*تعارف نگار:ضیاءالحق خیرآبادی*
*نام کتاب : حیات مصلح الامت*
*مصنف: مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی رح*
مصلح الامت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب اعظمی رح حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح کے ان بافیض خلفاء میں سے ہیں جن سے ایک خلق کثیر نے فائدہ اٹھایا ، اور ان کی ذات سے بے شمار قلوب کی اصلاح ہوئی ۔ ” حیات مصلح الامت ” ان کی پہلی باقاعدہ ومکمل سوانح ہے۔ حضرت مصلح الامت کا انتقال شعبان ١٣٨٧ھ (نومبر ١٩٦٧ء) میں سفر حج کے دوران ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ترجمان وخادم خاص مولانا عبدالرحمن جامی نے حالات مصلح الامت کے نام سے نہایت تفصیل کے ساتھ ان کے حالات وواقعات رسالہ ” معرفت حق ” و” وصیة العرفان ” میں لکھنے شروع کئے، جس کا سلسلہ سالہا سال تک چلتا رہا ۔حیات مصلح الامت کی اشاعت کے سالوں بعد تین جلدوں میں ڈیڑھ ہزار سے زائد صفحات میں یہ کتاب شائع ہوئی۔
ٍ ١٩٧٧ء میں استاذی مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی مدرسہ وصیة العلوم الہ آباد میں مدرس ہوکر پہنچے ، حضرت مصلح الامت علیہ الرحمہ کے کتب ورسائل اور علوم کے ساتھ آپ کا شغف اور تعلق غیر معمولی تھا ، اسی کے ساتھ تصنیفی صلاحیت بھی قابل رشک تھی۔ یہ دیکھ کر جانشین مصلح الامت مولاناقاری محمد مبین صاحب، مولانا عبد الرحمن جامی اور دیگر اہل تعلق نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ حضرت کی ایک مبسوط سوانح لکھیں ، جس میں حالات وواقعات کے ساتھ ان کی خصوصیات وکمالات کا تذکرہ بھی آجائے ۔ مولانا نے ان بزرگوں کے حکم کی تعمیل میں قلم اٹھایا اور چند ماہ میں تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل سوانح تیار کردی ، جو ١٩٨٤ء میں شائع ہوئی ۔ کتاب زبان وبیان، ادب وانشاء اور حسن ترتیب کاشاہکار ہے ،حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے حضرت مصلح الامت کی کبھی زیارت نہیں کی تھی، محض ان پر لکھی گئی تحریروں کو پڑھ کر اپنی غیر معمولی قوت مشاہدہ کی بنا پر ایسی عمدہ سوانح لکھ دی، یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والے کو یقین نہیں آتا کہ یہ کسی ایسے شخص کے قلم سے ہے جس نے صاحب سوانح کی کبھی زیارت نہیں کی ہے۔نامور عالم وادیب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے جب یہ کتاب پڑھی تو ان کے تاثرات یہ تھے :
”…… *مولانا اعجاز احمدصاحب اعظمی کی تالیف کی ہوئی کتاب” حیات ِمصلح الامت ” کا کتابت شدہ مسودہ طباعت کے لئے تیار ہے ، اور جس کی اشاعت دائرة الاشاعت خانقاہ مصلح الامت کی طرف سے عنقریب ہونے والی ہے۔ میں نے جستہ جستہ اس پر نظر ڈالی اور اس کے بعض حصے سنے ، کتاب جدید اسلوب اور مذاق کے مطابق لکھی گئی ہے، اور اس میں جہاں تک مجھے اندازہ ہوا وہ خصوصیات موجود ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ۔ میرا مصنف سے اس کتاب کے ذریعہ پہلی مرتبہ تعارف ہوا ، وہ مدرسۂ دینیہ غازی پور کے مدرس ہیں ، جن کا اصلاً اشتغال درس وتدریس سے ہوگا ، لیکن ان میں تصنیفی سلیقہ، تحریرمیں ایسی شگفتگی اورسلاست ، کتاب میں ایسی حسن ترتیب اور مضامین کا حسن انتخاب ہے جو کہنہ مشق مصنفوں اور اہل قلم میں پایا جاتا ہے۔”(حیات مصلح الامت ،ص: ١٦، طبع دوم)*
اس سے کتاب کی اہمیت اور مصنف کے سلیقۂ تحریر کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔
میرے سامنے کتاب کی دوسری طباعت ہے جس کا سن اشاعت اگست ٢٠٠٧ء ہے ، یہ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ کتاب کا آغازمولانا قاری محمد مبین صاحب کے ”کلمات طیبات ” سے ہوتا ہے ، اس کے بعد مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب کا پیش لفظ ہے ، اس کے بعد مولانا عبد الرحمن صاحب جامی کی ”تصدیق وتوثیق” ہے۔ ”تقریب ” کے عنوان سے مصنف نے اس کتاب کے لکھنے کی داستان بیان کی ہے ، اس کے بعد دوصفحہ میں دیباچۂ طبع دوم ہے۔ *حصہ اول ١٧ ابواب پر مشتمل ہے۔* جس میں حضرت کے آبائی وطن فتح پور تال نرجا کی اجمالی تاریخ،وہاں کا ماحول اور حضرت کے خاندانی احوال، حصول علم کی تفصیلات ، قیام دیوبند ، قیام تھانہ بھون، تدریس، قیام وطن ، وہاں کی خانقاہ کے شب وروز، طالبین وسالکین کی تربیت ،شرپسندوں کی مخالفت اور ان کی اصلاح ، ترک وطن اورگورکھپور والہ آباد کا قیام ،دینی ودعوتی اسفار کی روداد اور سفر حج وحادثۂ وفات ، ان تمام موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔اس حصہ کے ٢٨٤ صفحات ہیں۔
*حصہ دوم میں ٨ ابواب اور پانچ ضمیمے ہیں* ۔ اس کے صفحات ٢٤٤ ہیں ، پوری کتاب ٥٢٨ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ذوق ومزاج اور خصوصیات، ذوق علم ،طریقۂ تربیت واصلاح ، کرامات وقبولیت دعاء ، علماء عصر سے روابط ، اولاد واحفاد اور تالیفات کا ذکر ہے۔ اس حصہ کو پڑھ کر حضرت مصلح الامت کے مقام ومرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ پانچ ضمیموں میں سے پہلا ضمیمہ ” چار ہفتہ ایک کہف میں ” حضرت حکیم الامت کے خلیفہ ، مشہور فلسفی عالم مولانا عبدالباری ندوی کا ہے ، وہ ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح الامت کی خدمت میں فتح پور پہنچے ،یہاں کے طرز وانداز کو دیکھ انھیں خانقاہ تھانہ بھون یاد آگئی ، انھوں نے ایک طویل مکتوب صاحب”صدق ” مولانا دریابادی کو لکھا ، مولانا دریابادی نے اس کو چار ہفتہ ایک کہف میں کے عنوان سے چار قسطوں میں صدق میں شائع کردیا ، یہ مکتوب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ، یہ کتاب کے ٤٤٦ سے ٤٦٣ تک ١٨ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی اشاعت کے بعد تو طالبین وسالکین کا اتنی کثرت سے خانقاہ مصلح الامت کی طرف رجوع ہوا کہ تھانہ بھون کی یاد تازہ ہوگئی ۔ دوسرے ضمیمہ میں الہ آباد کا ایک تاریخی وعظ ہے، تیسرے میں ایک مجلس کے ملفوظات ہیں ۔ چوتھے میں منطق کی مشہور کتاب ” سلم ” کا ایک درس ہے، جو حضرت کے کاغذات میں محفوظ رہ گیا تھا ۔ پانچواں ضمیمہ حضرت مصلح الامت اور ان کے شیخ حضرت حکیم الامت کی باہمی مکاتبت پر مشتمل ہے۔ کتاب کے اخیر میں مولانا فضل حق صاحب عارف خیرآبادی کی ایک تہنیتی نظم ہے جو اس طبع دوم کی مناسبت سے کہی گئی ہے۔
کتاب کی خوبی کے لئے بس اتنی بات کافی ہے کہ یہ حضرت مصلح الامت کی سوانح اور ان کے محاسن وکمالات کا تذکرہ ہے ،اور مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کے قلم اعجاز رقم کا شاہکار ہے۔
*یہ مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد میں دستیاب ہے۔*
ضیاء الحق خیرآبادی
یکم ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق یکم جولائی ٢٠٢٢ء یوم الجمعة