جوکسی اور ایسے ملک میں دیکھنے کو نہ ملی جس کا مغربی تہذیب اورمغر بی اقتدار سے واسطہ پڑاہو ) دیوبند اس رجحان کا علم برادار اور ہندوستان میں قدیم اسلامی ثقافت وتہذیب وتربیت کا سب سے بڑامرکزتھا۔“ (مسلم ممالک میں اسلامیت ومغربیت کی کش مکش، ص۹۰)
حضرت مولانا بڑے ہی وسیع الظرف اور معتدل مزاج تھے، انھوں نے نظریاتی اور فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر حقائق کا اظہار و اعتراف کیا ہے۔ ندوہ اور دیوبند میں نظریہٴ تعلیم اور طرز فکر کے اختلاف کے علاوہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے جیسا کہ گذشتہ سطور سے اندازہ ہوتا ہے۔ بعض حقیقت ناشناس اور متعصب و تنگ نظر یہ سمجھتے ہیں کہ ندوہ اور دیوبند دو الگ الگ مکتبِ فکراور مختلف فکری دھاروں کانام ہے، مگر حضرت مولانا نے دونوں کو ایک ہی شمع کی روشنی ، ایک ہی دل کی آواز اور ایک ہی مقصد کا حامل قرار دیاہے۔ایک تقریر میں آپ طلبہٴ دیوبند سے خطاب فرمارہے ہیں: ”ملک میں تجدید و احیائے دین کا جو کچھ کام ہوا ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کا کارنامہ ہے۔ کیا دیوبند کیا سہارن پور، کیا دہلی ،کیا لکھنوٴ؟ ہم سب انھیں کے خوان نعمت کے ریزہ چیں ہیں۔ عزیزو! مولانامحمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوة العلماء کو کس چیز نے تڑپایا ؟ ایک کو یہاں دوسرے کو وہاں۔ میں ان دونوں میں کچھ فرق نہیں سمجھتا،ایک ہی نور باطن اور ایک ہی فراست ایمانی دونوں میں کام کرہی ہے۔“ (پاجا سراغِ زندگی)
المختصر مولانا ایک عالمی اور آفاقی انسان تھے ، آپ نے بہت سے چشموں کا پانی پیا، بہت سے گلشنوں سے خوشہ چینی کی، بہت سے ارباب علم و عمل سے استفادہ کیا، ندوہ و دیوبند کے علاوہ انھوں نے عرب کے نامور عربی ادباء و مفکرین کی تحریروں سے اپنی زبان و ادب پر سان چڑھائی تھی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے افکار و خیالات سے اپنی فکر و نظر کو جلا بخشی۔ نہ آپ خالص ندوی تھے اور نہ خالص دیوبند کے فیض یافتہ، نہ محض اقبال کی فکر سے متاثر تھے اور نہ ہی عربی ادباء کے ادب سے۔ وہ ندوہ کی تاریخ و ادب، اقبال کی خود داری و غیرت ، عربوں کی فکر و نظر اور دیوبند کے اعتدال و توازن ، حمیت اسلامی اور سوز و ساز کے بیک وقت جامع تھے۔ایک آفاقی شخصیت کو آفاقی عینک ہی سے دیکھنا اور آفاقی معیار پر ہی اتارنا چاہیے۔ مسلک و مذہب اور فکر و نظر کے دائرے میں اس کو مقید کرنا اس شخصیت کے ساتھ ظلم اور اس کی سوانح نگاری کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ایک بار حضرت مولانا نے ایک ایسے ہی موقع پر اپنے بارے میں فرمایا تھا:
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن # کسی جمشید کا ساغر نہیں میں