سلسلہ تعارف کتب (5): دَربارِ دُربار

*تعارف نگار:ضیاءالحق خیرآبادی*

*نام کتاب : دَربارِ دُربار*

*مولف:صدق جائسی(سید صدق حسین )*

کتاب کا نام دَربارِ دُربار ہے ، یعنی موتی بکھیرنے والا دربار۔ یہ نظام حیدرآباد کے چھوٹے بیٹے پرنس معظم جاہ کے دربار کی داستان ہے۔کتاب زبان وبیان کی خوبی ودل کشی کے اعتبار سے بے مثال ہے،نہایت دلچسپ اور حددرجہ عبرت انگیز!اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت وسلطنت کن اسباب کی وجہ سے تباہ ہوتی ہے۔ہمارے استاذ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ بڑے ذی علم اور وسیع المطالعہ شخص تھے ، عام علماء کے برعکس اردو ادبیات پر بھی ان کی گہری نظر تھی ، پہلی مرتبہ زمانۂ طالب علمی میں حضرت الاستاذ کی زبان سے اس کتاب کا ذکر سنا ،اور انہی کی ترغیب پر اس کا مطالعہ بھی کیا ، بلامبالغہ اب تک دسیوں بار اسے پڑھ چکا ہوں،میری مخصوص الماری میں جو چند کتابیں رہتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔

کتاب کے مصنف صدق جائسی (وفات:۲/جنوری ۱۹۶۷ء)ضلع رائے بریلی (اور اب ضلع امیٹھی) کے ایک قصبہ جائس کے رہنے والے تھے، وہ اردو زبان کے بلند پایہ ادیب وشاعر تھے، اس کااندازہ اس کتاب کو پڑھ کر بخوبی ہوجائے گا۔ ریاست حیدرآباد کی علم پروری کی وجہ سے بہت سے علماء ، ادباء اور شعراء شمالی ہند سے یہاں پہنچے ، انھیں میں صدق جائسی بھی تھے ، یہ ۱۹۲۷ء میں وہاں پہنچے اور پورے ۲۶؍ سال گزارکرسقوط ریاست کے پانچ سال بعد ۱۹۵۳ء میں وطن واپس ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے یہ داستان لکھی۔

میرے سامنے کتاب کا وہ ایڈیشن ہے جسے حسامی بکڈپو حیدرآباد نے ۲۰۰۱ء میں شائع کیا ہے،یہ چھوٹے سائز پر ۲۳۲/صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتداء میں معظم جاہ کی تصویر ہے، کتاب کا آغاز مولانا دریابادی کے پیش نامہ سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے کتاب اورمصنف کی بڑے بلند الفاظ میں ستائش کی ہے ۔ اس کے بعد بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مکتوب کا ایک اقتباس ہے جو انھوں نے مصنف کو لکھا ہے:

*’’یہ آخری دربار تھا، اب نہ ایسے شاہ زادے ہوں گے اور نہ ایسے دربار، اور نہ آپ( صدق جائسی) جیسے لکھنے والے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب نہایت مقبول ہوگی اور اردو ادب میں اسے خاص مقام حاصل ہوگا۔‘‘*

اس کے بعد مصنف کا مقدمہ ہے جس میں انھوں نے اپنے حیدرآباد پہنچنے کی داستان ، وہاں کی ملازمت اور معظم جاہ کے دربار سے وابستگی کی تفصیل بیان کی ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردوزبان کے چند نامور شعراءجوش ملیح آبادی، ماہر القادری، فانی بدایونی اورنجم آفندی وغیرہ پہلے سے ہی اس دربار سے وابستہ تھے۔

اظہر حسین صاحب اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ *فی الاصل ’’دَربارِ دُربار‘‘ریاست حیدر آباد دکن کے آخری دربار کے شاہ زادے کے صبح و شام کے معمولات، اس کی عادات و اطوار، وہاں کے امراء و اہلِ ریاست کا کھانا پینا، رہنا سہنا، سونا جاگنا، ان کی مسرت و غم، ان کے کھیل کود،ان کی بخششیں، ان کے شوق ، ان کی دل چسپیاں، ان کے ظلم و ستم اور جلادیاں اور ان کی عبادتوں کا آئینہ ہے۔اور یہ ساری تصویریں، اور چلتے پھرتے جیتے جاگتے کردارو واقعات ایسی دل کش و پر کار نثر میں بیان ہوئے ہیں کہ پڑھنے والا کہیں کہیں غیر معمولی واقعات پہ تو کہیں کہیں غیر معمولی بیانیے پہ حیرت کی حالت میں اللہ اللہ سبحان اللہ ، واہ واہ کرتا جاتا ہے* ۔ ‘‘

اس اجمال کی پوری تفصیل صدق کے قلم سے کتاب میں موجود ہے۔اس دربار کے دسترخوان کے احوال اور کھانوں کی تفصیلات کتاب میں بار بار آئی ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان والیان ریاست کی عیش کوشی اور نفس پروری کا کیا عالم تھا ، کام ودہن کی لذت کے لئے یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرتے تھے ، کتاب میں ایک جگہ ایک کھچڑی کا تذکرہ ہے اس میں جو چاول استعمال کئے گئے تھے وہ بادام کو تراش کر بنائے گئے اور پستہ کو تراش کر دال بنائی گئی تھی ، جن بھینسوں کا دودھ اس میں استعمال کیا گیا تھا ان کو بادام اور پستے کھلائے جاتے تھے۔

صدق کے قلم سے دسترخوان کا حال ملاحظہ فرمائیے:

’’َََا *یک ایک ڈش کی تفصیل کہاں تک بیان کروں۔ آخری ڈش بالائی اور لوز کی تھی۔بالائی کے چھوٹے چھوٹے تھال جن میں کم و بیش تین تین سیر بالائی سجی تھی، ہر شخص کے سامنے آتے تھے۔۔دوسری ڈش لوز کی ہوتی تھی جس میں بادام اور پستے کے لوز ہوتے تھے۔ انھی لوزوں کے ساتھ بالائی کھانے کا دستور تھا۔بالائی کا دل کم از کم چار انگل ہوتا تھا۔ اس کے لطف و لذت کا اندازہ اس انکشاف سے ہوسکتا ہے کہ جن بھینسوں کے دودھ سے وہ بالائی جمائی جاتی تھی ان کو صبح اور شام بادام اور پستے کھلائے جاتے تھے* ۔‘‘

بلاشبہ یہی اسراف و شاہ خرچیاں اور دولت کا بے جا استعمال تھا جس نے ان کو زوال سے دوچار کیا۔

خاص بات یہ ہے کہ یہ دربارآٹھ نوبجے رات میں شروع ہوتا تھا ،اور فجر کے وقت اس کا اختتام ہوتا تھا ، اس کے بعد تمام حاضر باشوں کو ان کے گھر پہنچایاجاتا تھا ، نواب صاحب اس کے بعد سوتے اوردن کے آخری پہر بیدار ہوتے تھے ۔ یہ ایک دو روز نہیں پورے سال کا معمول تھا۔

شعر وشاعری سے شغف رکھنے والوں کے لئے اس میں خاصی دلچسپی کا سامان ہے ، کھانے پینے کے بعد روزانہ شعر وسخن کی مجلس بھی ہوتی تھی اور اس میں مذکورہ اساتذہ شعراء موجود رہتے تھے ، ان کی برجستہ اصلاحیں دیکھ کر ان کی ذہانت و برجستگی پر بے ساختہ آفریں نکلتی ہے۔

یہ تعارف قدرے طویل ہوگیا، پھربھی یہی محسوس ہورہا ہے کہ ابھی اس کے بارے میں بہت کچھ کہنا باقی رہ گیا۔ کتاب ریختہ پر موجود ہے ،پڑھئے اور اس سے لطف اندوز ہوئیے ۔ مطبوعہ نسخہ ہمارے *مکتبہ ضیاء الکتب* پر دستیاب ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے