مفتی ناصرالدین مظاہری
مدرسہ مظاہرعلوم وقف سہارنپورکے استاذتفسیروحدیث جناب مولانانثاراحمدمظاہری نے طویل علالت کے بعدرات تقریباًڈیڑھ بجے دہلی کے بتراہوسپٹل میں آخری سانس لی۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
مولاناموصوف بڑے اوصاف وکمالات کے حامل،اچھی لیاقت وصلاحیت کے مالک، تدبیروتدبرسے آراستہ وپیراستہ،وعظ وتقریر،درس وتدریس،سلوک واحسان اورعلوم وعرفان کی دولت سے مالامال تھے،وہ کم گوتھے لیکن بولنے کے مواقع اورتقاضوں پرخوب بولتے تھے،ان کافکرپختہ ،ان کاقلم شگفتہ اوران کابودوباش معیاری تھا،وہ اچھی زندگی بسرکرتے تھے،علماء اورطلبہ کے لئے ہمیشہ اچھاسوچتے،اچھاچاہتے اوراچھے مشورے دیتے تھے ،مظاہرعلوم سے فارغ تھے ،حضرت مولانامحمداسلم مظاہری مہتمم کاشف العلوم کے زمانہ اہتمام میں مولانانثاراحمدمظاہری نے جامعہ کاشف العلوم چھٹمل پورمیں کافی دن خدمت کی،وہاں پانی کی بڑی ٹنکی کاصرفہ مولاناکی وساطت سے ہی پوراہواہے ۔آپ نے کچھ مدت المعہدالاسلامی مانک مئومیں بھی خدمت کی ہے ،پھرآپ نے سہارنپوردہلی شاہ راہ پرسندرپورجیسی خوبصورت اورسندرجگہ پرہائی وے سے متصل ایک بڑی اراضی خریدی ،اس پورے ہائی وے پرشاندارکالجز،بڑے اسکول،معیاری عصری ادارے موجودہیں اس لئے مولاناکی خواہش اورچاہت تھی کہ ایک شاندارمسجدبھی بنوائی جائے چنانچہ پہلے مولانانے بڑے رقبہ پرعام بھارتی طرزتعمیرسے ہٹ کرایک خوبصورت،کشادہ اورپرشکوہ مسجدبنوائی جس میں اوپرنیچے کئی سونمازیوں کی گنجائش ہے پھراسی مسجدسے متصل دارالعلوم الخیریہ کے نام سے مدرسہ بنوایا،مدرسہ کی عمارت بھی ماشاء اللہ بڑی عمدہ اورخوبصورت ہے۔یہ مولاناکے اوصاف وکمالات میں سے ہے کہ آپ اپنے ماتحتوں پرخوب اعتمادکرتے تھے اوراپنے ماتحتوں کی تربیت اس اندازمیں کرلیتے تھے کہ کبھی کسی ماتحت نے بے وفائی نہیں کی،مولاناسے بگاڑنہیں ہوا،مولانالمبے لمبے سفرپرہوتے تب بھی ماتحت حضرات مدرسہ کے تعلیمی نظام کومتأثرنہ ہونے دیتے تھے۔
میری محدودمعلومات کے مطابق دوحضرات سے اصلاحی تعلق تھا،پہلے حضرت مولانامحمدہاشم قاسمی مدظلہ سے جومولاناکے استاذبھی ہیں دوسرے داعی اسلام حضرت مولاناکلیم احمدصدیقی مدظلہ پھلت،دوسری شخصیت سے آپ کافی متأثرتھے ،کاردعوت،طریق دعوت،نظام دعوت،حکمت دعوت،اسلوب دعوت،ضرورت دعوت،اہمیت دعوت اورمواقع دعوت جیسے امورمیںمولاناکوبڑی بصیرت حاصل تھی ،دس پندرہ سال پہلے حضرت مولانامحمدسعیدی ناظم مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور نے آپ کاتقررمظاہرعلوم میں تدریس کے لئے کرلیا،تدریسی جوہرکھلے توناظم صاحب ہی کے حکم پرآپ نے شہرکی ایک مسجدمیں ہفتہ واری تفسیرکاعوامی درس شروع کیا،یہ عوامی درس دھیرے دھیرے اتنامقبول ہواکہ دورونزدیک سے لوگوں کاایک ہجوم شریک ہونے لگا،مسجدکشادگی کے باوجودتنگ محسوس ہونے لگی،مسجدکی انتظامیہ نے خواتین کے شدیدتقاضوں کومدنظررکھتے ہوئے مسجدسے قریب کے مکانات اوران کی چھتوں تک لاؤڈاسپیکرنصب کئے اوراس طرح خواتین کی بڑی تعدادنے آپ کے درس میں شرکت کی سعادت حاصل کی ،مولاناہی کے بقول خواتین کی اتنی بڑی تعدادشریک ہوتی تھی کہ قرب وجوارکی سڑکیں،گلیاں اورمکانات بھرجایاکرتے تھے۔مولاناکادرس تفسیرلوگوں میں مقبول ہوتاگیایہاں تک کہ بہت سی جگہوں سے لوگوں نے تقاضے شروع کردئے کہ دنوں کے اعتبارسے الگ الگ مساجدمیں تفسیری نظام بنایااورمرتب کیاجائے چنانچہ الحمدللہ مولاناہفتہ میں کئی جگہ درس تفسیردیتے اورہرجگہ عوام کی بڑی تعدادشریک درس ہوتی رہی۔
بنگلور کے حضرات بہت ہی عمدہ مزاج رکھتے ہیں ،ملک کاکریم کریم علمی طبقہ بنگلورجاتابھی رہتاہے ،آپ کی شہرت اورمقبولیت سن کروہاں کے احباب نے بھی چاہاکہ ماہ رمضان المبارک میں مولانادرس تفسیرکے لئے بنگلورتشریف لایاکریں چنانچہ خودمولاناکے بقول بنگلورمیں درس تفسیرسے بڑافائدہ یہ ہواکہ مجھے مستقل موضوع اورعنوان منتخب کرناپڑتاتھا،اہالیان بنگلورکاکہناتھاکہ تفسیرکادرس توبہت سے علماء نے بنگلورمیں دیالیکن جوخوبیاں مولانانثاراحمدمظاہری کے درس میں نظرآئیں وہ کسی اورکے درس میں نظرنہیں آئیں۔شہرسہارنپورکے آپ کے چاہنے والے حضرات نے ایک ویب سائٹ پرآپ کے تفسیری دروس پابندی کے ساتھ اپلوڈبھی کرنے شروع کئے چنانچہ ایک وقت ایسابھی آیاکہ درس تفسیرلائیوشروع کردیاگیااورجتنی تعدادحاضرین کی ہوتی تھی اس سے کہیں زیادہ تعدادانٹرنیٹ پراستفادہ کرنے والوں کی ہوتی تھی۔
مولانانثاراحمدمظاہری اصلاًکھیڑہ افغان کے رہنے والے تھے ،روزی اورروزگارنے انھیں کھیڑہ افغان کی بجائے سہارنپورمیں ہی بودوباش اختیارکرنے پرمجبورکردیا،شہرمیں منڈی سمیتی روڈپرخوبصورت مکان آپ نے کافی پہلے تعمیرکرایاتھااورتمام اولادنے یہیں پرورش پائی ہے۔
حضرت مولانانثاراحمدمظاہری کوتقریرکابڑا ملکہ تھا،وہ جس موضوع پربولتے تھے اتنامرتب،اتنامکمل اوراتناعجیب ،نکتہ رس،نکتہ آفریں اورحکمت وبصیرت سے پرہوتاتھاکہ لوگوں کے درمیان کافی دن تک ان کی تقریرکے چرچے ہواکرتے تھے وہ جہاں ایک دفعہ بلائے گئے توآئندہ کے لئے ان کی گویاتاریخ متعین ہوگئی ،کتنے ہی مواقع ایسے ہیں جن کومیں بھی جانتاہوں کہ سالانہ خصوصی تقریبات میں مولانابالخصوص بلائے جاتے تھے۔تقریرعوام وخواص دونوں کے مطلب کی ہوتی تھی،نکتہ آفرینی اورباریک باتوں کی نشاندہی میں آپ کواللہ تعالیٰ نے کمال بخشاتھا،اسی طرح آپ تحریری میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے ،جب وقت ملتا،حالات ہوتے،تقاضاہوتاتوخوبصورت مضمون ان کے قلم سے نکلتااوربڑے حلقہ میں دلچسپی کے ساتھ پڑھاجاتاتھا۔چنانچہ ایک مرتبہ روزنامہ انقلاب دہلی نے مظاہرعلوم کے بارے میں خصوصی شمارہ نکالنے کافیصلہ کیا،اخبارکی انتظامیہ نے مظاہرعلوم وقف کی انتظامیہ سے رابطہ کیا،اس مشورہ میں مولانانثاراحمدمظاہری بھی شریک رہے ،چنانچہ مدرسین حضرات کے درمیان مقررہ عناوین تقسیم کردئے گئے ،مولانانثاراحمدمظاہری کاعنوان تھا’’عالمی سطح پرعلمائے مظاہرعلوم کی علمی وروحانی اورسماجی خدمات‘‘مولانانے اس موضوع پرکئی صفحات کامبسوط مضمون تحریرفرمایاتھا۔
آپ بڑی اچھی صحت کے مالک تھے،لاک ڈاؤن سے کچھ پہلے مولاناعلیل ہوئے،دہرہ دون میں زیرعلاج رہے،آپریشن بھی ہوا،کچھ دن بعدپھربیماری نے عودکیااورہریانہ کے ایک ہوسپٹل میں آپریشن ہوا،پے درپے پیٹ کے آپریشن سے مولانابالکل نڈھال ہوگئے ،کھانے پینے کی بندشیں لگ گئیں ،پرہیزی کھاناساتھ میں لے کرچلتے تھے،شعبان میں نکوڑقصبہ میں ایک جلسہ میں مجھے بھی مدعوکیاگیا،مولاناکی مختصرمگربہت اہم تقریرہوئی ۔اس کے بعدسالانہ کی تعطیل میں میں اپنے وطن چلاگیا،سناہے رمضان المبارک مولانانے بنگلورمیں گزارنے کافیصلہ کیا،وہیں غالبابیس رمضان المبارک کوطبیعت خراب ہوئی ،دہلی لائے گئے ،بتراہوسپٹل میں زیرعلاج رہے اورآخرکارتین چارہفتہ وہیں زیرعلاج رہ کرجان جان آفریں کے سپردکردی۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
آپ کے انتقال سے ملت اسلامیہ ایک بڑے مقرر،خطیب اورعالم سے محروم ہوگئی تومظاہرعلوم وقف ایک اچھے استاذسے محروم ہوگیا۔اللہ تعالیٰ مولاناکے پسماندگان کوصبردے،صبرپراجردے،اجرسے درجات بلندہوں،مولاناکوجنت الفردوس میں جگہ ملے ۔متعلقین سے دعائے مغفرت کی بالخصوص گزارش ہے۔تادم تحریرجنازہ دہلی سے گھرلایاجاچکاہے،غسل اورتکفین کاعمل جاری ہے،نمازجنازہ تین بجے شام کوحاجی شاہ کمال میں اداکئے جانے کااعلان کردیاگیاہے اورتدفین بھی ان شاء اللہ اسی قبرستان میں ہوگی۔