مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ امیر الہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری اعلی علمی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں سے متصف تھے، چوں کہ وہ جہاں ایک طرف جمعیت علماء ہند جیسی ملی، سماجی اور رفاہی تنظیم کے صدر عالی قدر تھے. اور امارت شرعیہ فی الہند کے چوتھے امیر تھے، جس سے آپ کی قائدانہ وروحانی صلاحیتیں مترشِّح ہیں تو دوسری طرف وہ طویل عرصے سے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند جیسے عالمی شہرت یافتہ گہوارہ علم وداب میں مقبول عام مدرس، تجربہ کار مربی اور جید وباکمال محدث ومفسر ومتکلم اور نائب مہتمم کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے. جس سے آپ کی تبحر علمی کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے…
لیکن کم لوگوں کے علم میں ہے کہ حضرت منصور پوری مذکورہ تمام اوصاف کے ساتھ اعلی ترین انسانی خوبیوں اور اخلاقیات کے محاسن بھی آراستہ وپیراستہ تھے. آپ اس شعر کے مصداق تھے.
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
اعلی اخلاق، بلندیِ کردار اور حسنِ تعامل وہ بیش بہا اوصاف ہیں، جو انسان کو مقبولیت بھی عطا کرتے ہیں اور دیگر ابنائے جنس سے اسے ممتاز بھی بناتے ہیں…
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعثت کے مقاصد میں مکارم اخلاق کی تکمیل کو خاص طور پر بیان فرمایا.(انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) اسی طرح اللہ رب العالمین نے دیگر انعامات کےساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز کرنے کا اعلان بھی فرمایا (انک لعلی خلق عظیم)
ان اعلی صفات کی امت کو بھی ترغیب دی گئی اورحسن اخلاق کا انھیں پابند بھی بنایا گیا، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا‘‘ یعنی تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں، جن کے اخلاق اچھے ہوں ‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، )
جو شخص جس قدر متبع سنت ہوگا اتنا ہی اعلی اخلاق کا پیکر بھی ہوگا…
ہمارے ممدوح حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری بالیقین دیگر صفات کے ساتھ اعلیٰ اخلاق اور بلندی کردار کے پیکر تھے…بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ علم واخلاق کے جامع فرشتہ صفت انسان تھے.
کسی بھی فرد کی خوبیوں کے جاننے کے تین ذرائع ہیں، یا تو ساتھ میں سفر کیا ہو یا مالی معاملہ کیا ہو یا پڑوس میں رہتا ہوں… آپ کے ساتھ سفر کرنے والا، آپ کے ساتھ مالی معاملہ کرنے والا اور آپ کے پڑوس میں رہنے والا ہر ایک آپ کے بلندی اخلاق کی گواہی دیتا ہے.
ایک شخص نے امیر المومنین حضرت سیدنا عمرؓ فاروق کے پاس کسی کی گواہی دی تو آپؓ نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ گواہ سیرت و کردار سے کس معیار کا آدمی ہے، اس سے کہا کہ اپنے کسی جاننے والے کو لے کر آؤ۔ چنانچہ وہ ایک شخص کو لے کر آیا جس نے اس گواہ کی تعریف کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ تم اسے کیسے جانتے ہو؟ کیا تم اس کے پڑوس میں رہتے ہو جو اس کے یہاں آنے جانے والوں کی پہچان رکھتے ہو؟ اس شخص نے کہا: نہیں، پھر آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے کہ سفر میں اچھے اخلاق کا علم ہوجاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، پھر آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ درہم و دینار کا معاملہ کیا ہے جس کے ذریعہ انسان کے تقویٰ کا علم ہوجاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ میرا خیال یہ ہے کہ تم نے اسے مسجد میں کھڑا دیکھا ہوگا کہ وہ قرآن پاک کو آہستہ آہستہ پڑھتا ہے اور کبھی اپنے سر کو جھکاتا ہے اور کبھی بلند کرتا ہے یعنی رکوع و سجود میں مشغول ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپؓ نے فرمایا کہ جاؤ تم اسے نہیں پہچانتے۔ (احیاء علوم الدین از امام غزالیؒ)
حضرت عمرؓ نے اپنے اس قول کے ذریعہ گویا یہ واضح کردیا کہ آدمی کی پہچان عبادات سے نہیں بلکہ معاملات سے ہوتی ہے اور دین داری صرف نماز، روزے اور اس طرح کی دیگر عبادات کے دائرے میں محدود نہیں بلکہ اصل دین داری تو اخلاق و معاملات میں ہے۔۔
اس عاجز کو بھی حضرت منصور پوری کے ساتھ کئی مرتبہ مرتبہ سفر کرنے کا موقع ملا اور ہر مرتبہ ہم جیسے خوردوں کے ساتھ اپنے اعلی اخلاقی برتاؤ سے ہمیں پانی پانی کردیا. مخدومیت کے تمام اوصاف کے باوصف عام طور پر خادم بننے کی کوشش کرتے اور اس بات کی قطعاً پروا نہیں کرتے کہ جس کی خدمت کا وہ ارادہ رکھتے ہیں وہ ان کا چھوٹا، ان کا کوئی شاگرد اور عزیز ہے..
وہ عرب شاعر کے اس شعر کا مصداق تھے :
یا ضیفنا لو زرتنا لوجدتنا
نحن الضیوف وانت رب المنزل
اس حوالے سے ایک سفر کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے. حضرت منصور پوری دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ بھی تھے، اس بنیاد پر فتنہ قادیانیت کے حوالے سے آپ کے اندر بڑی حساسیت تھی، ہمیشہ اس فتنہ کے تعاقب اور اس کی سرکوبی کے لیے بے چین رہا کرتے تھے، اس سلسلے میں مستقل پلاننگ کرتے اور کہیں بھی اس فتنے کے بال وپر نکلتے تو اس کے استیصال کے لیے خود بھی ان علاقوں کے اسفار کرتے اور دارالعلوم دیوبند کے منتخب اساتذہ کے وفود بھی حضرت مولانا مرغوب الرحمن مہتمم دارالعلوم دیوبند کی اجازت سے بھیجتے تھے.. ایک مرتبہ اطلاع ملی کہ دہلی کے نجف گڈھ ودیگر علاقوں میں فتنے قادیانیت اپنے بال وپر پھیلا رہا ہے.
تو اس علاقے کی تمام مساجد میں اساتذہ دار العلوم دیوبند ودیگر معزز علماء کے بیانات رکھے گئے اور یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا. معمول یہ تھا کہ دیوبند سے علماء کرام جمعرات کی شب یا جمعہ کو علی الصباح دہلی میں آئی ٹی او واقع دفتر جمعیت علماء ہند پہنچتے. وہاں سے مختلف گاڑیوں سے متعلقہ مساجد تک علماء کرام کو پہنچایا جاتا.. یہ عاجز ان ایام میں دارالعلوم دیوبند میں معین مدرس تھا اور حضرت قاری عثمان منصور پوری کے حسب ہدایت تحفظ ختم نبوت کے اس قافلہ میں شریک تھا.
حضرت قاری صاحب قافلہ سالار تھے.. دفتر جمعیت علماء ہند سے جو تر تیب بنی اس کے مطابق مجھے اور حضرت قاری صاحب کو ایک نئی نئی بسی ہوئی کالونی میں زیر تعمیر دو الگ الگ مساجد میں جانا تھا. ہم قاری صاحب کے ساتھ دفتر جمعیت علماء سے بذریعہ کار کالونی کے قریب اس مقام تک پہنچ گئے جہاں تک پختہ سڑک بنی ہوئی تھی. اس سے آگے کار کے جانے کا راستہ نہیں تھا؛ ترتیب کے مطابق وہاں محلہ کا ایک آدمی جگاڑ نما ٹھیلہ لیے ہمارا منتظر تھا. ہم پر نظر پڑتی ہی کہنے لگا آؤ مولوی جی میں تمہیں ہی لینے آیا ہوں، آگے کو گاڑی نہیں جاتی بس تمہیں اسی ٹھیلے پر چلنا ہے… یہ سن کر یہ عاجز سوچ ہی رہا تھا کہ ٹھیلے پر کیسے بیٹھیں گے؟ یہ بھی کوئی بیٹھنے کی چیز ہے؟!
اسی درمیان کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت قاری صاحب بلاکسی تکلف وتردد ٹھیلہ پر چڑھ چکے ہیں اور چڑھتے ہی اپنا سفید رومال جو بالعموم آپ کے سر پر ہوا کرتا تھا اسے بچھاکر مجھ سے متوجہ ہوکر کہنے لگے آؤ مولوی خالد! بیٹھو. میں اوپر چڑھ کر ادبا رومال سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ گیا تو کہنے لگے اس رومال پر بیٹھو میں نے تمہارے لیے ہی بچھایا ہے..
انشاءاللہ روز محشر میں یہ رومال بھی گواہی دے گا کہ اس پر مجاہدین ختم نبوت بیٹھے ہیں … اللہ اکبر!
کتنا اکرام ہے اپنے انتہائی ادنی شاگرد کا، کیا حسن اخلاق ہے؟ کیا تواضع وانکساری وبے نفسی ہے.. سچائی یہ ہے کہ الفاظ اس کی کما حقہ تعبیر سے عاجز ہیں..
اس کے بعد ختم نبوت کے دوعظیم الشان اجلاس دو مرکزی مقامات پر ہوئے. ایک جامع مسجد دہلی کے قریب اور ایک جعفر آباد کی عیدگاہ میں دونوں پروگراموں کی صدارت فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ نے کی.. عام طور پر قاری صاحب کا بیان اور آپ کا درس ٹھہر ٹھہر کر اور متانت اور آہستگی کے انداز میں ہوا کرتا تھا، لیکن ان دونوں کانفرنسوں میں آپ کسی شیر ببر کی طرح دھاڑ رہے تھے. واقعی لگتا تھا کہ آپ مجاہدین ختم نبوت کے کمانڈر انچیف ہیں. اور اپنے ماتحت افواج کو دفاع ختم نبوت کے لیے تیار کررہے ہیں. ان کے علاوہ دیگر بہت سے مواقع پر آپ کے اعلی اخلاق اور بلندی کرداراور شفقت ومحبت کا اس عاجز نے بھر پور مشاہدہ کیا..
دار العلوم دیوبند کی ایک زمانے میں یہ روایت تھی کہ اپنے دوفضلاء کو جنھوں نے انتہائی درجات میں امتیازی پوزیشن حاصل کی ہو انھیں انٹرویو لے کر معین المدرسین کے طور پر ازہر ہند میں بطور اعزاز وبغرض تربیت دوسال تدریس کا موقع دیا جاتا تھا.. اس روایت کے مطابق اس عاجز کے انتخاب کے لیے مجلس تعلیمی دار العلوم دیوبند کے تمام اساطین علم ارکان کی موجودگی میں انٹرویو ہوا. کتابوں سے اور کچھ عمومی سوال بحرالعلوم حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی، صدر المدرسین حضرت مولانا نصیراحمد خان صاحب رح اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے کیے. امتحان لینے کے بعد حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری نے فرمایا کہ یہ بچہ ماشاء اللہ اچھی صلاحیت کا مالک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک فاضل جو ابھی خود بچہ ہے بچوں کو کیسے پڑھائے گا.. مدرس کے لیے وجاہت بھی تو ضروری ہے.. تو حضرت قاری صاحب نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ حضرت! وجاہت صرف عمر اور جسم وجثہ سے نہیں بلکہ آواز انداز اور علم سے بھی ہوتی ہے ماشاء اللہ اس کی آواز وانداز میں خاص قسم کی وجاہت ہے… اللہ کا فضل کہ قاری صاحب کی اس بات سے تمام حضرات نے اتفاق کیا یہاں تک کہ حضرت مفتی صاحب نے بھی
. اس طرح قاری صاحب کی تائید سے میرے لیے ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا..
حضرت قاری محمد عثمان منصور پوری میرے وہ محسن تھے، جنھوں نے اُس دن سے میری دست گیری فرمائی اور سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا جب انتہائی کم عمری میں،یتیمی کی حالت میں میں نے پہلی مرتبہ سن انیس سو بانوے میں دارالعلوم دیوبند میں قدم رکھا تھا.. اور سرپرستی کا یہ سلسلہ تا حین حیات (2021) دوہزار اکیس تک جاری رہا…..
حضرت منصور پوری میرے خسر و ماموں مولانا شفیق عالم قاسمی کے رفیق دیرینہ اور ہمدم وہمساز تھے تھے.. اور ان کی تشریف آوری کئی مرتبہ ماموں جان کی دعوت پر بیگوسرائے ہوچکی تھی، ان مواقع پر حضرت منصورپوری کی دعائیں لینے اور ان کی شفقتوں سے فیضیاب ہونے کے قیمتی مواقع بچپنے ہی سے میسر آئے تھے. جوں جوں حضرت قربت بڑھتی گئی آپ کے اعلی اخلاق کے نقوش میرے دل ودماغ پر قائم ہوتے گئے.. جب بھی چھٹیوں میں الوداعی ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو اپنے دوست مولانا شفیق عالم قاسمی کے لیے کوئی نہ کوئی ہدیہ وتحفہ ضرور بھیجتے… اور اگر ماموں جان کی طرف سے کوئی ہدیہ انھیں پیش کرتا، تو فوراً گھر سے کچھ نہ کچھ لاکر مجھے عطا کرتے. بہار سے جب بھی گزرتے تو اپنے رفیق دیرینہ سے ملاقات کے لیے ضرور تشریف لاتے..
شکیلت اور مہدویت کے فتنوں سے بچانے کے لیے جامعہ رشیدیہ بیگوسرائے کی طرف سے جب جنوری 2019 میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا، تو انتہائی مصروفیت کے باوجود مولانا شفیق عالم کی ایک کال پر اس کے لیے تیار ہوگئے اور یہاں تشریف لاکر زور دار اور جامع خطاب فرمایا اس پروگرام کی نظامت یہ عاجز کررہا تھا.. الحمدللہ پورے علاقے پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے . جاتے ہوئے اس عاجز کو اس کی مکمل رپورٹ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند کے نام اور اخبارات میں بھیجنے کا حکم دیا، جس کی تعمیل کی گئی.
انتقال سے کچھ ہی دن قبل مارچ میں ادارۃ المباحث الفقہیہ کے فقہی اجتماع میں دہلی میں ان کی زیارت ہوئی تھی،، حسبِ معمول انتہائی اپنائیت ومحبت کے ساتھ ملے… اپنے رفیق حضرت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر معراج الحق کی خیریت وعافیت دریافت کی.. کئی قیمتی نصیحتیں فرمائیں… فقہی اجتماع کی اختتامی نششت میں بصیرت افروز خطاب فرمایا اور فقہی اجتماع میں فیصل شدہ مسائل کے مؤثر نفاذ کے لیے مشورے طلب کیے… اس عاجز نے بھی اس سلسلے میں کئی مشورے دیے…پھر الوداعی ملاقات ہوئی.پھر اچانک وفات کی خبر آئی
آپ کی شخصیت میں بڑی جامعیت تھی، بڑی جاذبیت تھی، بڑا وقار تھا ہر حلقے میں ان کا بڑا اعتبار تھا.. انتہائی صاف ستھری اور تقویٰ و پرہیزگاری سے مزین شناخت کے مالک تھے.. اس جامعیت اور ہمہ جہتی نے آپ کو محبوب الخلائق اور ہر دل عزیز بنا دیا تھا… جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی اچانک وفات کی خبر سے علمی ودینی فضاؤں میں ہر چار جانب سے افسردگی چھاگئی.
غم دنیا غم ہستی غم الفت غم دل
کتنے عنوان ملے ہیں مرے افسانے کو
حضرت قاری صاحب کو بہار کی سرزمین سے بڑی انسیت تھی،، ایک زمانے تک آپ جامعہ قاسمیہ گیا میں خدمت تدریس انجام دیتے رہے… بیگوسراءے بھی اپنے دوست حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی (بانی و مہتمم جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگوسرائے) سے ملاقات کے لیے متعدد بار تشریف لائے…. ماموں جان سے رفاقت کی نسبت سے حضرت قاری صاحب اس عاجز کو بھی بھانجا سمجھتے تھے اور ویسی ہی شفقت ومحبت پیش فرماتے تھے.
آپ نے تبحر علمی اور بلندی اخلاق کے جو انمٹ نقوش قائم کیے ہیں وہ درخشاں اور تاباں ہیں اور امید ہے آپ کے بعد آپ کے عالی مرتبت صاحب زدگان حضرت مولانا مفتی سلمان منصورپوری اور برادرم جناب مولانا مفتی عفان منصور پوری کے ذریعے ان نقوش کو مزید تابانی ملے گی..
اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
بندہ خالد نیموی قاسمی
صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین دوحہ قطر
(یوم وفات پر خاص مضمون)