مولانا سعدان جامی صاحب: کچھ باتیں، کچھ یادیں

نفاست پسند و خوش مزاج شخصیت

تحریر : بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

معھد الانور اور اس کی شہرت:
آج سے بیس سال پہلے سن 2002 میں راقم دیوبند کے معروف ادارہ جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم و الصنعہ میں زیر تعلیم تھا، قرآن کریم کا دور مکمل ہوا چاہتا تھا، اس دوران طلبہ کے درمیان دیوبند میں قائم ایک نئے ادارے کا خوب چرچہ تھا، نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ و مہمانان کرام اور معززین اہل شہر کی مجلس بھی اس ادارہ کے تذکرہ و تبصرہ سے خالی نہ رہتی. ادارہ جس شخصیت نے قائم کیا تھا ان کا نام ہی ادارہ کی شہرت، نیک نامی اور مقبولیت کے لیے کافی تھا، وہ شخصیت تھی فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری کی، جنھیں اس وقت ہم فقط "شاہ صاحب” کے نام سے جانتے تھے. اور وہ ادارہ تھا امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کی جانب منسوب "معھد الانور”. یہ ادارہ اپنے منفرد نظام تعلیم، دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کی شمولیت، کمپیوٹر کورس، طعام میں تنوع، با صلاحیت و تجربہ کار اور محنتی اساتذہ کرام کی ایک جماعت کے تعلق سے اپنی ایک امتیازی شان رکھتا تھا.

راقم کا معھد میں داخلہ:
راقم کے والد مکرم حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی مدظلہ (استاذ حدیث و ادب دارالعلوم وقف دیوبند) نے حفظ کے بعد عربی تعلیم کے لئے اسی ادارے کا انتخاب فرمایا. اہل علم احباب جانتے ہیں کہ شعبہ حفظ کے طالب علم کی کائنات ایک ہی ہستی "قاری صاحب” کے ارد گرد گھومتی ہے، پورے دن بس ایک ہی استاذ کے سامنے اس کو زانوئے تلمذ طے کرنا ہوتا ہے، چنانچہ ساعات کی تبدیلی، درسگاہ میں اساتذہ کی آمد و رفت اور الگ الگ مزاج رکھنے والے اساتذہ کے مطابق اپنی طبیعت کو ڈھالنا؛ یہ ساری باتیں میرے لیے بالکل اجنبی تھیں.

ادارہ کی خصوصیات:
ادارہ میں داخلے کے بعد فورا اندازہ ہو گیا کہ اس ادارہ کی آسمان چومتی شہرت یوں ہی نہ تھی، جہاں ایک طرف چاق و چوبند نظامِ تعلیم تھا تو دوسری طرف اسباق کی پابندی، تکرار و مذاکرہ کا شاندار ماحول، ہفتہ واری سہ لسانی انجمن کا قیام، اجتماعی طور پر طلبہ کو کھانا کھلانے کا نظم، ہر شعبہ میں تجربہ کار اساتذہ کی نگرانی، صبح و شام مسنون دعاؤں کا اجتماعی اہتمام، وقتا فوقتاً دارالعلوم، دارالعلوم وقف و دیگر اداروں کے بڑے اساتذہ کی معھد حاضری اور طلبہ کے سامنے پر نصیحت گفتگو، تجربہ کار، مخلص اور معھد کی ترقی کے لئے شب و روز ایک کر دینے والے جاں نثار اساتذہ کرام و کارکنان کی ایک متحرک و فعال ٹیم اور اس ٹیم کے سرپرست، اس کے ہر عمل کی حوصلہ افزائی کرنے والے، اس میں جذبہ عمل اور شوق جاں نثاری پیدا کرنے والے ادارہ کے عظیم بانی و روح رواں فخر المحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری. اس ادارے کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ تھی سرپرست کا اساتذہ سے گہرا ربط، وہ ہر ہر استاذ کی نقل و حرکت سے واقف رہتے، ان کی خوشی اور غم میں اپنا حصہ رکھتے، ہر نظام کی عمدگی یا ابتری ان کے علم میں رہتی، چنانچہ وہ اپنے معیار اور متعلقہ ذمہ دار کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے ہمکلام ہوتے. کسی بھی ملک، ادارہ، تنظیم یا فاؤنڈیشن کی ترقی کی شاہ کلید یہی رابطہ ہے، اگر مافوق کا ماتحت سے رابطہ مضبوط ہوگا تو ادارہ ترقیات کے مدارج طے کرے گا، نیک نامی اس کا مقدر ہوگی اور وہ کچھ ہی دنوں میں علی سبیل المثال پیش کیا جائے گا، اس کے بالمقابل اگر ذمہ دار شخص کا اپنے ماتحتوں سے براہ راست رابطہ نہ ہو تو کوئی بھی ادارہ اس کے مہلک نتائج سے محفوظ نہیں رہ سکتا.
بات ذرا لمبی ہو گئی، خیر! یوں تو اس وقت ادارہ کے جملہ عربی اساتذہ اپنی مثال آپ تھے، ان میں سے ہر ایک اس لائق ہیں کہ ان کے بہترین انداز تدریس اور افہام و تفہیم کی متنوع صلاحیتوں پر الگ الگ مضمون رقم کیا جائے، بلکہ اس وقت کے معھد کی ایک مختصر روداد مرتب کی جائے، لیکن سردست جس شخصیت کا تذکرہ مقصود ہے وہ ہیں استاذ محترم حضرت مولانا محمد سعدان جامی صاحب علیہ الرحمہ.

استاذ گرامی حضرت مولانا سعدان جامی؛ شخصیت و انداز تدریس :

احقر نے استاذ محترم سے چار سالوں کے دوران مختلف کتابیں پڑھی ہیں، عربی اول میں مالابد منہ فارسی، دوم میں مرقات اور پنجم میں الادب المفرد و عقیدۃ الطحاوی.
مولانا کی شخصیت بڑی مرعوب کُن تھی، خوب روئی تو اللہ تعالیٰ نے بخشی ہی تھی، عمدہ لباس اور نہایت شاندار عطر؛ یہ ان کا لازمہ تھا. نفاست پسندی اور خوش پوشاکی میں ضرب المثل، سردی کے موسم میں صدری کی جیب میں بادام و دیگر مغزیات موجود، آواز بلند اور کڑک. چنانچہ مالا بدمنہ کے درس میں ہر مسئلہ کو بہت وضاحت کے ساتھ طلبہ کو سمجھاتے، جہاں ضرورت محسوس کرتے عملی مشق بھی کراتے، مثال دینے میں تو ان کی ذہانت قابل رشک تھی، ہر مسئلے میں ایسی حسی مثال پیش کرتے کہ مسئلہ ذہن نشیں ہو جاتا. واضح رہے کہ ان کا انداز تدریس دیگر اساتذہ سے جدا تھا، بایں طور کہ شروع شروع میں تو وہ مالابدمنہ کی عبارت پڑھتے، ترجمہ کرتے اور مسئلہ سمجھاتے، لیکن جب انھیں لگا کہ طلبہ کو کتاب سے کچھ مناسبت ہو چکی ہے انھوں نے ہمیں اس بات کا مکلف کر دیا کہ ہم خود عبارت اور ترجمہ دیکھ کر آئیں، اس کے بعد پورے سال یہ سلسلہ جاری رہا. عبارت اور ترجمہ ہماری ذمہ داری تھی اور تشریح و وضاحت مولانا فرماتے. یہ سلسلہ مالا بدمنہ سے شروع ہوا اور مرقات و عقیدۃ الطحاوی کو ہوتے ہوئے الادب المفرد تک پہنچا.

درس کے دیگر لوازمات :
ان کے درس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ سبق صرف کتاب تک محدود نہ رہتا، انھیں بے شمار اردو اشعار ازبر تھے جنھیں وقتا فوقتاً وہ طلبہ کے شوق کو مہمیز کرنے کے لیے سناتے، کچھ اشعار ہم نے ان سے سنے جو آج تک ہمیں یاد ہیں، مثلا
ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی
…..
تبصرہ جب کسی پر کیا کیجیے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجیے
…..
تم اپنے دل میں مدینے کی آرزو رکھنا
یہ اُس کا کام ہے آرزو کی آبرو رکھنا
…..
سمندروں کے سفر میں ہوا چلاتا ہے
جہاز خود نہیں چلتے، خدا چلاتا ہے

اور تجھے خبر نہیں میلے میں گھومنے والے
تیری دکان کوئی دوسرا چلاتا ہے

…..
شعر و شاعری کے علاوہ سبق میں پر مزاح واقعات و لطائف کا بھی سلسلہ رہتا، ساتھ ہی کبھی کبھار صحابہ کرام و اکابر کے عبرت انگیز واقعات کے ذریعہ ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتے. بالخصوص حدیث کے درس میں کئی مرتبہ وہ دوران درس آبدیدہ ہو جاتے جس کا اثر طلبہ کی عادات و اخلاق پر ظاہر ہوتا. راقم کے ایک درسی ساتھی اکثر استاذ محترم کا ذکر کرتے اور کہتے کہ میری زندگی میں گناہوں کا خاتمہ استاذ گرامی کی تقریر دل پذیر سے ہی ہوا اور سچے دل سے توبہ کی توفیق ہوئی. یقیناً ان کے سینکڑوں شاگردوں میں کئی افراد ایسے ہوں گے جو بلا شبہ ان کے لیے صدقہ جاریہ اور رفع درجات کا سبب ہوں گے.

خوش الحانی:
مذکورہ تدریسی خصوصیات کے علاوہ استاذ محترم اعلی درجہ کی خوش الحانی کے حامل تھے. جس کا اصل اندازہ ہمیں تب ہوا جب انجمن کواکب انور کے سالانہ اجلاس کی تیاری کے دوران معھد الانور کے ترانے کی مشق کا مسئلہ پیش آیا، چونکہ اس کا طرز ترانہ دارالعلوم سے کچھ الگ رکھنا تھا، یہ ترانہ بھی مولانا کے والد محترم حضرت مولانا ریاست علی بجنوری (استاذ حسیت دارالعلوم دیوبند) نے تیار کیا تھا. تو مولانا نے اس وقت اس ترانے کے کچھ اشعار ترنم میں پڑھے اور نہایت شاندار لہجے میں پڑھے، ہم طلبہ کے لیے یہ بالکل نئی بات تھی اس لیے ہم تو مولانا کے ترنم پر عش عش کرتے رہ گئے.

سخاوت و کشادہ دستی:

تدریس، عمدہ قوت حافظہ، شاندار لب و لہجے کے علاوہ ان کی سخاوت کا مظاہرہ بھی ہم نے بارہا مدرسہ میں دیکھا، وقفۂ استراحت میں اساتذہ کے لیے بارہا چائے ناشتے وغیرہ کا نظم فرماتے. یہ سخاوت اساتذہ اور احباب کے لئے خاص نہ تھی، بلکہ ان کے قدیم شاگرد جب ان سے ملاقات کے لیے دولت کدہ پر حاضر ہوتے تو وہ اپنے والد محترم کی طرح بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتے اور ان کے لیے ناشتہ وغیرہ کا اہتمام کرتے. اس کے علاوہ یہ سخاوت معھد الانور کے انعامی اجلاس میں بھی بارہا نظر آتی جب وہ اپنی جیب خاص سے طلبہ کو انعامات سے نوازتے.

صحت کا زوال اور وصال پُر ملال :
2010 میں جب احقر دارالعلوم وقف سے فراغت کے بعد معھد الانور (جامعہ امام محمد انور شاہ) میں تدریس سے وابستہ ہوا استاذ گرامی کا رویہ و سلوک بہت ہی مشفقانہ اور مخلصانہ رہا. ان کی صحت و تندرستی کی مثالیں ہمارے حلقہ احباب کا موضوع رہتی، البتہ کچھ سال قبل جب ان کا پتھری کا آپریشن ناکام ہوا اور اس کی وجہ سے ڈبل آپریشن کی نوبت آ گئی تو ان کی صحت کافی ڈھل گئی، مدرسے میں آمد و رفت تو تھی لیکن وہ پہلے سا طمطراق، چال ڈھال میں توانائی و تندرستی کا احساس نہ تھا. پھر بھی کسی ناگہانی اطلاع کی ہرگز توقع نہ تھی، لیکن جب وقت موعود آ پہنچے تو کوئی کیا کر سکتا ہے. جانا سب کو ہے، آج انھیں تو کل ہمیں. ہمارا تو عقیدہ ہی یہ ہے "انا للہ وانا الیہ راجعون”
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے لیے گزشتہ چند سالوں میں یہ تیسرا حادثہ ہے، پہلے صدر المدرسین حضرت مولانا عبد الرشید بستوی علیہ الرحمہ داغ مفارقت دے گئے، پھر حضرت مولانا شیث احمد بستوی علیہ الرحمہ کی رحلت ہوئی اور اب حضرت مولانا سعدان صاحب علیہ الرحمہ بھی جوار رحمت میں منتقل ہو گئے.
اللہ تعالٰی حضرت الاستاذ کی سیئات سے در گزر کرکے مغفرت کاملہ کا فیصلہ کرے، ان کے درجات بلند فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کو مولانا کا نعم البدل عطا فرمائے. آمین یا رب العالمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے