بھارت میں ذاتی تحفظ قوانین

از: مولانا شمس الہدیٰ قاسمی
تعارف
اپنے شہریوں کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانا ریاست کا بنیادی فرض ہے۔ لیکن ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ جہاں ریاستی امداد و معاونت دستیاب نہ ہو، یا ممکن ہے کہ ریاست کسی ناگزیر خطرے یا نقصان کے خلاف کسی فرد کی حفاظت کے لیے معاونت پر قادر ہی نہ ہو۔ ایسی صورت حال میں ایک فرد کو ریاست کی طرف سے یہ حقوق حاصل ہوتے ہیں کہ وہ اپنی یا کسی اور کی جائیداد یا ذات کو فوری طور پر خطرے سے بچانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔ یہ حق ذاتی تحفظ یا نجی دفاع کا حق ہے۔
ذاتی تحفظ کا حق
فوجداری قانون میں بنیادی اصول ذاتی معاونت ہے۔ ہر ملک کو چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کو اپنی جان، آزادی اور املاک کے تحفظ کے لیے ذاتی دفاع کا حق فراہم کرے۔ یہ حق اپنے ساتھ بے شمار پابندیاں اور حدود بھی لاتا ہے۔ اگرچہ ذاتی دفاع کا حق شہریوں کو اپنے دفاع کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر دیا گیا تھا لیکن اکثر لوگ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
بھارت میں، تعزیرات ہند، 1860 کی دفعہ 96 سے لے کر 106 تک، فرد اور جائیداد کے ذاتی دفاع کے حق سے متعلق دفعات فراہم کرتی ہے۔ یہ حق صرف اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب کسی شخص کو سرکاری حکام کا سہارا میسر نہ ہو۔ ان بنیادی اصولوں میں سے ایک جس پر ذاتی دفاع کا حق قائم ہے وہ استعمال کیے جانے والے دفاع کی ‘معقولیت’ ہے۔ ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرنے کا دائرہ عمل خطرے کے اندیشے کی معقولیت پر منحصر ہے نہ کہ حقیقی خطرے کی حد پر انحصار ہے۔
ہندوستان میں ذاتی تحفظ کے لیے قانونی دفعہ
تعزیرات ہند کی دفعہ 96
یہ دفعہ ذاتی تحفظ میں انجام دی جانے والی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے اور وضاحت کرتی ہے کہ ذاتی دفاع کے حق کے استعمال میں انجام دی جانے والی کوئی چیز جرم نہیں ہے۔
ذاتی دفاع کا حق کوئی جرم نہیں ہے، بل کہ حقیقت میں یہ دفاع میں کیا جانے والا ایک عمل ہے۔ دفعہ 96 کے تحت ذاتی دفاع کا حق مطلق نہیں ہے لیکن دفعہ 99 کے ذریعہ واضح طور پر تشریح کی گئی ہے کہ یہ حق کسی بھی صورت میں ذاتی دفاع کے مقصد سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہے۔ ثبوت کا بوجھ اس شخص پر ہے جو ذاتی دفاع کے حق کی درخواست کرتا ہے۔
چنانچہ اس حق کو کسی عمل کے جواز کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ آیا ملزم نے درحقیقت اس حق کے تحت عمل انجام دیا ہے، ہر معاملے کے حقائق اور حالات کو بہت احتیاط سے پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے، ملزم کی طرف سے پیش کردہ مفروضوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرنے کے لیے حملے کے امکان کے بارے میں ایک معقول اندیشہ موجود ہونا چاہیے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 97
دفعہ 97 جسم اور جائیداد کے ذاتی دفاع کے حق کے بارے میں بات کرتی ہے۔
ہر فرد کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے یعنی اپنے جسم یا کسی دوسرے شخص کے جسم کے دفاع کا حق ہر شخص کو حاصل ہے۔ اسی طرح اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جائیداد یا کسی اور کی جائیداد، چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ کسی ایسے فعل کے خلاف جو چوری، ڈکیتی، فساد، یا مجرمانہ مداخلت جیسے جرم کے مترادف ہو، کی حفاظت کرے۔
ذاتی دفاع کے حق کا مطالبہ کرنے والے شخص کے خلاف ضروری ہے کہ کسی جرم کا ارتکاب یا ارتکاب کرنے کی کوشش موجود ہو۔
ذاتی دفاع کے حق کے حصول کا فیصلہ کرنے کے لیے زیر بحث آدمی کو لگنے والی چوٹ کو ضروری نہیں سمجھا جاتا بل کہ ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرنے کے لیے شدید چوٹ کا معقول خدشہ بھی بالکل کافی ہوتا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 98
یہ دفعہ ناقص و معذور دماغ جیسے شخص کے عمل کے خلاف ذاتی دفاع کے حق کے بارے میں بات کرتی ہے۔
ذاتی دفاع کا حق ان معاملات میں بھی موجود ہے جو معاملات ناقص شعور، دماغ کی بے حسی، یا جرم کرنے والے شخص کا نشہ، یا اس شخص کی طرف سے کسی غلط فہمی کی وجہ سے جرم ثابت نہیں ہوتے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 99
دفعہ 99 ذاتی دفاع کے حق کے استعمال کو محدود کرتا ہے۔ یہ ان مختلف شرائط کو بیان کرتا ہے جن کے تحت ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کیا جاتا ہے یا اس کی فریاد کی جاتی ہے۔
دفعہ 99 کی پہلی تین شِقیں بیان کرتی ہیں کہ اس حق کو اس وقت استعمال نہیں کیا جا سکتا جب:
ایک سرکاری ملازم جو موت یا شدید چوٹ کے معقول خدشے کو جنم دئے بغیر نیک نیتی کے ساتھ کام کرتا ہے اور اپنی قانونی ذمہ داری کو ادا کرتا ہے۔
کوئی بھی شخص جو کسی سرکاری ملازم کی ہدایت پر موت یا شدید چوٹ کے معقول اندیشے کو جنم دئے بغیر نیک نیتی کے ساتھ کام کرتا ہے وہ اپنی قانونی ذمہ داری کو ادا کرتا ہے۔
سرکاری حکام کی جانب سے مدد کے لیے مناسب وقت موجود ہے۔
اس بات پر یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں ہونی چاہئیں کہ یہ عمل عوامی ذمہ دار کے تحت کسی شخص نے انجام دیا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 100
دفعہ 100 سات حالات کو بیان کرتی ہے جن میں جسم کے ذاتی دفاع کے حق کے استعمال میں موت کا سبب بننے کی گنجائش ہے۔
جسم کے ذاتی دفاع کا حق حملہ آور کی قصداً ہلاکت کا سبب بننے یا کوئی دوسرا نقصان پہنچانے کی گنجائش دیتا ہے اگر جرم کی نوعیت نیچے بیان کی گئی نوعیت کے مطابق ہے:
اس طرح کا حملہ ہو جو معقول طور پر موت کے اندیشے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس طرح کا حملہ ہو جو معقول طور پر شدید چوٹ کے اندیشے کا سبب بن سکتا ہے۔
عصمت دری کرنے کی نیت سے حملہ ہو۔
غیر فطری ہوس کی تسکین کے ارادے سے حملہ ہو۔
اغوا کی نیت سے حملہ ہو۔
کسی شخص کو غلط طریقے سے قید کرنے کے ارادے سے حملہ ہو جس کی وجہ سے وہ معقول طور پر یہ سمجھے کہ وہ اپنی رہائی کے لیے عوامی حکام سے تحفظ نہیں لے سکے گا۔
تیزاب پھینکنے کا عمل یا کوشش ہو۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 101
یہ دفعہ ذاتی تحفظ کے حق کو موت کے علاؤہ کسی بھی طرح کا ضرر پہنچانے کی گنجائش دیتی ہے۔
اگر جرم اس نوعیت کا نہیں ہے جس کا ذکر اوپر کی دفعہ میں کیا گیا ہے، تو ذاتی دفاع کے حق کا استعمال حملہ آور کی ہلاکت کا سبب بننے کی گنجائش نہیں دیتا ہے، مگر حملہ آور کی موت کے علاؤہ کسی بھی طرح کا عمدا ضرر پہنچانے کی گنجائش دیتا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 102
دفعہ 102 جسم کے ذاتی دفاع کے حق کے نفاذ اور اسے جاری رکھنے سے متعلق ہے۔
جیسے ہی جرم کے ارتکاب کی کوشش یا کسی دھمکی کی وجہ سے جسم کو خطرے کا معقول اندیشہ پیدا ہوتا ہے (اگرچہ اس جرم کا ارتکاب نہ ہوا ہو) ذاتی دفاع کے حق کا نفاذ شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک جسم کو خطرے کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہ خدشہ حقیقی اور معقول ہونا چاہیے۔
کالا سنگھ معاملے میں متوفی ایک خطرناک کردار کا مضبوط آدمی تھا۔ پہلے ملزم کے ساتھ لڑائی میں اس نے ملزم کو زمین پر پٹخ دیا، اسے زور سے دبایا کاٹا۔ل اور مارا۔ ملزم نے ہلکی سی کلہاڑی اٹھائی اور اسی سے اس وحشی ظالم کے سر پر تین ضربیں لگائیں۔ لڑائی کے تین دن بعد اس کی موت ہوگئی۔
یہ موقف اختیار کیا گیا کہ حالات نے ملزم کے ذہن میں خطرے کا قوی اندیشہ پیدا کر دیا تھا کہ بصورت دیگر اسے قتل کر دیا جائے گا۔ یہ خدشہ حقیقی اور معقول تھا نہ کہ کمزور اور خیالی، لہذا اس کا ذاتی دفاع کے حق کا استعمال جائز ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 103
یہ دفعہ جائیداد کے ذاتی تحفظ کے حق کو موت کا سبب بننے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔
جب کہ دفعہ نمبر 100 جسم کے ذاتی دفاع کے حق کے استعمال کو ہلاکت کا سبب بننے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔
جائیداد کا ذاتی تحفظ کا حق بھی ہلاکت کی گنجائش دیتا ہے جب عمدا کسی جرم کی صورت میں کوئی نقصان پہنچا ہو۔ بشرطیکہ ایسا جرم درج ذیل نوعیتوں کی شکل میں ہو، یعنی:
ڈکیتی ہو۔
رات کے وقت گھر میں نقب زنی ہو۔
کسی عمارت، خیمہ، کشتی ہا بڑا ڈبہ جسے انسانی رہائش کے طور استعمال کیا جا رہا ہو، یا جائیداد کی تحویل کے لیے جگہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہو، کو آگ لگا کر نقصان پہنچانا۔
چوری، ایذا رسانی، یا گھر پر ناجائز قبضہ کرنا۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 104
اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے یا کرنے کی کوشش اپنے دفاع کے حق کے استعمال کا باعث بنتا ہے، تو اس طرح کا حق عمدا ہلاکت کا سبب بننے کی گنجائش نہیں دیتا ہے، بل کہ نقصان پہنچانے والے کو موت کے علاؤہ کسی دوسرے قسم کا عمدا نقصان پہنچانے کی گنجائش دیتا ہے بشرطیکہ یہ جرم کسی دوسری نوعیت کا نہ ہو جیسا کہ سابقہ دفعہ میں بیان کیا گیا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 105
دفعہ 105 جائیداد کے ذاتی تحفظ کے حق کی ابتدا اور اسے جاری رکھنے کی ہدایت دیتا ہے۔
جائیداد کے ذاتی تحفظ کے حق کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب جائیداد کو خطرے کا معقول اندیشہ در پیش ہو۔
چوری کے خلاف حق دفاع کا نفاذ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ مجرم جائیداد واپس نہ کر دے یا پھر جائیداد اس سے واپس نہ لے لی جائے۔
ڈکیتی کے خلاف ذاتی دفاع کے حق کا نفاذ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مجرم کسی بھی شخص کی موت یا چوٹ کا سبب بنتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 106
یہ دفعہ اس جان لیوا حملے کے خلاف ذاتی دفاع کے متعلق گفتگو کرتی ہے جب کسی بے گناہ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
موت کا معقول خدشہ پیدا کرنے والے کسی حملے کے خلاف کسی شخص کی طرف سے ذاتی دفاع کے حق کے استعمال میں اگر محافظ کسی بے گناہ شخص کو نقصان پہنچنے کے خطرے کے بغیر ذاتی دفاع کو مؤثر طریقے پراستعمال کرنے پر قادر نہیں ہے تو ذاتی دفاع کا حق اس خطرے کو مول لینے کی گنجائش دیتا ہے۔
رکاوٹ وہ شک ہے جو محافظ کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنا حق دفاع استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے خواہ اس کے عمل سے بعض بے گناہوں کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو۔ اس دفعہ کے مطابق، کسی حملے کی صورت میں جس سے موت کا معقول اندیشہ موجود ہو، اگر محافظ کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو جائے جس میں کسی بے گناہ کو نقصان پہنچنے کا بھی خطرہ ہو، تو اس پر اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اور وہ اس خطرے کو مول لینے کا حقدار ہے۔
نتیجہ
ذاتی دفاع کا حق ہندوستانی شہریوں کے ہاتھ میں اپنے دفاع کے لیے ایک بڑا ہتھیار ہے لیکن اکثر اسے بہت سے لوگ برے مقاصد یا غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ عدالت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ حق کا استعمال نیک نیتی سے ہوا ہے یا نہیں۔
ذاتی دفاع کے حق سے استفادہ کرنے کی حد خطرے کے حقیقی اندیشے پر منحصر ہے نہ کہ موجود خطرے پر۔ اس حق کے استعمال کی صرف کچھ حالات میں ایک خاص حد تک گنجائش ہو سکتی ہے۔ استعمال کی جانے والی طاقت کی مقدار صرف حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری مقدار میں ہونی چاہیے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے