مولانا افضال صاحب گنگوہی : نقوش و تاثرات

✒️ محمد جاوید قاسمی بالوی
خادم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت

دو تین روز پہلے واٹس ایپ پر اچانک یہ اطلاع ملی کہ حضرت الاستاذ مولانا افضال صاحب گنگوہی کی طبیعت زیادہ خراب ہے ، گردوں نے کام کرنا بند کردیا ہے، اسی وقت سے ہمارے یہاں جامعہ میں نمازوں کے بعد مولانا کے لیے دعائے صحت کا اہتمام شروع کر دیا گیا ، کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ مولانا کی یہ علالت اتنی مختصر اور مرض الوفات ثابت ہوگی۔ کل صبح بھی نماز فجر کے بعد امام صاحب نے مولانا کی صحت وشفاء کے لیے رقت آمیز دعا کرائی، اس وقت تک کسی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اب مولانا مرحوم دعائے صحت سے بے نیاز ہو کر اپنے رب حقیقی کے جوار رحمت میں پہنچ چکے ہیں ۔
نمازِ فجر کے بعد جب واٹس کھولا تو اکثر گروپس میں مولانا کی وفات کی خبر گردش کرتی دیکھ کر دل پر رنج و الم کے بادل چھاگئے ، اور مولانا کی ناگہانی موت نے ایک بار پھر یہ حقیقت تازہ کردی کہ موت کے لیے کوئی عمر متعین نہیں، جیسے ہی آدمی کا وقت پورا ہوجاتا ہے کیا بوڑھا کیا جوان، کیا بچہ کیا ادھیڑ عمر، کیا مرد کیا عورت سب موت کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو ہو یا نہ ہو کم از کم ہمیں تو بالکل یہ اندازہ نہیں تھا کہ مولانا مرحوم اتنی جلد ہم سے منہ موڑ لیں گے۔
1999 میں یہ عاجز جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد میں عربی چہارم میں داخل ہوا، یہ حضرت مولانا محمد مسیح اللہ صاحب جلال آبادی قدس سرہ کے صاحب زادے وجانشین حضرت مولانا صفی اللہ صاحب عرف بھائی جان نور اللہ مرقدہ کا دور اہتمام تھا، جامعہ اپنے تابناک ماضی کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے تھا، تنزلی کے آثار شروع ضرور ہوگئے تھے لیکن ابھی تنزلی آئی نہیں تھی ، اچھے با صلاحیت اساتذہ اسباق کی مکمل پابندی کرتے ہوئے تدریسی خدمات کی انجام دہی میں مصروف تھے۔ مولانا افضال صاحب 1994 میں جامعہ مفتاح العلوم سے دورہ حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ ہی میں درجہ حفظ کے استاذ منتخب ہوگئے تھے ، 1999 میں پہلی بار عربی چہارم میں کنز الدقائق کا سبق مولانا مرحوم سے متعلق ہوا تھا، یاد پڑتا ہے کہ شام کا آخری گھنٹہ تھا، ہمارا بھی درس گاہ میں وہ پہلا دن تھا اور مولانا مرحوم بھی درجات عربیہ میں سبق پڑھانے کے لئے اس دن پہلی بار تشریف لائے تھے، خارج میں مختلف فنون کی کتابیں اس سے پہلے بھی مولانا مرحوم درجات عربیہ کے طلبہ کو پڑھاتے رہتے تھے ، صلاحیت پختہ تھی ، درس نظامی کی کتابیں محنت سے پڑھی تھیں اس لیے عربی کتابیں پڑھانے کا شوق تھا، یہی شوق اور صلاحیت کی پختگی مولانا کی درجہ حفظ سے درجات عربیہ میں منتقلی کا ذریعہ بنی۔ ہم نے یہ سمجھ کر کہ آج پہلا دن ہے ، ابھی کچھ دنوں تک ابتدائی تمہیدی تقریروں کا دور چلے گا کتاب کی عبارت نہیں دیکھی تھی، نشست استاذ کی مسند کے بالکل سامنے تھی، مولانا نے چند منٹ تمہیدی تقریر فرمائی، اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ عبارت پڑھو، یہ حکم میرے لئے بالکل اچانک اور غیر متوقع تھا، عبارت بھی دیکھی ہوئی نہیں تھی اس لیے تین چار جگہ اعراب کی غلطی ہوگئی، جب عبارت پڑھ کر فارغ ہوا تو مولانا نے پوچھا کہاں کے ہو؟ عرض کیا کہ بالو کا (بالو ہمارے گاؤں کا نام ہے)، مولانا ہمارے گاؤں سے واقف تھے اور شاید اس سے پہلے ہمارے یہاں کے کچھ طلبہ مولانا کے پاس پڑھ چکے تھے ، مولانا نے یہ سن کر فرمایا کہ “بالو کے لڑکے پڑھتے وڑتے نہیں ، شاید تم بھی ایسے ہی ہوگے” ، مولانا مرحوم کے یہ جملے میرے دل کو لگ گئے، میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ آئندہ کوئی بھی سبق بغیر مطالعہ و محنت کے نہیں پڑھوں گا۔ اس کے بعد میں نے مولانا کے سبق میں خوب عبارت پڑھی ، اور مولانا مرحوم کی طرف سے شاباشی بھی خوب ملی اور محنتی طالب علم ہونے کی سند بھی۔ مولانا مرحوم کے مذکورہ جملوں اور سال بھر کی مشفقانہ توجہ نے مجھے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے حوالے سے بہت فائدہ پہنچایا۔
مولانا مرحوم کی عربی صلاحیت عمدہ تھی ، کنز الدقائق کے لیے ابن نجیم مصری کی البحر الرائق دیکھ کر آتے تھے ، تفہیم اچھی تھی، آواز بلند تھی، زبان صاف تھی، نفس مسئلہ پورے مالہ وماعلیہ کے ساتھ واضح فرماتے ، مکمل انہماک ، پوری توجہ اور محنت سے پڑھاتے تھے ، وقت کے پابند تھے۔ بعد میں جامعہ مفتاح العلوم میں عربی ہفتم اور دورہ حدیث کی بعض کتابوں کے اسباق بھی مولانا کے پاس رہے۔ پچھلے سال سے دورہ حدیث میں سنن ابو داؤد آپ کے زیرِ درس تھی۔ ادھر 2015 سے جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد میں تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ دار العلوم الرشیدیہ گنگوہ کے اہتمام وتدریس حدیث کی ذمہ داری کے فرائض بھی بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے، مولانا مرحوم سے پہلے دار العلوم الرشیدیہ فتنوں، باہمی رسہ کشی اور اختلاف وانتشار کی آماج گاہ بنا ہوا تھا، مولانا مرحوم کی بھاری بھرکم شخصیت، اخلاص وللہیت اور شب وروز کی انتھک محنت نے سارے فتنوں اور اختلافات کا خاتمہ کردیا ، آپ کی کوشش سے مدرسے میں آپسی اتحاد و اتفاق اور محبت ومودت کی فضاء قائم ہوئی، تعلیم و تربیت میں بہتری آئی، تعمیرات میں اضافہ ہوا، نظم و انتظام میں سدھار آیا۔ مولانا مرحوم کے اچانک جانے سے دونوں اداروں میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پورا نہیں ہوسکے گا۔ اللہ تعالیٰ دونوں اداروں کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔
مولانا مرحوم کے اخلاق بہت عمدہ تھے، ہر ایک سے محبت سے ملتے، جب کبھی ملاقات ہوتی بڑی شفقت سے پیش آتے، حال احوال پوچھتے ، تدریسی و تالیفی مصروفیات کے بارے میں سن کر بہت خوشی کا اظہار فرماتے، مسلسل محنت کرتے رہنے کی تلقین فرماتے۔ مولانا مرحوم بڑے سخی، مہمان نواز اور فیاض واقع ہوئے تھے ۔ یوں تو مولانا مرحوم کی سخاوت و فیاضی کے مناظر درمیان سال میں بھی خوب دیکھنے کو ملتے تھے لیکن عید الفطر کے دن آپ کا یہ وصف جمیل اور زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آتا تھا۔ ہمارا گاؤں گنگوہ سے صرف آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ، قریہ صغیرہ ہونے کی وجہ سے وہاں جمعہ وعیدین کی نماز نہیں ہوتی ، گاؤں کے لوگ عید کی نماز پڑھنے کے لئے گنگوہ جاتے ہیں، مولانا مرحوم کے محلہ قریشیان میں گنگوہ کی بڑی عید گاہ واقع ہے ، اسی میں ہم لوگ نماز عید ادا کرتے ہیں ، عید گاہ کے غربی درازے سے چند قدموں کے فاصلے پر مولانا کا دولت کدہ ہے، نماز عید سے فراغت کے مولانا کے مکان کے سامنے سے گذر ہو اور مولانا سے ملاقات نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں تھا ، کیوں مولانا سامنے اپنی بیٹھک کے چبوترے پر تشریف فرما ہوتے تھے ، اور پوری بیٹھک مہمانوں سے پر ہوتی تھی ، ہر آنے والے کو بلا کر شیر اور عمدہ قسم کی تہاری سے ضیافت فرماتے تھے ۔
سادگی اور بے تکلفی آپ کی پہچان تھی ، محنت و جفا کشی آپ کی عادت تھی، خردوں پر شفقت آپ کی فطرت تھی، عاجزی وانکساری آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ تصوف وسلوک میں حضرت مولانا قمر الزماں صاحب آلہ آبادی کے خلیفہ و مجاز تھے۔ مولانا مرحوم کو اپنے ظاہری وباطنی اوصاف و کمالات اور مثالی اخلاق و عادات کے حوالے سے دیر تک یاد کیا جاتا رہے گا ۔
25 ذی قعدہ 1443ھ مطابق 26 جون 2022ء بہ روز اتوار صبح چار بجے آپ نے سہارنپور کے سکشم ہاسپٹل میں آخری سانس لی، جنازہ آپ کے وطن گنگوہ لایا گیا، واٹس ایپ پر معلوم ہوا کہ نماز جنازہ عصر بعد ہوگی، اس لئے دوپہر ہی میں یہ ناچیز جنازے میں شرکت کے ارادے سے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت کاندھلہ سے گنگوہ کے لیے روانہ ہوگیا ، محلہ قریشیان پہنچ کر استاذ محترم کی آخری زیارت کی، عصر کے فوراً بعد آپ کے مکان کے سامنے سڑک پر حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صاحب استاذ حدیث جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی، جنازے میں سینکڑوں کا مجمع تھا، زیادہ تر علماء تھے، محلہ قریشیان کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔ تقریباً 52 سال کی عمر پائی ۔
اللہ تعالیٰ حضرت استاذ محترم کی بال بال مغفرت فرمائے ، حسنات کو قبول فرمائے ، درجات بلند فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین

بذریعہ: علم وکتاب واٹس ایپ گروپ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے