ایلا مشرا ،دیوبند
محترمہ ایلا مشرا کا تعلق دیوبند کے ایک ہندو علمی گھرانے سے ہے، جنگ آزادی کی تاریخ خصوصاً تحریک حریت میں مسلمانوں کی حصہ داری سے ان کو خاص دلچسپی ہے، چنانچہ پی، ایچ، ڈی کا تحقیقی مقالہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کی تحریک حریت سے متعلق ہے، زیر نظر مضمون سے محترمہ ایلا مشرا کے فکری رجحانات کا ندازہ ہوتا ہے۔(ادارہ)
میں نے پی،ایچ،ڈی”تحریک ریشمی رومال : ایک مسلم انقلابی تحریک“ پر کی ہے، لیکن یہ موضوع جب مجھے تحقیق کے لئے دیاگیا تو اس وقت مجھے بڑا اٹ پٹا سا لگا کیوں کہ اس موضوع پر بہت کم مواد ہے اور لوگوں کو بہت کم جانکاری ہے۔ اس کے بعد میں نے دارالعلوم دیوبند سے رابطہ کیا ، وہاں کے محافظ خانے اور شیخ الہند اکیڈمی سے بہت مدد ملی۔ میرے سامنے ایک بہت بڑی مشکل یہ تھی کہ میں پوری طرح اردو نہیں جانتی تھی، جب کہ زیادہ تر مواد اردو میں ہی ہے۔ میں نے ہمت کی، اردو پڑھی، اس کے بعد اردو کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا اورپھر جو تصویر اس موضوع کی میرے سامنے آئی وہ حیرت میں ڈالنے والی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ پہلا مضبوط انقلابی موومنٹ تھا جس میں ہندو ومسلمان ایک ساتھ تھے، اور انگریزوں کے ظالمانہ قبضہ کو ختم کرکے ان کو ہندوستان سے نکال کر ملک کو آزادکرنا چاہتے تھے۔
اتنی بڑی تحریک کو کانگریس کی تاریخ یا جنگ آزادی کی تحریک کی تاریخ میں کوئی جگہ نہیں دی گئی، جو ٹھیک نہیں ، دیانتداری کے خلاف ہے۔ جب کہ میری تحقیق سے پوری طرح صاف ہوجاتاہے کہ مسلمانوں نے مولانا محمود حسن کی قیادت میں آزادی کے لئے بے پناہ مصیبتیں اٹھائیں اور باہر کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کرنے کی کوشش کی,جب کہ دوسرے رہنماؤں کے ذہن میں یہ تصور نہیں تھا۔
تحریک ریشمی رومال کہاں سے چلی؟ اس تحریک کو دارالعلوم دیوبند نے چلایا جو ایک قومی درسگاہ ہے۔اس نازک وقت میں جب ملک کی آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی، دارالعلوم نے وطن پر قربان ہونے والے بہت سے نوجوان پیدا کئے۔دارالعلوم کا مقصد شخصی اور قلبی طور سے مذہب کو ماننا اورملکی طور پر اہل وطن کے ساتھ مل کر جنگ آزادی میں کام کرنا تھا، اور وہ اس کو مذہبی فریضہ بھی سمجھتے تھے۔
مسلم انقلابی تحریک کے بانی مولانا محمود حسن دیوبندی دارالعلوم میں پڑھے اور پھر یہیں کامیاب استاذ ہوئے، انقلابی شخصیتیں تیارکیں۔ اس طرح اپنے وطن عزیز کے لئے ایک درخشاں مثال قائم کردی، یہ انقلابی ہر قیمت پر انگریزوں سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ مولانا محمود حسن نے افغانستان کی سرحدوں پر رہنے والے قبائلی سرداروں سے رابطہ کیا ۔ وہاں کے سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان (بادشاہ خان) وغیرہ کو بھی اعتماد میں لیا، اس انقلابی تحریک کو رولٹ نے اپنی رپورٹ میں ”تحریک ریشمی رومال“ کا نام دیا ہے اور اپنی اس رپورٹ میں لوگوں کو جانکاری دی ہے۔ یہ تحریک صرف مسلمانوں کی ہی نہیں تھی بلکہ وطنی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے کابل(افغانستان) میں ایک آزاد ہند سرکار بنائی جس کے صدرراجہ مہندر پرتاپ تھے، اور یہ ماننا پڑے گا کہ اس تحریک کے اصل بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن تھے۔ تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک ریشمی رومال ہندوستان کی آزادی کے لئے ملی جلی اور بارآور ایک کوشش تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک مخصوص رول ادا کیا ہے، اس کے بزرگوں نے ہندوستان کے بٹوارے کی اسکیم کو کبھی قبول نہیں کیا، ہمیشہ اس مخالفت کی ، اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی تو ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
میں انقلابی تحریک کے بارے میں اس مضمون میں بہت ہی کم لکھا ہے,زیادہ جانکاری میرے تحقیقی مضمون میں مل سکتی ہے، جو ان شاء اللہ جلد ہی کتاب کی شکل میں آپ سب کے سامنے آجائے گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ جن مسلم رہنماؤں نے آزادی وطن کے لئے سخت مصیبتیں اٹھائیں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے، یہ تاریخ کی ایک بہت بڑی کمی ہے، اگر مولانا محمود حسن، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، خان عبد الغفار خان، راجہ مہندر پرتاپ( کابل میں بنی ہند سرکار کے صدر )نہ ہوتے تو شاید ہندو مسلم ایک ساتھ اکٹھے نہ ہوپاتے، تو ہندوستان کو آزاد کرانے کا حسین خواب شرمندئہ تعبیرنہ ہوپاتااور نہ جانے کب تک ہمارا یہ وسیع ملک انگریزوں کا غلام رہتا۔
آج ہمارے نوجوانوں کو ان اہم اور مخلص شخصیتوں کی کارگزاریوں سے واقف کرانا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ نامکمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پوری جدوجہد کا اصل مرکز دارالعلوم دیوبند رہا ہے، اس حقیقت کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
2005