سلسلہ تعارف کتب (22): محسن شخصیات (حصہ اول)

*تعارف نگار:مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*

*نام کتاب: محسن شخصیات ( حصہ اول )*

*مصنف:مولاناوزیر احمداعظمی ندوی*

پیش نظر کتاب دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ ، مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ اور دوسرے علمی مراکز کے مردم ساز ، بلند پایہ اساتذہ کرام اور دیگر مردم گر محسنین ومتعلقین کے گراں قدر خاکوں اور تذکروں پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف مولانا وزیر احمد اعظمی ندوی (ولادت: ١٦ جولائی ١٩٦٤ء)ولید پور ضلع مئو کے رہنے والے ایک ذہین وفطین عالم ہیں ، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ، اس کے بعد مدرسہ احیاء العلوم مبارکپور میں داخلہ لیا جہاں چند ماہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ابتدائی عربی تعلیم کے لئے مدرسہ دینیہ غازی پور میں داخلہ لیا ، لیکن چند ماہ بعد وہاں سے مدرسة الاصلاح سرائمیر میں آگئے ، اس کے بعد دارا لعلوم ندوة العلماء سے عالمیت کی تکمیل کی ،پھرعربی ادب میں تخصص کیا ۔انھیں ان کی صلاحیت و لیاقت کی بنا پر النادی العربی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا جو ندوہ کے طلبہ کے لئے بڑا اعزاز مانا جاتا تھا، اور جب المعہدالعالی للدعوة والفکر الاسلامی میں داخلہ لیا تو ندوہ کے ایک ہاسٹل کا نگراں مقرر کیاگیا، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی ادارہ میں کسی طالب علم کو نگراں بنایا جائے۔اساتذہ کا اعتماد کسی طالب علم کی لیاقت وصلاحیت کی سب سے بڑی سند ہے، چنانچہ فراغت کے بعد ان کو ندوہ میں تدریس کے لئے منتخب کیا گیا ۔ چند سال کے بعد وہ ١٩٨٨ء میں دبئی چلے گئے جہاں وہ اس وقت ویسٹ منسٹر اسکول دبئی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مولانا وزیر صاحب کا شمار ندوہ کے ممتاز اہل قلم طلبا میں ہوتا تھا ، لیکن دبئی کے قیام کے بعد قرطاس وقلم سے رشتہ تقریباً ختم سا ہوگیا تھا ، لیکن جب تیس سال کے بعد انھوں نے اپنے بعض احباب کی فرمائش پر یہ خاکے اور تذکرے لکھنے شروع کئے تو پڑھ کرحیرت ہوتی ہے کہ قرطاس و قلم سے ایک طویل عرصہ تک دور رہنے کے بعد بھی مولانا کے قلم کی شگفتگی اور تحریر کی روانی ہنوز برقرار ہے ۔ یہ تمام تذکرے بالکل برجستہ واٹس اپ پر لکھے گئے اور بعد میں ان پر نظر ثانی کرکے کتابی شکل دی گئی ہے۔

یہ تذکرے کیا ہیں؟ مصنف کے رفیق درس مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی کے تاثرات ملاحظہ فرمائیے:

*محب گرامی وزیر احمداعظمی ندوی کی تازہ تصنیف ”میری محسن شخصیات”ان کے اساتذہ کرام اور دوسرے مخلصین ومحبین کے تعارفی خاکوں پر مشتمل ہے جنہوں نے وزیر احمد اعظمی صاحب کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ کتاب ایک اطاعت شعار، فرمانبردار شاگرد رشید کا نذرانہ عقیدت ہے اپنے یکتائے زمانہ اساتذہ کرام کی بارگاہ میں جن کی شفقتوں ،عنایتوں اور توجہات نے ایک سنگ راہ کو علم وادب کا نیر تاباں بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسی تعلیم وتربیت کا ثمرہ ہے کہ آج میری محسن شخصیات منصۂ شہود پر آرہی ہے جو یقینا طالبان علوم نبویہ اور علماء واساتذہ مدارس سے محبت رکھنے والوں کے حق میں وقیع معلومات کی دستاویز ہوگی۔(ص: ١٤)*

حصہ اول میں جن اساتذہ کرام کا تذکرہ ہے ان میں سے چند کے اسماء گرامی یہ ہیں :

*حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی،مولانا محمد رابع صاحب حسنی ندوی، مولانا واضح رشید حسنی ندوی ، مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی، مولانا محب اللہ صاحب لاری ندوی،مولانا ابو العرفان خاں صاحب ،مولانا شہباز صاحب اصلاحی مرحوم ،مولانا نور عظیم صاحب ندوی مرحوم،مولانا احتشام الدین صاحب اصلاحی،مولانا محمد ایوب صاحب اصلاحی، مولاناڈاکٹر ابواللیث صاحب قاسمی خیرآبادی اورمولانا اعجازاحمد صاحب اعظمی بھیروی وغیرہم۔* کل تذکروں کی تعداد تقریباً پچاس ہے۔جس میں اساتذہ کے علاوہ رفقاء، احباب ، برادران گرامی قدر اور دیگر اہل خاندان کا تذکرہ ہے۔

یہ حصہ ٢٣٢ صفحات پر مشتمل ہے ، مولانا ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کے پیش لفظ سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے ،اس کے بعد مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی ندوی کے تاثرات اور مولانا عبد الحی ندوی مقیم قطر کے تعارفی کلمات ہیں ۔ ڈاکٹر اکرم صاحب اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

*وزیر ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پوری محنت سے اس عہد کی تاریخ مرتب کی ، جس کی وجہ سے یہ کتاب ایک قسم کی دستاویز بن گئی ہے، اور آئندہ کے مورخین کے لئے ایک کامیاب مرجع، اور خاص طور سے ندوہ کی تہذیب وثقافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک قیمتی تحفہ، اس کتاب نے اس تاریخ کو دل آویز اور دیدہ افروز بنادیا ہے۔*

کتاب مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد سے شائع ہوئی ہے ،اور یہاں سے طلب کی جاسکتی ہے۔اس کے حصہ دوم کا تعارف ان شاء اللہ کل پیش کیا جائے گا۔

ضیاء الحق خیرآبادی

١٥ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ١٥ جولائی ٢٠٢٢ء یوم الجمعة

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے