حضرت مولانا سعید احمد قاسمی مدنی مبارکپوری صاحبؒ

شریف گھرانے کے شریف النفس عالم دین حضرت مولانا سعید احمد قاسمی مدنی مبارکپوری صاحبؒ کی رحلت پر چند سطور:

از: شاکر عمیر معروفی

استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کل (21/ ربیع الثانی 1442ھ مطابق 7/ دسمبر 2020ء دوشنبہ) ہم چند احباب عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے ہی تھے کہ مولانا سعید احمد صاحب قاسمی مدنی مبارک پوریؒ کی وفات کی الم ناک خبر ہماری سماعت سے ٹکرائی، سن کر رنج ہوا، فورا تعزیت وتسلی کے ارادہ سے مرحوم کے مکان پر پہنچے اور حسب روایت وموقع اپنے طور پر مولانا کی روح کو ایصال ثواب کیا گیا۔

حضرت مولا نا سعید احمد بن الحاج عبد الحی قاسمی مدنی صاحبؒ؛ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ کے مردم خیز علاقہ پورہ دلہن کے ایک صاحب مروت وتقوی عالم دین تھے۔ یوں تو آپ کا خاندان علم ومعرفت، شرافت ونجابت، تقوی وطہارت، خلوص وللہیت، سادگی و صفا کے بلند رتبہ پر فائز ہے، اسی خانوادے کے نیر تاباں بانئ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور حضرت مولانا حکیم الہی بخشؒ بھی تھے، اسی خانوادہ کے چشم و چراغ حضرت مولانا جمیل احمد صاحب قاسمی مدنی سابق ناظم جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور بھی تھے، اسی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب وقلم کار حضرت مولانا عارف جمیل صاحب حفظہ اللہ استاذ ادب عربی دار العلوم دیوبند بھی ہیں، اور مولانا مرحوم کے فرزندوں میں قابل رشک عالم دین، استاذ محترم حضرت مولانا خالد سعید صاحب قاسمی زید مجدہم استاذ تخصص فی الحدیث وتکمیل ادب عربی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور بھی ہیں۔

الغرض مولانا مرحوم کا گھرانا دیندار گھرانا تسلیم ہوا ہے، اس خاندان میں اب بھی علم وعمل، شرافت وسادگی، سنجیدگی ومتانت اور امانت ودیانت کی گہری چھاپ ہے، جس کی وجہ سے آپ کا خانوادہ بے نظیر ہے۔

مولانا مرحوم کو میں بہت قریب سے تو نہیں جانتا ہوں، تاہم جس چیز نے مجھ میں چند سطور لکھنے کی تحریک پیدا کی وہ مولانا کی تواضع، عاجزی، سادگی، منکسر المزاجی اور شرافت نفسی ہے۔

بالیقین مولانا مرحوم ایک بے ضرر، خدا ترس اور بزرگ عالمِ دین تھے۔ آپ کی سادگی، شرافت، حسن اخلاق، خاکساری اور تواضع کا ہر کوئی معترف تھا۔آپ بڑے سیدھے سادھے اور بھولے بھالے انسان تھے۔اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: المؤمنُ غِرٌّ كريمٌ والفاجرُ خَبٌّ لئيمُ.

أخرجه البخاري في الأدب المفرد ( 418 ) وأبو داود (4790)، والترمذي (1964) وأحمد (9107)

(ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے، اور فاجر دھوکہ باز اور کمینہ خصلت ہوتا ہے) آپ پر مکمل طور پر صادق آتی ہے، آپ سے ملاقات کے بعد دلی احساس کچھ اس طرح ابھر کر سامنے آتا تھا کہ

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

مولانا مرحوم کی انسانیت نوازی، خلوص، اپنائیت اور سادگی وسیدھا پن آج کے دور میں تلاش بسیار کے بعد مشکل سے ہی اکا دکا لوگوں میں ملے گا۔

بہرحال اب مرحوم اس دنیا میں نہ رہے، ایک کامیاب زندگی گزارکر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے، مجھے توقع ہے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے بہت سے آپ کے محبین ومتعلقین اور خاص طور سے آپ سے استفادہ کرنے والے سیکڑوں طالبان علوم نبوت آپ کو مدتوں یاد کریں گے اور اپنی دعاؤں میں فراموش نہ کریں گے۔

اس رنج وغم کے موقع پر میں مولانا مرحوم کے جملہ اعزہ و اقارب خصوصا ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کو تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے تسلی کے کلمات: "إنَّ للہ ما أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب”۔ (رواہ البخاري برقم 1284 ومسلم برقم 923) کو دہراتا ہوں۔

اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں اعلی علیین میں جگہ عنایت کرے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین، ثم آمین۔

(تحریر: 22/ ربیع الثانی 1442ھ مطابق 8/ دسمبر 2020ء بوقت 12/ بجے دن)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے