خلیل الرحمن قاسمی برنی
حضرت شیخ الہندؒ نے اچانک تقریرختم فرمادی
کتاب الزہد میں زید ابن جیب رحمہ اللہ کا مقولہ ہے کہ:
عالم اورفقیہ کے لئے یہ فتنہ ہے کہ وہ دوسرے کی گفتگو سننے کے مقابلے میں اپنی بات کہنا زیادہ پسند کرتاہو،باوجودیکہ وہ ایسے کو پائے جو اس کی طرف سے گفتگوکی کفایت کرسکے۔(دوسرے اہل شخص کی موجودگی میں بھی اپنی بات کہنا ضروری خیال کرے تاکہ لوگ اس کے علم کے قائل ہوسکیں۔)
سراج الامت حضرت امام اعظم ابوحنیفہ النعمانؒ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اپنے زمانے کے ایک عالم دین حضرت عمر ابن ذرکی تقریرسننے تشریف لے جاتے اوراس میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ ان کی تقریر اوروعظ کو غورسے سن رہے ہیں اورآنکھوں سے آنسوجاری ہیں۔
(عقودالجمان بحوالہ اللہ والوں کی مقبولیت کا راز۲۴)
ایک ہماری حالت ہے کہ ہمیں دوسروں کی تقریراوروعظ سننے کی فرصت ہی نہیں ہے۔جلسوں اورمحفلوں میں یہ ادھیڑ بن رہتی ہے کہ کوئی ایسی بات کہنے کو مل جائے کہ پہلے والے مقررکا اثرجاتارہے۔حکماء کا کہنا ہے کہ: تقریرکرتے ہوئے کسی کو اپنی تقریر اچھی لگے اوروہ عجب میں مبتلاہوجائے ،تو اس کو فوراً خاموش ہوجاناچاہیے۔اورجب کوئی شخص کسی ایسی مجلس میں ہوجہاں خاموش رہناباعث عجب ہوتواسے کچھ گفتگو کرلینی چاہیے۔
اکابر علماء دیوبند کے ایسے واقعات ہیں کہ تقریرکرتے کرتے جیسے ہی انہیں احساس ہواکہ ہماری یہ بات کبر اوربڑائی کا ذریعہ بنے گی تو فوراً تقریرختم کردی اوربیٹھ گئے۔
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کو کون نہیں جانتاکہ آج ان کا علمی و روحانی فیض چہاردانگ عالم میں پھیلاہواہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعد کامیاب تلامذہ اوررجال ساز افرادامت کو مہیاکرنے کے اعتبار سے حضرت شیخ الہند کی ذات کو ایک خاص وممتاز مقام حاصل ہے۔
ایک مرتبہ آپ کے شاگرد رشید حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ نے آپ کو کانپور آنے کی دعوت دی۔آپ نے ان کی دعوت کو قبول کیا۔اورکانپور تشریف لے گئے۔وہاں علماء کی ایک مجلس میں آپ سے وعظ کی درخواست کی گئی۔جسے آپ نے بہت اصرار کے بعد قبول فرمایا۔تقریرشروع کی۔علماء کی محفل تھی۔علمی ماحول تھا اس لئے حضرت کی طبیعت بھی خوب کھلی، مضامین عالیہ بیان ہورہے تھے۔اتنے میں ایک عالم (مائل بہ بدعت)مولانالطف اللہ صاحب علیگڈھی مجلس میں آگئے۔ان کو دیکھتے ہی حضرت نے تقریراچانک ختم فرمادی۔بعد میں مولانافخرالحسن صاحب ؒنے پوچھا کہ حضرت! اچانک وعظ کیوں ختم فرمادیاتھا۔آپ کا جواب تھا کہ:جب مولوی لطف اللہ آئے تو مجھ کو خیال ہواکہ اب مضامین بیان کرنے کا وقت ہے۔یہ بھی دیکھیں گے کہ علم کیا چیز ہے لیکن معاخیال آیاکہ اس طرح تو وعظ میں خلوص نہیں رہے گا۔اس لئے سلسلہ منقطع کردیا۔
اسے کہتے ہیں اخلاص۔آج ہمارایہ حال ہے کہ مجامع،اجتماعات اورجلسوں میں چھانٹ چھانٹ کرایسی باتیں لانے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔تاکہ حاضرین عش عش کراٹہیں اورمجمع بے اختیار داد دینے پر مجبور ہوجائے۔(مستفاد اللہ والوں کی مقبولیت کا راز۳۴)
کرسی کا بھی کرایہ دیا
حضرت مولاناحکیم عبدالعلی صاحب لکھنویؒ حضرت شیخ الہند اورحضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔1311ھ میں ولادت ہوئی اوراپنے والد محترم حضرت مولاناحکیم عبدالحی ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ ومصنف نزھۃ الخواطرکی تربیت ونگرانی میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم پائی،طب اپنے والد بزرگوار سے پڑھی اورپھر 1329ھ میں دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الہند اورحضرت علامہ محمد انور شاہ ودیگر اساتذہ سے صحاح ستہ کی تحصیل کی۔بعد ازاں لکھنؤ کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیااورڈاکٹری کا امتحان پاس کرکے لکھنؤمیں مطب کرتے رہے۔ڈاکٹر ہونے کے باجودبھی ان کی زندگی بہت سادہ اوراسلاف و صالحین کانمونہ تھی۔تہذیب جدیداورمغربی تمدن کے سخت ناقد تھے۔بیعت و اصلاح کا تعلق حضرت مدنی علیہ الرحمہ سے تھا 1350ھ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم مقرر ہوئے اورتادم تادم واپسیں اس عہدہ پر برقرار رہے۔اس درمیان کئی سال تک دارالعلوم دیوبند کی شوری کے رکن رکین بھی رہے۔1380ھ مطابق 1961ء میں وفات پائی۔
ان کے حالات میں یہ بات مرقوم ہے کہ دیگر اخلاقی بلندیوں اورمحاسن کے ساتھ صفائی معاملات اوراحتیاط والا رویہ ان کے مزاج میں بہت اعلیٰ سطح کاتھا۔اس سلسلے کا ایک واقعہ حضرت مولانامحمد رابع ندوی اس طرح تحریر فرماتے ہیں:
”صفائی معاملات اوراحتیاط ان کے مزاج میں اعلیٰ سطح کی تھی وہ ندوۃ العلماء کے سربراہ (ناظم)تھے،اوران کا دفتر نظامت شہر کے اندر ان کے مکان سے متصل تھا۔وہ دفترجاتے یادفتر کے کاغذات ان کے پاس آتے،جن پر وہ ہدایات اورمنظوری لکھتے۔اس کے لئے ایک دوات اورقلم ان کے پاس گھر میں بھی تھا،جس کو وہ نظامت کے کام کے لئے استعمال فرماتے تھے،لیکن احتیاط یہ تھی کہ کسی دوسرے کام میں اس کو استعمال نہ کرتے اورکسی کو اس کی اجازت بھی نہ دیتے کہ وہ اپنے ذاتی کام میں اس کو لائے۔میں نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔اسی طرح ندوۃ العلماء کے استعمالی سامان سے بھی فائدہ اٹھانے سے بچتے تھے۔ایک بار جب بیماری کی وجہ سے ان کو کچھ دنوں کے لئے کرسی کی ضرورت پڑی اوروہ دارالعلوم کے مہمان خانہ کی کرسیوں میں تھی،تو اسے مستعارمنگوایا۔اگرچہ وہ ندوۃ العلماء کے مہمانوں اوراس کے ذمہ داروں کی سہولت کے لئے تھی اورڈاکٹر صاحب سربراہ ادارہ تھے،لیکن اس کو کرایہ کے سامان کی حیثیت دیتے ہوئے اس کا کرایہ دیا ۔بلامعاوضہ اس کو استعمال میں نہیں رکھا۔
خالی جگہ کو بھی اپنے عزیز کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ خود نہیں کیا
ان کی احتیاط کا ایک اورواقعہ حضرت مولاناسید محمدرابع تحریرفرماتے ہیں۔ملاحظہ ہو:
ایک بار دارالعلوم میں کسی چیز کا معائنہ کرنے آئے،اس سے واپسی کا وقت تقریباًوہی تھا جو تعلیم کے اختتام کا تھا،میں نے ان کو واپسی کے لئے رکشاپر تنہابیٹھتے دیکھا،دارالعلوم کے مہتمم صاحب پاس میں کھڑے کچھ بتارے تھے،مجھے خیال آیاکہ جگہ خالی ہے،مجھے بھی وہیں جاناہے لہذا میں اس سے فائدہ اٹھالوں،ان کی شفقت معلوم تھی،میں اس مقصد کے لئے قریب گیا کہ وہ خود کہیں گے کہ ساتھ چل سکتے ہو،لیکن انہوں نے خود نہیں کہا،بلکہ مہتمم صاحب کو فوراً کہاکہ یہ بھی بیٹھ جائیں !وجہ یہ تھی کہ سواری کا کرایہ دارالعلوم کی طرف سے دیاجاناتھا کیوں کہ وہ دارالعلوم کے کام سے آئے تھے،لہذاکمال احتیاط میں اس خالی جگہ کو اپنے عزیز کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ خود نہیں کیا؛بلکہ مہتمم صاحب سے کہلوایا۔(ازمقدمہ تذکرہ مولانا عبد العلی)
بذریعہ: علم وکتاب واٹس ایپ گروپ