ابوالحسنات قاسمی
دارالثقافہ، اسونجی بازار، گورکھپور
جامعة القدسیات دیوبند کے شیخ الحدیث اور مشہور عالم دین مولانا مفتی محمد شوکت قاسمی گورکھپوری کا اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب تقریباً 70 سال کی عمر میں انتقال ہوگیاہے۔ ان کے انتقال کی خبر سے علمی حلقوں کی فضا مغموم ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق مفتی شوکت قاسمی صاحب مظفرنگر کے تحت واقع مدرسہ شمس العلوم، ٹنڈھیرہ کے پروگرام میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے، جہاں مولانا نے بیان کیا، بیان مکمل کرنے کے بعد اچانک انہیں عارضہ قلب لاحق ہوا، طبیعت ناساز ہوتی چلی گئی، اور مظفر نگر ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے ہوئے راستے میں ہی داعئ اجل کو لبیک کہتے ہوئے جان جانِ آفریں کو سپرد کر دی۔ إنا للّٰه وإنا إليه راجعون۔
مو ت پا کر جا ودانی ہو گئی ہستی تری
موت نے پیـغام تیرا کردیاہے سرمدی
ان کے انتقال کی خبرسے علمی حلقوں کی فضا مغموم ہوگئی اور کثیر تعداد میں علماءاور ذمہ داران نے مرحوم کی رہائش گاہ محلہ عبدالحق پہنچ کر تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے ان کے انتقال پر افسوس کااظہار کیا۔ مرحوم گزشتہ گیارہ سالوں سے جامعة القدسیات محلہ گوجرواڑہ میں شیخ الحدیث کے طورپر تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔
پس ماندگان: دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں، چھوٹے بیٹے کے علاوہ باقی اولاد کے شادی کردیا تھا۔ اہلیہ حیات ہیں۔
مفتی صاحب کے پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں۔
حضرت مفتی صاحب ایک نظر میں:
نام – مفتی محمد شوکت قاسمی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) بن علی رضا خان۔
پتہ: موضع و پوسٹ- بلوٗوہ، ضلع مہراج گنج (اترپردیش)
تاریخ پیدائس: 1954ء۔
تعلیم: ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں بلوٗوہ میں ہی حاصل کیا۔
اس کے بعد گاؤں کے قریب میں واقع مدرسہ تاج العلوم لچھمی پور میں حضرت مولانا اقبال احمد فائق صاحب کی زیر نگرانی حفظ و درس نظامی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد تکمیل علوم کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، عربی پنچم سے دورۂ حدیث شریف تک علم حاصل کیا۔ آپ کا ارادہ افتاء کرنے کا تھا، چنانچہ امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کیا اور شعبہ افتاء میں داخلہ لے لیا۔ اس طرح سن 1973ء میں دورہ حدیث شریف اور 1974ء میں افتاء سے فراغت حاصل کی۔
آپ غیر منقسم ضلع گورکھپور کے دیوبند سے سندِ افتاء حاصل کرنے والے پہلے مفتی تھے۔
تدریس: دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے پہلے پہل اپنے گاؤں کے قریب میں واقع مدرسہ حسینیہ، موضع بیجولی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
آپ زبردست علمی صلاحیت کے مالک تھے، درسی و غیر درسی کتب و علوم کا استحضار اس قدر تھا کسی بھی فن کی کتاب کہیں سے بھی کبھی بھی پڑھا سکتے تھے۔
اس کے علاوہ حسب حالات و مزاج آپ مختلف مدارس سے منسلک رہے اور ان کے لئے مالی فراہمی کی غرض سے بیرون ممالک کے اسفار بھی کئے، جن میں سنگاپور و ملیشیا کے اسفار زیادہ ہوتے تھے۔
اس طرح رفتہ رفتہ آپ 2005ء میں دیوبند پہنچ گئے اور وہیں پر قیام پذیر ہوگئے۔ 2012 میں جامعۃ القدسیات، محلہ گوجرواڑہ سے منسلک ہوکر تعلیم و تدریس کی خدمات انجام دینے لگے۔ 2016ء میں اسی ادارہ کے شیخ الحدیث بنادیئے گئے اور تا دمِ آخر اس منصب پر فائز رہے۔
اور 2018ء میں جامعہ حکیم الاسلام میں شعبۂ دارالقضاء کے قیام کے ساتھ ہی حضرت مفتی صاحب کو قاضی منتخب کرلیا گیا۔
اسفارِ دعوت و تبلیغ: آپ تعلیم و تدریس کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ملک و بیرون ملک دعوتِ دین کے لئے سفر بھی کیا کرتے تھے۔
راقم الحروف کے گاؤں ‘اسونجی بازار’ اور اس سے متصل ایک دوسرے گاؤں ‘کوئیں بازار’ جو کہ ضلع گورکھپور کے تحت واقع ہیں یہاں کے مدرسہ میں سال دو سال کے وقفہ سے ضرور تشریف لاتے تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ آپ چونکہ خالص علمی شخصیت کے مالک تھے، عوام کے علاوہ علم دوست حضرات سے مراسم زیادہ رکھتے تھے، راقم کے گاؤں کے قریب ہی آپ کی سسرال تھی تو وہاں جاتے وقت ان مدارس میں چند ساعات ٹھہر کر طلبہ و اساتذہ کو پند و موعظت سے نواز کر پھر سسرال پہنچتے تھے۔
سسرال: موضع بِرئی بزرگ (اُروا بازار) ضلع گورکھپور، میں تھی۔
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
آپ کے گاؤں کے قریب ‘لچھمی پور بھرگاواں’ کے مشہور عالم حضرت مولانا جلال الدین قاسمی صاحب راقم کے گاؤں ‘اسونجی بازار’ کے مدرسہ عربیہ مصباح العلوم میں درس نظامی کی تعلیم دیتے تھے، ان کی معرفت و وساطت سے پہلی مرتبہ 1984ء میں اسونجی بازار میں ورود مسعود ہوا تھا۔ پھر تو بمصداق "ألزيارة الأوليٰ تتمهّد للزيارات المتكررة” اس علاقے کا دورہ ہوتا ہی رہا۔
آخری مرتبہ آپ کا میرے علاقہ کا دورہ ماہ ستمبر، 2021ء میں ہوا، جمعہ کا دن تھا، أعظم گڑھ سے پروگرام سے فارغ ہوکر مدرسہ تعلیم القرآن امدادیہ، کوئیں بازار کی مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنا تھا، مگر راستے میں رش و ٹرافک جام ہونے کی وجہ سے بروقت نہ پہنچ سکے، حالانکہ انتظار کرتے ہوئے نماز جمعہ کو آدھا گھنٹہ مؤخر بھی کردیا گیا۔ خیر نماز جمعہ مکمل ہوتے ہوتے آپ مع احباب کے پہنچ گئے۔ نماز ظہر ادا کی اور چونکہ حضرت کے خطاب سننے کے لئے قرب و جوار سے لوگ جمع ہوئے تھے لہٰذا نماز سے فراغت کے بعد "نماز کی اہمیت اور اس کے متعلقات” پر 40 منٹ کا بیان ہوا۔
کون اب عقل و جنوں کی گتھیاں سلجھائے گا
کون سوزِ دل سے قلب وروح کو گرمائے گا
شفقت و خورد نوازی: آپ انتہائی مشفق و خورد نواز تھے۔ ملنے جُلنے والوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے کہ ہر ایک یہی سمجھتا کہ حضرت کی توجہ و التفات میری طرف زیادہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے اطراف و اکناف یا شناسا طلبہ سے علمی سوالات و استفسارات بھی کرتے رہتے۔
میں اپنے برخودار حافظ ابوالابصار کے داخلہ کے سلسلے میں دیوبند گیا، جامعہ حکیم الاسلام میں قیام کیا، مفتی صاحب بھی بر وقت موجود تھے، پوچھا کیا پڑھ کر آئے ہو، بتایا کہ عربی دوئم۔ مفتی صاحب نے ایک آیت تلاوت فرمائی اور کہا کہ اس کی ترکیب نحوی بتاؤ، برجستہ ترکیب کردیا۔ مفتی صاحب نے کہا کہ جاؤ داخلہ ہوگیا، میں نے مزاحاً کہا کہ’جامعہ حکیم الاسلام میں؟’، کہا کہ نہیں جی، جہاں داخلہ کے لئے آئے ہو۔ خیر اس سال تو وقف دارالعلوم میں داخلہ ہوا، پھر آئندہ سال دارالعلوم میں داخلہ ہوگیا۔
ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ کچھ علمی استحضار ہے کہ نہیں؟ میں عرض کیا کہ آپ پرکھ لیں۔ پوچھا کہ "بھینسا رات بھرچَرت رہا” میں ‘چرت رہا’ کونسا صیغہ ہے؟ میں نے کہا کہ ‘تسربلا’ کے وزن پر ہے، تثنیہ مذکر غائب۔ اس کے بعد ایک آیت تلاوت کی (أَلَمۡ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَیۡفَ مَدَّ ٱلظِّلَّ وَلَوۡ شَاۤءَ لَجَعَلَهُۥ سَاكِنࣰا ثُمَّ جَعَلۡنَا ٱلشَّمۡسَ عَلَیۡهِ دَلِیلࣰا) اور کہا کہ اس میں غیبوبت سے تکلم کی طرف التفات کی کیا وجہ ہے؟ میں کہا کہ ‘الگّٰہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی اہمیت جتانے کے لئے غیبوبت سے تکلم کی طرف التفات کیا۔
حاصل کلام یہ کہ آپ علمی جائزہ لیتے رہتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم بلید الفہم ہوتا تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔
بہر حال آپ گونا گوں صفات کے حامل انسان تھے، ایک مختصر مضمون میں کن کن صفات پر روشنی ڈالی جائے۔ آپ کی شخصیت کی صحیح اور کماحقہ عکاسی کے لئے مستقل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔
اے کہ تو شمع فروزاں صورت پروانہ ام
جان و دل قرباں کنم من عاشق و دیوانہ ام
مزاج: آپ مزاجاً کافی متین و سنجیدہ نیز طنز و ظرافت اور مزاح پسند و خوش طبع واقع ہوئے تھے، مگر مسلکی معاملہ میں تو فرقِ باطلہ کے تئیں تو بہت ہی سخت گیر موقف کے حامل تھے۔
خطابت: حضرت مفتی محمد شوکت قاسمی صاحب تقریر و خطابت کے میدان کے شہسوار تھے، جب بھی کبھی موقع مل جاتا تو انتہائی پرمغز خطاب فرماتے، چونکہ حضرت کو نہ صرف اردو بلکہ عربی و فارسی کے اشعار بھی بہت زیادہ مستحضر تھے اس لئے بطورِ تمثیل دورانِ خطابت اشعار بہت پڑھتے تھے، اور اہل علم کی مجالس میں دورانِ گفت و شنید بھی مجلس کو اشعار کے ذریعہ گلزار و پُر بہار کئے رہتے تھے، بمصداق "از دل ریزد بر دل خیزد” آپ کا بیان براہ راست دل میں اتر جاتا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ حضرت کے خطاب کو ہمہ تن گوش ہوکر سنتے تھے۔
وفات: 28، مئی 2022ء بروز ہفتہ، صبح ساڑھے گیارہ بجے۔
نماز جنازہ بعد نماز مغرب احاطہ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ادا کرائی، بعد ازیں عابدی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ میں کثیر تعداد نے شرکت کی۔
بعد ازاں جامعہ القدسیات میں قرآن خوانی و ایصال ثواب کا اہتمام کیاگیا۔
آپ کی وفات حسرت آیات بالخصوص علمی حلقوں و بالعموم آپ کے شناساؤں کے لئے ایک پُر درد حادثہ ہے۔
"لعل اللّٰه یحدث بعد ذالک امراً”۔
مدتوں کرتی ہے گردش جستجو میں کائنات
تب کہیں ملتا ہے ایسا محرمِ رازِ حیات