عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
مدیر تحریر ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور
Email:abdullahkhalid59@gmail.com
اپریل 2002 بی جے پی دور حکومت میں حکومت ہند کے خفیہ اطلاعات جمع کرنے والے ادارہ انٹلی جنس بیورو (I.B)نے وزارت داخلہ کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کی تعداد، ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلبہ کی مکمل تعداد تک موجود تھی، رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ ملک کی گیارہ ریاستوں میں کل (انتیس ہزار اٹھتر)مدارس ہیں جن میں (انہترہزار نو سو پینتالیس) اساتذہ پڑھاتے ہیں اور (سترہ لاکھ پندرہ ہزار چھبیس) طلبہ پڑھتے ہیں، اس رپورٹ میں وزارت داخلہ پر یہ زور دیا گیا تھاکہ وہ ان ناجائز مدارس پر دھاوا بول دے اور اس میں یہ بھی دعوی کیا گیا تھا کہ ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، غیر ممالک سے چندہ وصول کیا جاتا ہے۔ انٹلی جنس بیوروں نے مزید وزارت داخلہ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کی رپورٹ غلطیوں سے پاک ہے ، رپورٹ میں مدرسوں کے ناجائز استعمال کی چند مثالیں بھی پیش کی گئی تھیں، اور کہا گیا تھا کہ کچھ مدارس تو دھماکہ خیز مادے اور دیگر ہتھیاروں کے اسٹورہاوس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
اسی طرح اگست 2001میں یوپی حکومت (جو بی جے پی کے اشتراک سے وجود میں آئی تھی)نے ایک ایسی ہی رپورٹ جاری کی تھی جس میں خفیہ اداروں نے دعوی کیا تھاکہ آئی ایس آئی نے مغربی یوپی اور ہندتبت سرحدی علاقوں میں اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں اور دھرم استھلوں (مذہبی مقامات) کو ان کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔
میں بھی اسی طرح کی ایک شرانگیز رپورٹ آئی تھی ، ایک ہندو صحافی راجیوچترویدی نے لکھا تھا کہ اسلامی مدرسوں میں آتنک واد کی تعلیم دی جارہی ہے ،اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کے (پانچ سو پینتیس) اضلاع میں سے (دوسودس) کے مدارس میں آئی ایس آئی کے افراد بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہیں۔
مندرجہ بالا رپورٹیں اور اسی طرح کی نہ جانے کتنی شرانگیز تحریریں ماضی میں مدارس کے تعلق سے سامنے آتی رہی ہیں اور حکومت ہند نے باقاعدہ ان کا ایکشن لیا اور مدارس پر شکنجہ کسنے کے لیے باضابطہ قانون سازی کی مہم چلائی لیکن بر وقت مسلمانوں کی بیداری اور احتجاج سے اس طرح کی شر انگیز اور نفرت آمیز رپورٹوں کا کذب سامنے آیاکیونکہ ان رپورٹوں میں مدارس اسلامیہ دینیہ پرلگائے گئے بے جا الزامات کا حقیقت سے دور دور تک بھی واسطہ نہیں تھا اور ہندوستانی ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ امن وامان کی بحالی اور ملک و ملت کی تعمیر میں ان مدارس اسلامیہ کا جوکردار رہا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی،حکومت کے بے جا الزامات کا یہ معاملہ اس وقت اور سرد پڑگیا جب خود اس وقت کے وزیر داخلہ اڈوانی سے یہ پوچھا گیا کہ ان تمام رپورٹوں اور سرکاری تجزیوں کے بعد کیا آپ کو کو کوئی ایسا مدرسہ ملا جس میں دہشت گرد پلتے ہوں یا دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو؟ تو انھوں نے نفی میں جواب دیااور صاف کہا کہ ہمیں کوئی مدرسہ اب تک ایسا نہیں ملا۔
مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں حکومت ہند اور ارباب حکومت کی دشمنی کی ایک طویل کہانی ہے اور ماضی میں عملی طور پر حکومت کی طرف سے اس کا اظہار بھی متعدد بار متعدد مقامات پر ہوچکا ہے،لیکن وقت جوں جوں گذرتا جارہا ہے ،آئینہ سے گرد صاف ہوتی جارہی ہے اورصاف صاف ستھری تصویر سامنے آرہی ہے ،ابھی اسی ہفتہ وزارت داخلہ کی اس سلسلہ میں تازہ ترین رپورٹ آئی ہے:
کلکتہ (یو این آئی)اکتوبر ء کو بردوان کے کھگڑا گڑھ میں ہوئے بم دھماکہ کے بعد سے ہندوستانی سیاسی پارٹیاں اور میڈیا کے ایک بڑے حلقہ کی طرف سے تنقیدوں کی زدمیں رہنے والے مدرسوں سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں قائم مرکزی حکومت نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دینی مدارس میں دہشت گردی یا مذہبی انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دی جاتی، یہ رپورٹ مرکزی خفیہ ایجنسی اور سیکورٹی اداروں کی طرف سے ملک بھر میں قائم مدرسوں پر کئے گئے سروے پر مبنی ہے ،رپورٹ میں واضح طور پر ان مدارس کو کلین چٹ دی گئی ہے جن کا انتظام و انصرام مکمل طور پر ہندوستانی مسلمان کرتے ہیں ، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں چار مکتبہ فکر کے مدارس ہیں ،دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور بریلوی، مگر کسی بھی مدرسہ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دی جاتی ۔(روز نامہ عزیز الہند دہلی نومبر ء)
حقیقت بھی یہی ہے کہ ان مدارس دینیہ سے امن و سلامتی کا پیغام نشر کیا جاتا ہے، سماج اور معاشرہ کے سدھار کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، مدارس میں بتایا جاتا ہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جس کی ایذا رسانیوں سے دوسرے حضرات محفوظ اور مامون ہوں، یہاں پڑوسیوں کے حقوق کی نگہداشت کی ہدایات دی جاتی ہیں، پوری انسانیت کو ایک کنبہ بتلایا جاتاہے، سب کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دی جاتی ہے ، نسلی تفاخر اور خاندانی برتری کا بت یہاں مسمار کیا جاتا ہے، ملک و ملت کی صلاح وفلاح کی ترکیبیں بتلائی جاتی ہیں،انسانیت نوازی کو یہاں سے فروغ دیا جاتا ہے ۔
جب کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تعلیم الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا ، دینی مدارس جو ہندوستانی تہذیب ومعاشرت کا ایک اٹوٹ اور قانونی حصہ ہیں ان کو ختم کردیا تھا،نظام تعلیم کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکا تھا ،تب دو طبقے سامنے آئے اور انہوں نے ملت کو سہارا دینے کی بات کی تھی،علمائے کرام نے قرآن و سنت کی تعلیم باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اورا سلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا ،انھوں نے اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون مانگا، چندے کیے، گھرگھر دستک دے کر روٹیاں مانگیں، زکو و صدقہ کی رقم وصول کرنے کے لیے دست سوال دراز کیا ، اور سرکاری تعاون سے بے نیاز ہوکر صرف عوامی تعاون سے قرآن و سنت کی تعلیم باقی رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کیا، اپنی عزت نفس کی پرواہ نہیں کی، طعنے سنے، بے عزتی برداشت کی ،لیکن بہر حال اسلامی آثار و ثقافت کو زندہ رکھتے ہوئے ملک و ملت کی تعمیر میں اہم مثبت کردار ادا کیاجس کی گواہی آج دشمن بھی دے رہے ہیں۔
دینی مدارس پورے بر صغیر میں اسلامی اساس کو نہایت مضبوط اور پائیدار بنائے ہوئے ہیں ان کی تاریخ اور بے غبار کردارمیں کبھی بھی کسی منفی نوعیت کی سرگرمی نہیں ملتی ہے بلکہ دین اسلام کا فروغ، ملک و ملت کی تعمیر اور معاشرتی اصلاح کے کارنامے ہی سامنے آتے ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے مدارس کے تعلق سے جاری حالیہ رپورٹ سے اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مدارس اسلامیہ پر ماضی میں جو جھوٹے الزامات لگائے جاتے رہے وہ بے بنیاد اور غیر واقعی تھے،حقیقت یہی ہے کہ دینی مدارس میں مذہبی تعلیمات دی جاتی ہیں اور یہاں سے نکلنے والے طلباء پوری دنیا میں امن و امان کا پیغام دیتے ہیں اور اس وطن عزیز ہندوستان کی نیک نامی اور سرخروئی کا سبب بنتے ہیں۔
حکومت کے ذریعہ خفیہ ایجنسیوں سے کرائی گئی اس حالیہ رپورٹ سے ایسے لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو بغیر کسی ثبوت کے مدارس کو نشانہ بناتے ہیں اور ان پر دہشت گردی کی تعلیم دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ارباب مدارس کو بھی مزید احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،مدارس دینیہ کا جو مشن ہے اس پر پوری پوری توجہ مرکوز رہے،پروپیگنڈوں اور بے جا الزامات سے ہرگز متاثر نہ ہوں ،تعمیر ملک و ملت کا دینی و اخلاقی فریضہ جس انداز سے وہ پورا کررہے ہیں مزید احساس ذمہ داری کے ساتھ اس کو انجام دیں، اور کسی کوحقیقت کیخلاف بولنے کا موقع ہر گز نہ دیں۔