مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
✏️ از: سید فضیل احمد ناصری
خادمِ حدیث و نائب ناظمِ تعلیمات جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
کل صبح سوا آٹھ بجے میں امتحان ہال میں بیٹھا تھا کہ اچانک محترم جناب مولانا ابوطلحہ مبارکپوری صاحب کی کال آئی۔ گھبراتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ مولانا سعدان صاحب کے بارے میں کچھ معلوم ہوا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگے کہ ان کے انتقال کی خبر آ رہی ہے، لیکن خبر ابھی مصدقہ نہیں ہے، اس لیے ابھی عام نہ کیجیے گا۔ میں ان کے گھر جا رہا ہوں، تحقیقی صورتِ حال فون پر بتا دوں گا۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ مولانا مبارکپوری کی اس حیران کن اور تذبذب آفریں گفتگو سے مجھے دھچکا لگا اور دعا کرنے لگا کہ الہی! خبر غلط ہو۔ پھر میں نے مولانا سعدان ہی کے نمبر پر فون لگایا تو وہ سوئچ آف جا رہا تھا، پھر انہیں کے دوسرے نمبر پر کال کی تو ان کے بھتیجے نے اٹھایا۔ میں نے پوچھا کہ مولانا سعدان صاحب کیسے ہیں؟ کہنے لگا کہ گزر گئے۔ میں نے فون رکھ دیا۔ جامعہ کے بعض اساتذہ میرے قریب ہی تھے، میں نے انہیں خبر دی۔ ہر ایک کے چہرے پر بارہ بجنے لگے۔ سب کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ لبوں پر استرجاع کا ورد چل پڑا۔
ہائے! کیا بتاؤں میرے دل پر کیا گزری! دل و دماغ ہرن ہو کر رہ گئے۔ پورا وجود لرز گیا۔ میں، مولانا صغیر احمد پرتاب گڑھی اور مولانا عبید انور شاہ صاحبان ان کے گھر پہونچے تو تعزیت کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ ابھی شروع ہی تھا۔ دارالعلوم کے اساتذہ رفتہ رفتہ آ رہے تھے۔ ہم لوگ بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں استاذِ گرامی حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحبؒ اپنی مجلسیں جمایا کرتے اور دیوبند کی سرکردہ علمی شخصیات چاند کے گرد ہالے کی طرح انہیں گھیرے رہتیں۔ تھوڑی ہی دیر میں مرحوم بجنوری استاذ کے بڑے صاحب زادے مولانا محمد سفیان صاحب نے زیارت کے لیے اندرونِ خانہ آنے کا اشارہ کیا۔ ہم پہونچے تو دیکھا کہ میرا یار موت کی چادر تانے سب سے بے خبر سو رہا ہے۔ میری آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی پہلے ہی تھیں، اب صبر کا باندھ بھی ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اشکوں کی ندیاں رواں ہو گئیں۔ دارالعلوم کے استاذ مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب تو بلک بلک کر رو رہے تھے۔ کیوں نہ روتے، وہ ان کے نسبتی بھائی تھے۔ انہوں نے ہی بتایا کہ مولانا سعدان کہتے تھے کہ میری عمر زیادہ نہیں ہے۔ شاید انہیں اس کا ادراک ہو چلا تھا۔ وہ گئے بھی تو اس حال میں کہ ان کے سر کا ایک بال بھی سفید نہیں ہوا تھا۔ داڑھی بھی جوں کی توں ان کے شبابی رنگ میں تھی۔
مرحوم دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحبؒ کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ان کی عمر پچاس کے آس پاس تھی۔ وہ میرے درسی ساتھی تھے۔ 1996 سے 1998 تک ہم دونوں نے ایک ساتھ دارالعلوم میں پڑھا۔ دارالعلوم میں میرا پہلا سال ششم اولیٰ میں گزرا، اس جماعت میں حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کے بیٹے مولانا ابراہیم پالن پوری کے ساتھ مولانا سعدان بھی تھے۔ نہایت خوب صورت۔ کڑیل نوجوان۔ ٹھوس بدن۔ چہرہ شعلے کی طرح روشن۔ داڑھی بھر پور۔ کسی نے بتایا کہ یہ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحب کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ اساتذہ ان کا بڑا خیال رکھتے۔ موصوف بھی اپنے قدیم ساتھیوں میں ہر دل عزیز۔ نئے رفقا سے بھی بے تکلف ہونے لگے تھے۔ ہم دونوں کی نشست آس پاس ہی تھی۔ رفتہ رفتہ تعلق ہوا۔ میں اس وقت 17 سال کا تھا۔ جسم و جثہ بھی قدرے ہلکا ہی تھا۔ بڑی عمر کے بعض رفقا کبھی کبھی مجھے پریشان کر دیتے۔ یہ صورتِ حال میں نے بھائی سعدان کو بتا دی۔ چشم زدن میں انہوں نے بھی ان سے نمٹ ہی لیا۔ میری الجھن دور ہو گئی۔ در اصل دوسروں کی مدد ان کی خاص ادا تھی۔ اگلے سال وہ ہفتم اولیٰ میں تھے اور میں ہفتم ثالثہ میں۔ دورۂ حدیث میں پھر اجتماع ہو گیا۔
دورۂ حدیث کے سال جو خاص واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ اس سال دارالعلوم کے انتظامیہ کی جانب سے ڈائری پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس سے پہلے لگاتار کئی برسوں سے ڈائریاں چھپ رہی تھیں، جن میں طلبۂ دورۂ حدیث کے نام اور مکمل پتے ہوتے تھے۔ انتظامیہ کے اس فیصلے سے ہم لوگ حیران تھے۔ مولانا سعدان نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں۔ انہوں نے کوشش کی، مگر بات جہاں تھی، وہیں اٹکی رہی۔ فائدہ اتنا ہوا کہ انتظامیہ کا فیصلہ کسی نہ کسی درجے میں بدلا۔ ڈائری تو نہیں، تاہم الوداعی ترانوں و تاثرات پر مشتمل مختصر رسالے کی اجازت مل گئی، چناں چہ وہی چھپا، جسے میں نے نغمہ ہائے فراق کا نام دیا تھا۔ اس کی بیش تر کتابت میری ہی تھی۔ چند ترانے بھی میرے قلم سے تھے۔ ایک ترانہ مولانا سعدان کا بھی تھا، جو بہت مقبول ہوا تھا۔ دورۂ حدیث کے بعد میں تو وطن چلا گیا اور سعدان صاحب نے ایک سال افتا میں بھی لگایا۔
فراغت کے بعد پھر ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ 2008 میں جب میں جامعہ امام محمد انور شاہ سے وابستہ ہوا تو مختصر تعارف کے بعد وہ پہچان گئے۔ اب ان سے روز کی ملاقاتیں تھیں۔ وہ بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتے۔ اعلیٰ اخلاق اور خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ شخصیت بڑی باغ و بہار پائی تھی۔ فطرت میں ظرافت بہت تھی۔ خوب ہنستے ہنساتے تھے۔ اساتذہ کی نقل بھی خوب کر لیتے تھے۔ حضرت مفتی سعید صاحب، مولانا نور عالم امینی صاحب اور مولانا ارشد مدنی صاحب کا لہجہ انہیں خوب آتا تھا۔ بڑی صفائی اور مہارت سے ان کے طرزِ تکلم کی خوب محاکات کرتے۔ جامعہ میں وہ اکلوتے شخص تھے جن سے میرا تعلق درس کی رفاقت کا رہا ہے۔ اس نسبت سے خوب دل لگی کرتے اور کہتے کہ دیکھو فضیل! اس وقت جامعہ میں ہم دو ہی ساتھی ہیں، میرے سے زیادہ خیرخواہ تیرا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ان کے اس جملے سے میں بھی خوب حظ اٹھاتا۔
سعدان صاحب اپنے تین بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ بڑے بھائی مولانا محمد سفیان ہیں اور دوسرے بھائی مولانا عدنان۔ عدنان صاحب امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ آ نہیں سکے۔
مولانا مرحوم خَلقاً و خُلقاً اپنے والد کے مشابہ تھے۔ نام ان کا سعدان سین کے زبر کے ساتھ تھا، مگر ہدایۃ النحو کی ایک عبارت: فسعدان اسمُ نبتٍ نے انہیں سُعدان کر دیا۔ وہ اپنے نام کے ساتھ سین پر پیش لگانا نہ بھولتے۔ اپنے والد ہی کی طرح بڑے شریف النفس اور درد اشنا دل کے حامل تھے۔ ابا کی وفات کے بعد ان کے متوسلین سے رابطہ نہیں توڑا۔ سخاوت میں اپنے ہم عمروں میں قابلِ رشک حد تک برھے ہوئے۔ نئے نئے نوٹوں کی گڈیاں جیب میں لیے رکھتے تھے اور کوئی غریب ملا تو فوراً اس کی دستگیری کر ڈالی۔ ہمدردی و غمگساری ان کی عادتِ ثانیہ۔ اس کے گواہوں میں خود میں بھی شامل ہوں۔ تین مواقع پر مجھے ان کی ضرورت پڑی، انہوں نے بر وقت مدد کی، مگر ان کا ایک اصول تھا۔ وہ بلا رو رعایت صاف صاف کہتے کہ یہ رقم کب تک اور کس تاریخ تک لوٹاؤگے؟ جب پوری یقین دہانی کرا دی جاتی تب وہ رقم تھماتے۔ اللہ کا فضل ہے کہ ہر بار میں نے اپنے وعدے کا ایفا کیا۔ میرے علم میں کئی ایسے واقعات ہیں، جن سے ان کی کشادہ دستی، کرم نوازی، سیرچشمی نمایاں ہے۔ جامعہ ہی کے کئی اساتذہ ان کی اس فیاضی اور داد و دہش کے شاہد ہیں۔
وہ بار بار کہتے تھے کہ بھائی! تم بھی عجیب ہو، نہ تو خود میرے گھر پر آتے ہو، نہ مجھے بلاتے ہو۔ میں نے کہا کہ بھائی! آپ کا اور میرا کیا جوڑ ہے! آپ سلیماں جاہ اور میں بے آب و گیاہ۔ کہنے لگے کہ لفاظی چھوڑو! تمہیں میرے یہاں اہلِ خانہ کے ساتھ آنا ہی پڑے گا۔ ان کے اصرار پر ایک دن فیملی کے ساتھ پہونچا تو حسبِ عادت بڑی ضیافت کی اور خوش ذائقہ مٹھائیوں و لوازمات سے کام و دہن کا سامان کیا۔ ایک دن کہنے لگے کہ مجھے کیوں نہیں دعوت دیتے؟ میں نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز آپ کے شایانِ شان نہیں، کیسے ہمت کروں؟ کہنے لگے: اس کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھے اپنا دوست نہیں مانتے۔ میں نے کہا: جب ایسا ہے تو کل ناشتے پر تشریف لائیں! وہ آئے۔ میں نے بہ اندازۂ ہمت ان کی خاطر تواضع کی، حالانکہ ضیافت بس ایسی ہی تھی، مگر اتنی تعریف کی کہ کیا بتاؤں! جاتے جاتے بچوں کے عنوان پر زبردستی ہدیہ بھی دینے لگے۔ میں نے منع کیا تو مولانا ابوطلحہ صاحب کہنے لگے کہ قبول کر لیجیے! یہ ان کا مزاج ہے۔ میں نے لے لیا، مگر اس کے بعد پھر ان کی دعوت نہیں کی۔ مجھے لگتا تھا کہ اس سے طمع کی جانب اشارہ ہوگا۔ وہ بار بار کہتے رہے اور میں ہنس کر ٹالتا رہا۔
مولانا جس مجلس میں ہوتے مرکزِ توجہ ہو جاتے۔ مختلف موضوعات پر جان تبصرے، خوب صورت اور لطیف طنز، صاف ستھری بے لاگ گفتگو ان کا نشانِ امتیاز تھی۔ سب سے مل کر رہتے اور گروہ بندی سے گریزاں۔ ان کا ادبی ذوق بھی بڑا ستھرا اور نکھرا تھا۔ اچھے اور خوب صورت اشعار انہیں خوب یاد تھے اور جب رو میں ہوتے تو ایک سانس میں کئی کئی اشعار پڑھتے ہوئے چلے جاتے۔ ایک دن ان کی تحریک پر میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری صاحبؒ کی مجلس میں گیا۔ کئی اور علمی شخصیات کے ساتھ مولانا سعدان بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے بلند الفاظ میں میرا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ میرے درسی ساتھی فضیل احمد ناصری ہیں اور جامعہ امام محمد انور شاہ میں پڑھاتے ہیں۔ مولانا نے سنتے ہی فرمایا: اچھا آپ ہی ناصری صاحب ہیں۔ آپ سے ملاقات ہر ماہ ہو جایا کرتی ہے۔ محدثِ عصر میں آپ کا دیدار ہوتا رہتا ہے۔ پھر کافی باتیں ہوئیں۔ اگلے دن مولانا سعدان ملے اور کہنے لگے کہ فضیل! تمہارے سلسلے میں والد صاحب کے جملے بڑے وقیع ہیں۔ انہوں نے تمہارے قلم کی تعریف کی ہے۔
ان کا انتخاب بہت اعلیٰ تھا۔ ان کے ہاتھ کی گھڑی ہو یا برسات کی چھتری، حسنِ مذاق کا اعلیٰ نمونہ ہوتی۔ پوشاک میں، خوراک میں، بود و باش میں نزہت و بہجت کا خوب لحاظ رکھتے۔ نستعلیقیت اور نفاست ان کی جان تھی۔ ہمیشہ کڑک اور کلف دار کپڑے پہنتے اور روز ہی تبدیل کرتے۔ ان کے لباس میں شکن کا کوئی گزر نہیں تھا۔ عطر بھی اعلیٰ معیار کا ہوتا۔ جس مجلس اور راستے سے گزر جاتے، خوشبوؤں سے بھر جاتی۔
مولانا نے بیس سال جامعہ میں پڑھایا۔ فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ سے انہوں نے لکھوا لیا تھا کہ میری حاضری صرف صبح کی ساعتوں میں رہے گی، چناں چہ ان کے گھنٹے صبح کے ساتھ ہی مخصوص تھے۔ طلبہ پر ان کا خاصا اثر تھا۔ تفہیم زبردست تھی۔ بر وقت اور بہترین مثالیں تخلیق کرتے اور اپنا مدعا طلبہ کو سمجھاتے۔ اول سے پنجم تک کی کتابیں ان سے متعلق رہیں۔ پنجم میں عموماً عقیدۃ الطحاوی اور آثار السنن پڑھاتے۔
وہ طلبہ پر مادرِ مشفق کی طرح بڑے مہربان تھے۔ ان کی ضرورتوں کا خوب خیال رکھتے۔ بعض طلبہ کے سالانہ اخراجات اپنے ذمے لے لیتے اور جب تک وہ طلبہ جامعہ میں پڑھتے، ان کی مکمل کفالت کا بھرپور انتظام کرتے۔ وہ طلبہ انتہائی مخدوش گھرانے اور مفلوک الحال پس منظر کے باوجود اپنی بود و باش میں مولانا کے گھر کے ہی افراد معلوم ہوتے۔ سردی کے مہینوں میں ان کا ہاتھ اور زیادہ کھل جاتا، درس گاہوں میں فرش کی گرمی کا خوب انتظام کرتے۔
مولانا کی صحت بڑی قابلِ رشک تھی، مگر ادھر چند سالوں سے بری طرح متاثر رہنے لگی۔ 2010 میں ان کے پتّے کا آپریشن ہوا، وہ کامیاب نہ رہا، چند ماہ کے بعد دوبارہ آپریشن ہوا، وہ بھی برائے نام ہی کامیاب تھا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ جب وہ چلتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ پیٹ جسم سے الگ ہو کر گر پڑے گا۔ اونچائی پر چڑھنا ان کو منع ہو چکا تھا، مگر اپنی وضع قطع، گفتگو اور چال ڈھال سے پتہ چلنے نہیں دیتے تھے۔
مولانا کی شادی خانقاہ امدادیہ اشرفیہ تھانہ بھون کے متولی حضرت مولانا سید نجم الحسن صاحب تھانوی کی دوسری لڑکی سے ہوئی تھی، جن سے تین بچیاں اور ایک بچہ ہے۔ بچیوں کے نام بالترتیب ارویٰ، حلیمہ اور عناویہ ہیں۔ بچے کا نام حیان ہے۔ یہ تمام بچے نابالغ اور بہت چھوٹے ہیں۔ سب سے چھوٹی لڑکی ڈھائی سال کی ہے۔
جنازے کی نماز دارالعلوم کے احاطۂ مولسری میں پونے تین بجے ہونی تھی۔ میں اور مولانا صغیر صاحب دو بجے ہی ان کے گھر پہونچ گئے۔ دیکھا تو پوری گلی اور ان کا گھر علما و صلحا سے بھرا پڑا تھا۔ ان کے دوست احباب، ان کے محبین و مخلصین جماؤڑا لگائے بیٹھے تھے اور اپنے ممدوح کی جدائی پر آنکھیں نم کیے ہوئے تھے۔ ان کے دل ویران اور چہرے خزاں آشنا۔ پوری فضا اندوہ و الم کی ہیبت ناک تصویرِ۔ ڈھائی بجے ان کی میت اٹھائی گئی۔ آہ! کیا بتاؤں دل پر کیا گزری! جگر کی قاشیں ہو رہی تھیں۔ ڈولی آگے بڑھی تو اسے ہاتھ لگانے کی سعادت میرے حصے میں بھی آئی۔ بھیڑ اس قدر تھی معلوم ہوتا تھا کہ کسی شیخِ وقت نے ارتحال کیا ہے۔ بعدِ نمازِ ظہر دارالعلوم کے استاذ حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب زیدمجدہم نے جنازے کی نماز پڑھائی۔ ہزاروں سوگواروں نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ پھر جنازہ بڑی آہستگی سے آخرت کی پہلی منزل کی جانب بڑھنے لگا۔ ہجوم و ازدحام بڑا دیدنی تھا۔ اتنی بڑی تعداد تو ان کی شادی میں بھی نہیں تھی۔ قبرستانِ قاسمی پہونچا تو انہیں مٹی دینے والے یہاں بھی جمگھٹا لگائے کھڑے تھے۔ مولانا سلمان صاحب کہہ رہے تھے کہ والدین کے پہلو میں مولانا کو جگہ ملی ہے۔ میں نے تعیین معلوم کی تو مولانا نے بتایا کہ پچھم جانب تو حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری آرام فرما ہیں، ان سے متصل پورب میں والدہ ماجدہ اور ان سے متصل یہ مولانا سعدان ہیں۔ میں نے مٹی ڈالی اور کس دل سے ڈالی! پیچھے پلٹا تو سعدان بھائی کے برادرِ نسبتی مولانا سید حذیفہ نجم تھانوی سعدان بھائی کے اکلوتے بیٹے حیان سلمہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے اشارے سے بتایا کہ یہ مرحوم کا بچہ ہے۔ معصوم کو دیکھ کر دل کی جو کیفیت ہوئی کیا عرض کروں۔ میں ہاتھ نچاتا رہ گیا۔ چھ سات سال کا یہ معصوم کیا جانے کہ اس پر کون سی قیامت گزری ہے! بوجھل قدموں سے واپس آیا تو مرحوم کی یادیں ایک فلم کی طرح چل رہی ہیں اور مسلسل چلتی جا رہی ہیں۔ میرے اور مولانا کے بیچ ایک بڑی دیوار حائل ہو گئی ہے۔ نگاہیں پھر اسی تبسم، قہقہہ اور دل لگی کو تلاش رہی ہیں۔ دل انہیں ظرافتوں، دل نواز اداؤں اور بہار بر دوش لہجوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ اب میں ہوں اور بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر:
مرا رنگ روپ بگڑ گیا، مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصلِ بہار ہوں
کروڑوں رحمتیں ان کے مرقد پر۔