برادرم مولانا سعدان جامی قاسمی کی اچانک رحلت

نگار خانہء دیوبند ایک مہ پارے سے محروم

محمد فہیم الدین بجنوری
خادم تدریس دارالعلوم دیوبند
8 شوال 1443ھ 10 مئی 2022ء

موت نے چپکے سے آکر کچھ کہا
زندگی خاموش ہوکر رہ گئی

احاطہء دارالعلوم سے رشتہء تلمذ کی استواری کے دوسرے سال کا آغاز تھا، میں ہفتم اولی کی درس گاہ میں سانسیں شمار کر تے ہوئے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا کہ یکا یک ایک نفیس پوش، وضع دار، عطر بیز، شاداں وشاداب اور نہایت شان دار شخصیت میرے پہلو میں منزل پذیر ہوئی، ادھر اپنے گنوار پن، بے ذوقی، بے مایہ گی، یا قلندرانہ بے نیازی کو یاد کرکے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ کوئی تھیلا نما واجبی ملبوس، میرے تعلق سے بھی تہذیبی روایات کی خانہ پری کر رہا ہوگا۔

اس نئی آمد کے رنگ وآہنگ سے میں سہم گیا اور فضا کی جس جدت سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی قواعد میں مصروف تھا وہ مزید اجنبی ہوگئی؛ رفیقِ درس، برادرم، ہر دل عزیز، مرجعِ احباب حضرت مولانا سعدان جامی علیہ الرحمہ سے یہ میرا اولین مواجہہ یا خاموش سابقہ تھا؛ کیوں کہ سالِ گذشتہ درس گاہیں جداگانہ اور ترتیبیں مختلف تھیں اور حسبِ روایات، جدید طلبہ کو تجاوزات کے حوصلے سے سمجھوتہ ناگزیر ہوتا ہے۔

ان کی خوش پوشاکی طبع زاد تھی، تکلف پر مبنی پوشاک ہواؤوں کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں؛ لیکن میں نے پچیس سال قبل، اولین ملاقات میں جو رنگ دیکھا تھا آخر تک اس میں تغیر نہیں آیا، گفتگو اور قرب کے تجربات، نئے ملاقاتیوں اور دور کے شناساؤں کو ابتدائی تاثر پر نظر ثانی کے لیے مجبور کردیتے تھے، زرق برق لباس سے نمودار ہونے والی نرم خوئی، اپنائیت، محبت، ہم دردی اور ملن ساری بالکل نئی اور مختلف داستان سامنے لاتی تھی۔

بھائی سعدان کو، والدِ گرامی حضرت مولانا ریاست علی صاحب علیہ الرحمہ کے ”بعد از وفات حق“ کا بہت اہتمام تھا؛ چناں چہ حضرت کے خاصانِ مجلس سے تشریف آوری کے ہمیشہ خواہاں رہتے، اس بابت گلہ بھی محبت آمیز ہوتا، کہیں دیکھ لیتے تو کہتے: بھائی فہیم ناراض ہو؟ ابو کے بعد آتے ہی نہیں! عرصہ ہوا نظر نہیں آئے! پھر حاضری پر دستر خوان کے ساتھ دل بھی بچھادیتے، افسوس کہ آج ”بھائی فہیم“ والی شیریں آواز بھی ”فہیم“ یا ”بیٹے فہیم“ والی بزرگانہ ندا کے جلو میں پہنچ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔

ادھر دور ثانی میں ناچیز نے رجوع وانابت کے خصوصی آثار دیکھے، تلاوت کی کثرت کے ساتھ اوراد وظائف کا اشتغال قابل رشک تھا، بجنور کے ایک سفر میں احباب گفتگو کے آرزو مند تھے؛مگر مولانا موصوف دور اور دیر تک عربی دعاؤں اور اوراد میں رطب اللسان رہے، میں نہیں سمجھتا کہ یومیہ معمول کے بغیر کوئی شخص ایسی دراز عربی دعائیں روانی کے ساتھ دہرا سکتا ہے، اذکار اور وظائف کے طویل دورانیے کے بعد، قرآن کریم کی تلاوت کا شغل رہا اور انتظار کی لمبی ساعتوں کے بعد کار میں ”بزم احباب“ کا بے تکلف رنگ پیدا ہوا۔

بھائی سعدان کوبیماری اور علاج کی صعوبتیں لاحق رہیں؛ لیکن والد بزرگوار کی طرح، دم واپسیں قلندرانہ اور ناز مندانہ رہا، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کی رحلت کا حادثہ بھی غیر متوقع تھا؛ کیوں کہ عوارض میں افاقے کے بعد طبیعت سنبھل گئی تھی، آج صبح واٹس ایپ کی اولین خبر نے پانچ سال قبل کا واقعہ تازہ کردیا، جب استاذ گرامی حضرت مولانا جمیل احمد صاحب سکروڈوی علیہ الرحمہ نے صبح سویرے میرے دروازے پر پکار کر یہ فرمایا تھا:”مولوی فہیم! حضرت مولانا ریاست علی صاحب کا انتقال ہوگیا“۔

مدنی روڈ سے دارالعلوم آتے جاتے ان کا خوش گوار سامنا ہمیشہ متوقع رہتا تھا، شگفتہ و خندہ چہرہ اور تلاوت میں مشغول زبان کسی بھی صبح وشام کو مالا مال کردیتی تھی، دولت کدے تک جانے والی گلی کا سکوت ان کے حلقہء انسیت کو ایک زمانے تک دل گیر وآب دیدہ کرتا رہے گا، آستانے کے اس موڑ پر، اخلاق، خوش طبعی، عالی ظرفی، محبت، اخوت اور غم خواری کی جو دراز داستان بھائی سعدان نے رقم کی ہے، اس کے گوناگوں صفحات ہم جیسوں کے دلوں میں ہمیشہ درخشاں وتابندہ رہیں گے۔

اللہ تعالی، بھائی سعدان کی مغفرت فرمائے، درجات عالیہ نصیب فرمائے، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کے جلو میں جنت الفردوس عطا فرمائے، جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، تمام امور کا بہترین بند وبست فرمائے، آمین۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے