بس وہی اک جرأتِ اظہار کرے ہے

مفتی محمد ساجد کھجناوری
مدرس جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ سہارنپور یوپی
ایسے وقت میں جبکہ اسلام اور اس کے نام لیواوٴں پر ہر چہار جانب سے فراعنہٴ عصرکے تابڑ توڑ فکری اقتصادی اور عسکری حملے جاری ہیں ، اللہ کی یہ سرزمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوصف دین پسندوں پر تنگ کرنے کی خفیہ وعلانیہ ناپاک سازشیں رچی جارہی ہیں ، بر وبحرمیں فساد مچانے والے امن کے نام نہاد ٹھیکیدار انسانیت کے واجبی حقوق کی ادائیگی سے بھی صرف نظرکرتے ہوئے نسلِ آدم کی لہلہاتی فصلیں اپنے پاوٴں تلے روندتے چلے جارہے ہیں، تو اگر کسی مملکت نے ظالموں کو للکارا ہے اور انہیں آئینہ دکھانے کی جرأت مندانہ طرح ڈالی ہے وہ ترکی حکومت ہے، جس کے سربراہ معظم رجب طیب اردغان نے احقاق حق کااپنا فریضہٴ منصبی ادا کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی حیثیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے ، جرأت اظہار کی اپنی منفر د شبیہ رکھنے والے ترکی صدرنے ترکمانستان کے مرکزی مقام عشق آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ”اقوام متحدہ ظالموں کے سر پرستوں کا ٹولہ بن چکی ہے، کیونکہ اگر اقوا م متحدہ فلسطین میں مساجد اور بچوں کو بھی تحفظ نہیں دلاسکتی تو میرے خیال میں اس ادارہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اس کے ہونے اور نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، موصوف نے یہ بھی کہاکہ مسجد اقصیٰ صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ ہم سب کی اور تمام مسلمانوں کی میراث ہے، یہ مقدس مقام بھی خانہٴ کعبہ کی طرح عالم اسلام کا مرجع اور مرکز ہے، لہذا اس پر ناپاک صیہونیوں کے حملے ناقابل معافی جرم ہیں اور یہ کہ عالم اسلام اپنے قبلہٴ اول کو یہودیوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتا ، صدر موصوف نے مزید کہاکہ صیہونی حکومت عالمی معاہدے کے تحت مسجد اقصیٰ کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے ، اگر وہ پابندی نہیں کرے گی تو ہم جبراً ایسا کرائیں گے“۔
ترک صدرکا مذکورہ یہ بیان الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی شہ سرخیوں میں دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے ، صدر موصوف کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ کے حالات دھماکہ خیز بنے ہوئے ہیں۔ سقوطِ مصرکے بعد متعدد ممالک میں شہ اورمات کا کھیل ہنوز جاری ہے۔ یمن میں بھی انتقالِ اقتدار کا مرحلہ ہوچکا ہے۔ شام میں افراتفری کا ماحول بدستور ہے، جہاں ظالم وجابر بشار الاسد نے لاکھوں نفوس کو ابدی نیند سلادیا ہے۔ عراق میں داعش کا ہوا کھڑا کرکے اس کی ناقابل قبول تقسیم کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں” دولت اسلامیہ عراق وشام“ کے پلیٹ فارم سے راتوں رات جس مسلح جدوجہد کا آغاز اور پھر بزعم خویش اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی وکالت جتنی شدومد سے روا رکھی جارہی ہے اس سے عالم اسلام کا اضطراب بالکل فطری ہے ، ایسا لگتا ہے کہ عالمی طاقتیں اپنا سابقہ حساب بے باق کرنے میں لگی ہیں۔ انہیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے خواہ کتنا ہی سخت فیصلہ کیوں نہ لینا پڑے مگر وہ اپنی مکروہ سرگرمیوں سے باز نہیں آئیں گی۔ اسی لئے انہوں نے متعدد ریاستوں کے سربراہان اور بااثر لوگوں کو ترغیب وترہیب سے ہم عناں کرکے رام کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لبِ اظہار پر تالے لگے ہوئے ہیں، انہیں اقتدار سے چمٹے رہنے کا نہ صرف یقین دلایا گیا ہے بلکہ ظاہری اسباب میں تحفظ کی گارنٹی بھی انہیں دی گئی ہے، اسی لئے آج پورے قافلہٴ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں ہے، سبھی کو فکرہے تو بس اپنے آشیانوں کو محفوظ رکھنے کی ہے جبکہ ۵۶/ سے زائد اسلامی ممالک ہیں جن کا اتحاد ووفاق اس دنیا کو تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے، ظالموں کا پنجہ مروڑ سکتا ہے، اور اس جہاں کو امن وآشتی کا گہوراہ بنا نے میں موٴثر کردار ادا کرسکتا ہے ، مگر برا ہو ابن الوقتی اور نفاق وافتراق کا کہ ان خصائل مذمومہ نے امت مسلمہ کا وقارہی داوٴں پر لگا دیا ہے ۔
لہذا حسرت وافسوس کے اس موقع پر آج عالم اسلام پھر اسی ترکی کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے جس کی باگ ڈور طیب اردغان جیسے دانا وحکیم سیاست داں کے مضبوط ہاتھوں میں ہے، جس نے اپنی سیاسی گہری بصیرت اور دانش مندی سے سقوطِ خلافت عثمانیہ کا نہ صرف مداوا شروع کیا ہے بلکہ عالم اسلام کو اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآہونے کا درس بھی دیا ہے ۔ طیب اردغان ہی وہ اکیلے نڈر ملکی رہنما ہیں جنہوں نے مصرمیں ایک منتخب جمہوری حکومت کے تختہ پلٹ کرنے پر شدید احتجاج کیا تھا، وہ مرسی حکومت کے نہ صرف موید تھے بلکہ اس کے برگ وبار پھیلنے کی دلی تمنابھی رکھتے تھے۔ لیکن سامراجی طاقتیں انہیں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کیلئے چونکہ خطرہ سمجھتی تھیں لہذا مرسی حکومت کو دن دہاڑے ہی ختم کرادیاگیا۔
ایسا نہیں ہے کہ ترک حکومت کے سامنے مسائل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اپنی اسلام نوازی اور احیائے دین کے سبب دشمنانِ اسلام کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ، اسی لئے نت نئے پروپیگنڈے عالمی میڈیا کرتا رہا ہے مگر چونکہ وہ جمہوری طریقے پر بھاری اکثریت سے منتخب ہوکر آئے ہیں ، مزید برآں آج کا ترکی ان کی قیادت میں جس طرح ترقی کی شاہراہ پر تیز گام ہے اس نے ماضی کے ریکارڑ توڑدئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ ترکوں کی نگاہ میں بھی چڑھ گئے ہیں اور یورپی یونین کی رکنیت کا ان کا دعویٰ بالکل حق بجانب ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسٹر اردغان اور اس کے پیش رو نجم الدین اربکان اور عبداللہ گل نے ترکی دولت کو اس کی متاع گم شدہ سے متعارف کرانے کی جو پاکیزہ تحریک شروع کی تھی وہ بار آور ہورہی ہے ، اسلامی بیداری پہلے سے فزوں تر ہے ، لادینیت اور مغربیت کا استیصال ہورہاہے ، لوگ اپنے فطری مذہب کو گلے لگارہے ہیں اور مصطفیٰ کمال پاشا کے خود ساختہ بلکہ سامراجی نظریات اس خداوندی دستور کے مطابق بالکل اس جھاگ کے مانندبے اثر ہورہے ہیں جسے قرآن مقدس نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآء اً وَاَمَّا مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ کَذَالِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ (الرعد) ۔
Cell: 09761645908 Email: sajidkhujnawari@gmail.com

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے