کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
محمد اللہ خلیلی قاسمی
سائنس جدید نے دنیا میں انقلاب عظیم پیدا کیا ہے۔ سائنسی ترقی کی بدولت آج دنیا کو تیز رفتار سواریاں اور نقل و حمل کے ذرائع و وسائل مہیا ہیں۔ فاصلے مٹ چکے ہیں۔ دنیا کے ایک سرے میں رہنے والا شخص دوسرے سرے میں بیٹھے ہوئے شخص سے بآسانی کبھی بھی رابطہ قائم کرسکتا ہے۔ مواصلاتی و اطلاعاتی میدانوں میں جدید سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی حیرت انگیز اور بے مثال ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں ابھی دس سال قبل ملک کی اکثر آبادی کے لیے فون ایک نامانوس چیز تھی۔ آج ہر فرد کے ہاتھ میں موبائل فون اس بات کی شہادت ہے کہ سائنس جدید نے عام زندگیوں میں کتنا زبردست انقلاب پیدا کیا ہے۔ سائنس کی ترقی نے نہ صرف اخلاق و اقدار اور رسوم و روایات کو ہی متاثر کیا ہے بلکہ خطوط نویسی، کیلی گرافی اور نہ جانے کتنے علوم و فنون پر بھی بجلی گرائی ہے۔
ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں موبائل فون جیسی خرچیلی اور بے ضرورت چیز کا شوقیہ اور بے تحاشہ استعمال ایک المیہ سے کم نہیں ہے ۔ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ ابھی بھی غربت و فلاکت سے دوچار ہے اور چالیس فیصد سے زیادہ آبادی علم کی روشنی سے بالکلیہ محروم ہے ۔ ہماری حکومتیں اس بات کو تو فخریہ بیان کرتی ہیں کہ ہندوستان دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ہے، لیکن یہ کم ہی لوگوں کو معلوم ہو پاتا ہے کہ ہندوستان دنیا کا غریب ترین ملک بھی ہے، کیوں کہ جس طرح اتنی بڑی آبادی والی جمہوریت دنیا میں کہیں نہیں ہے اسی طرح غریبوں کی اتنی بڑی آبادی بھی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارے ہندوستان میں اس وقت ۳۵۰-۴۰۰ ملین (یعنی ۳۵- ۴۰/ کروڑ) لوگ غریبی کی سطح سے نیچے(یعنی فی کس یومیہ ایک امریکی ڈالریعنی ۴۵ روپیہ یا اس سے بھی کم میں) زندگی گزاررہے ہیں ۔ جب کہ۰۰۴ ۲ء کے اندازے کے مطابق ۹۷۱/ ملین (یعنی ۹۷ / کروڑ) لوگ یومیہ دو امریکی ڈالر یا اس سے بھی کم پر زندگی کی گاڑی کھینچنے پر مجبور ہیں۔
جس ملک کی تقریباً ۴۰/ فیصد آبادی ناخواندہ ہے ، جہاںآ زادی کے ۵۸/ سال کے بعد بھی اب تک شہریوں کے لیے مفت پرائمری تعلیم کا نظم نہیں کیا جاسکا، ملک کی اکثر آبادی کو روٹی ، کپڑا ، مکان جیسی بنیادی سہولتیں مہیا نہ ہوسکیں، بجلی و سڑک، صاف پینے کے پانی اور مناسب علاج و معالجہ کا نظم نہیں ہوسکا، اس ملک کے رہنماؤں اور حکمرانوں کا فرض تو یہ تھا کہ وہ ہندوستانی باشندوں کی اس اقتصادی، تعلیمی اور سماجی صورت حال کے پیش نظر ان کی تعلیم و تربیت، معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی کی طرف دھیان دیتے۔ لیکن یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ آج ملک کو ایسے رخ پر ڈال دیا گیا ہے جس کی وجہ سے غریبوں اور امیروں ، نوکرشاہوں اور عوام کے درمیان پیدا شدہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ غریب کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ رہے ہیں اور امیر وں کے کروڑوں اربوں کھربوں میں وارے نیارے ہورہے ہیں۔ ملک کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھ کرمقامی و دیہی صنعتوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی سیکٹرز کے دروازے کثیر ملکی کمپنیوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں خصوصاً کمیونیکیشن کے میدان میں کثیر ملکی کمپنیوں کی ایک ہوڑ سی مچی ہوئی ہے، جو کمپیٹیشن میں اشیاء کے دام نام نہاد طور پر کم کر رہی ہیں اور عوام کو کمیونیکیشن کی اور نہ جانے کیسی کیسی سہولیات مہیا کر رہی ہیں، غریب عوام بھی خوش ہے کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر برق رفتاری سے گامزن ہے:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
کسی کو یہ سوچنے کی فرصت کہاں ہے کہ ہزاروں روپئے کے موبائل اور ان پر آنے والا ماہانہ خرچ کیا اتنا ہی لازم و ضروری ہے جتنا کہ اسے سمجھا اور باور کرایا جارہا ہے۔ غریب عوام کے لیے اپنی ترجیحات کا تعین سب سے اہم مسئلہ ہے مگر فیشن و ترقی کے سحر انگیز نعروں اور اشتہار بازیوں کی چکاچوند کے سامنے یہ بیچارے کچھ ایسے بھونچکے سے رہ جاتے ہیں کہ ان کے لیے دوسروں کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑنے کے علاوہ کوئی اوردوسرا راستہ نہیں رہ جاتا۔
ہمارے مشرقی ماحول میں وقت جیسی انمول دولت انتہائی سستی اور بے حیثیت ہے۔ مغرب سے ہم نے فیشن اور ترقی کے خواب دیکھنے ضرور سیکھے لیکن وقت کی قدر و قیمت جو مغربی معاشروں کا طرہ امتیاز ہے اس سے آج بھی بے بہرہ ہیں۔ موبائل فون وقت ضائع کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؛ یابیہودہ باتوں میں وقت اور پیسے اڑادیجئے یا کچھ نہیں تو گیم ، میوزک، تصاویر تو ہمہ وقت تفریح طبع کے لیے حاضر ہیں ہی۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے بانکپن اور رنگینیوں کے لیے موبائل فون کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ موبائل پر خوش گپی، عشق بازی اور ڈھینگا مشتی تو تھی ہی، اس پر اب میوزک، تصاویر اور ویڈیو کی سہولیات مستزاد۔ گزشتہ سال نئی دہلی کے ایک اسکولی طالب علم نے اپنی ساتھی طالبہ کی دہنی مباشرت کی جو ویڈیو کلپ تیار کرکے انٹرنیٹ پر پھیلادی تھی ، اس کی خبریں تو قارئین کوابھی بھی یاد ہوں گی۔
مذکورہ بالاسطور سے یہ غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہے کہ موبائل فون یا دیگر جدید آلات کی افادیت و اہمیت سے انکار کیا جا رہا ہے۔ موبائل فون یا دیگر آلات جدیدہ بلاشبہہ مفید اور اہم ہیں، زندگی کے مختلف میدانوں میں معاصر دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے ان کا استعمال حسب موقع ضروری بھی ہے۔ لیکن ہر ملک، ہر معاشرے بلکہ ہر فرد کی اپنی وسعت اور ضروریات کے مطابق ہر چیز کی اپنی اہمیت و افادیت ہے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ فضول خرچی، وقت کا ضیاع، میوزک، جاندار کی تصاویر اور ویڈیو وغیرہ اسلامی تعلیمات سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتیں۔ قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطانوں کا بھائی کہا گیا ہے (سورہ اسراء ، آیت ۲۷) ، یہ فضول خرچی خواہ پیسوں کی ہو یا وقت کی ۔ وقت کے سلسلے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ ”قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹ سکتے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کرلیا جائے؛ عمر کس چیز میں خرچ کی، علم پر کتنا عمل کیا، مال کہاں سے کمایا ، کہاں خرچ کیا اور جسم کو کن کن کاموں میں لگایا“۔ (ترمذی ، حدیث۲۳۰۸) تصاویر اور میوزک کے بارے میں احادیث میں نہایت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ تصاویربنانے والے کو قیامت کے دن شدید ترین عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔(بخاری، حدیث ۵۶۰۶) جس طرح تصاویر کھینچنا گناہ ہے اسی طرح تصاویر کا رکھنا بھی گناہ ہے۔ میوزک اور آلات موسیقی کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ جب (چند دیگر اور چیزوں کے ساتھ) معاشرے میں رقاصاؤں ، موسیقی یا آلات غناء(معازف) کا عموم ہوجائے گا تو اس وقت زلزلوں، سرخ آندھیوں، زمین دھنسنے وغیرہ جیسے ہلاکت خیز عذاب آئیں گے ۔ (ترمذی ، حدیث ۳۵۳۱)واضح رہے کہ موبائل کی ایسی ٹون ( گھنٹی) جو کسی گانے پر مبنی اوراسی کی طرف مشیر ہو وہ بھی گانے کے حکم میں ہے۔ آج موبائل جس طرح آلہٴ لہو و لعب بن گیا ہے اس کے پیش نظر بعید نہیں کہ یہ حدیث بالا میں مذکورلفظ ’معازف‘ کا مصداق بن گیا ہو اوراس قرآنی آیت کے ضمن میں داخل ہوگیا ہو جس میں کہا گیا ہے: ”کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے اور اسے ہنسی بنالیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔“ (سورہ لقمان، آیت ۶)